نظریاتی نواز شریف کا نظریہ آخر ہے کیا؟


مبارک ہو بھئی نواز شریف نظریاتی ہوگئے ہیں یعنی ان کو سیاسی بصیرت کا نروان حاصل ہوا ہے۔ ان کویہ نروان کسی اور نہیں مشر محمود خان کی سنگت میں حاصل ہوا جس نے ان کے اسلامی جمہوری اتحاد کے ستاروں کی جھرمٹ میں افق سیاست پر طلوع کا1990 ء میں کوئٹہ میں کالے جھنڈے ہاتھ میں لئے اس نعرے کے ساتھ استقبال کیا تھا ”آئی جےآئی، آئی ایس آئی۔ بھائی بھائی“ اور ”سیاست میں اداروں کی مداخلت نا منظور“ ۔ مجھے یہ سب اس لئے یاد ہے کہ ایک کالا جھنڈا میرے ہاتھ میں بھی تھا۔

مرحوم محمد خان جونیجو کے ہاتھوں سے چھین کرمسلم لیگ کے جھنڈے پر خاندان شریفاں کا جو قبضہ پنجاب کی پگ کو داغ سے محفوظ کرنے اور بے نظیر کی شکل میں مغربی ایجنڈے سے ملک کو پچانے کے عہد کے ساتھ ہوا تھا تو کیا وہ بغیر کسی سوچ اور نظریے کے تھا؟ نواز شریف کے مکمل نظریاتی ہونے کا مطلب اگرصبح کے بھولے کا شام کو گھر آنا ہے تو بھولا جانے اور اس کا باپ کہ وہ گھر میں آنے دیتا ہے یا نہیں۔ اگر اس اعلان کا مقصد ایک نئے نواز شریف کا جنم ہے تو ہم صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ جالب کے اشعار ترنم سے پڑھنے اور فیض کی نظمیں گنگنانے سے آدمی انقلابی ہوتا ہے نہ نظریاتی۔ اگر ایسا ہوتا تو حسن ناصر، نذیر عباسی، اور ایاز سموں سے ٹینا ثانی، ملکہ ترنم اور مہدی حسن بڑے نظریاتی و انقلابی کہلاتے۔

استاذان سیاست کہتے ہیں کہ نظریات بھی اعتقادات کی طرح گھٹی میں گھول کر پلائے جاتے ہیں جو انسانی جسم میں داخل ہو کر اس کے دل ودماغ کو ساری زندگی کے لئے اپنا تابع کرکے مفلوج کر دیتے ہیں۔ ایک دفعہ داخل ہونے کے بعد نظریات کے جراثیم انسان کو ”انا الحق“ کے وسوسے میں بھی مبتلا کردیتے ہیں جس کے بعد نظریاتی آدمی سود و زیان، نفع و نقصان کی سرحدوں سے پار پہنچ کر فکر نہ فاقہ عیش کر کاکا بن جاتا ہے۔

ہر وقت اقتدار میں رہنے کی خواہش والی درمیانی سیاست کے علاوہ نظریاتی سیاست ہمارے ہاں دو طرح کی ہوتی رہی ہے۔ ایک دائیں بازو کی سیاست جس نے قائد اعظم پر بھی کتابوں میں داڑھی لگوائی اور ان کے وفات کے فوراً بعد ہی ان کی 11 اگست کی تقریر کو دفن کر کے قرار داد مقاصد کا پتھر ملک کی بنیاد میں رکھ دیا ہے۔ تاریخی طور پر یہ سیاست امریکی کیمپ کی سیاست کہلاتی ہے۔ دوسری بائیں بازو کی سیاست ہے جس کے ماننے والےاس ملک میں ہمیشہ قائد اعظم کی 11 اگست والی تقریر کو میگنا کارٹا کا درجہ دیتے ہیں۔ یہ لوگ قرار داد پاکستان کے صرف ذکر کو ہی کافی نہیں سمجھتے بلکہ اس پر من و عن عمل کرنے کو ہی پاکستان بنانے کا مقصد سمجھتے ہیں۔

نواز شریف کو نظریے کی خلعت عطا کرنے اور ان کے سر پر دستار سیاست رکھنے والے جنرل جیلانی کا اپنا نظریاتی حسب نسب بھی روس کی عفریت کے خلاف امریکہ کی طرف قبلہ رو ہوئے جنرل ضیا ء کے خانوادہ سیاست سے ملتا ہے۔ جنرل ضیا ء نے بھی نواز شریف کے سر پر دست شفقت رکھنے کے ساتھ اپنی زندگی ان کو لگ جانے کی درویشی دعا بھی دی تھی۔ ان کی موت کے بعد ایک اچھے مرید کی طرح نواز شریف نے ان کے مزار ناپرسان کو مرجع خلائق بنانے کی سعی ناکام بھی کی لیکن جب ان کے بیٹے اعجاز الحق نے زنبیل سیاست پر اپنا بھی حق جتایا تو انھوں نے کاسہ ضیائی اور قبا ئے جیلانی دونوں چھوڑ کر ”قدم بڑھاؤ نواز شریف ہم تمھارے ساتھ ہیں“ کی تال پر دھمال اکیلے ہی شروع کیا۔

نواز شریف نے نظریات سے بڑھ کر ضروریات کی سیاست کی اور خود کو ایک اچھے منتظم اور حاکم کے طور پر منوانے کی کوشش کی۔ کہیں موٹر وے بناکر جھنڈے گھاڑ دیے تو کہیں فوری انصاف کے لئے مظلوموں اور مضروبوں کے در پر پہنچ گئے۔ ایک گھنٹے کی نشست میں آئین میں ترمیم کرکے اور خود کو ایک بار پھر بھٹو والے اختیارات بھی دیدئے۔ لیکن، مگر اختیارات، ترامیم اور تدابیر سب دھر ے کا دھرا رہ گئیں جب 111 نے دیواریں پھلانگیں اور تالے توڑ دیے۔ دس سال کے وعدے پر حجاز چلے گئے تو اپنے نظریات کی تشریح میں ابن عربی کی طرح فتوحات مکیہ نہیں لکھی بلکہ رسم آہن گری میں ہی اپنا لوہا منوایا۔

مسند اقتدار سے بدست قاضی خاک راہ پر گر کر پلٹ کر دیکھا کہ انصاف کے دیوتا کے ہاتھ میں جھولتے ترازو میں ماپ تول کے باٹ بدل گئے تھے۔ ترازو کے باٹ بدل گئےتو آج کا سچ کل سچ نہیں رہا اور نہ کل کا سچ آج سچ ہے۔ کیا سچائی کے بدل جانے سے حقیقت بھی بدل گئی ہے اس سوال کے جواب کی تلاش میں کوئٹہ کے آستانے پر بیٹھے چادر پوش محمود خان کے دربار میں جب یہ بھید کھل گیا کہ ووٹ کا تقدس وہ حقیقت ہے جو ہر دور میں یکساں طور پر پامال ہوئی ہے تو درویش کی صدا آئی کہ ” ووٹ کو عزت دو“ ۔

مگر کیا ان کے نامزد وزیر اعظم نے سینٹ کے منتخب چیرمین کو جعلی کہا اور ان سے ملنے سے انکار کردیا توکیا یہ ووٹ کے تقدس کی پامالی نہیں؟ صدر اور سینٹ کے چیئر مین اور وائس چیئرمین کے لئے پورا پاکستان بالواسطہ ووٹ دیتا ہے۔ ملک کی صوبائی اسمبلیاں اور قومی اسمبلی سینیٹر زمنتخب کرتی ہیں جو اپنا چیئرمین منتخب کرتے ہیں۔ مگر آپ کا وزیر اعظم وفاق کی اس علامت کو جعلی کہتا ہے۔ کیا وہ اس لئے جعلی ہے کہ ووٹ دینے والوں نے کسی کے کہنے پر ووٹ دیے ہیں یا نہیں دیے ہیں؟ غلام اسحٰق خان، راجہ ظفرالحق، وسیم سجاد کو کیاآپ ووٹ دینے سے پہلے جانتے تھے؟ تو آپ نے ان کو ووٹ کیوں دیا تھا؟ ووٹ کا تقدس صرف یہ نہیں کہ آپ کے اقتدار کو تحفظ دینے والا ووٹ ہی مقدس ہے۔ آپ کو شکست دینے والا ووٹ بھی مقدس ہوتا ہے اس کی بھی عزت ہوتی ہے اگر اپنی شکست دینے والے ووٹ کو عزت نہیں دیں گے تو پھر شکست بھی ووٹ کے ذریعے نہیں ہواکرتی۔

کیا نواز شریف کے نامزد وزیر اعظم کی قاضی القاضاۃ سے ملاقات کا کوئی دستوری جواز ہے؟ کیا یہ بھی آپ کا نظریہ ہے کہ منتخب حکومت اپنے ووٹ دینے والوں کے بجائے قاضی کی خواہشات کی ترجمانی کرے؟ تو کیا آپ کے وزیر اعظم اپنی ملاقات میں قاضی سے یہ منوانے میں کامیاب ہوگئے کہ آپ کو نکالنا غلط تھا کیونکہ آپ سے کہا جاتا تو آپ خود ہی چلے جاتے؟ کیا آپ کے مرشد ضیاءالحق نے نہیں بتایا تھا کہ تاریخ میں ایک قبر اور دو لاشوں کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ قبریں صرف زمین کے اندر ہی نہیں ہوتی ہیں۔ قبریں تاریخ کے صفحات پر بھی ہوتی ہیں جن میں ایک طرف ارسطو، گلیلیو، منصور اور ابن مریم کے نظریات کے مینار ہیں جو ہزاروں سال بعد بھی جگمگاتے ہیں تو دوسری طرف شاہی محلات کے زمین بوس کھنڈرات۔ آپ کہاں کھڑے ہیں؟ نظریات کے ساتھ یا کھنڈرات میں؟

نظریات کے سفر میں نروان پانے میں زندگیاں بیت جاتی ہیں مگر یہ مشرمحمود خان کا ہی طرہ امتیاز ہے کہ صرف سال بھر میں ہی آپ کو مقام ولایت پر پہنچا دیا۔ مگر آپ نے ابھی تک بتایا نہیں کہ وہ نظریہ کونسا جس کا آپ کو نروان ملا ہے۔ محمود خان اچکزئی کے پرکھوں سے متاثر ہوکر کیا آپ بائیں بازو کے بالشویک ہوگئے ہیں؟ نہیں تو کیا آپ اپنے مخالفین کو نہ ماننے والے شاؤنسٹ ہوگئے ہیں جس کا اظہار آپ کے نامزد وزیر اعظم نے سینٹ کے منتخب چیئرمین سے نہ مل کر کیا ہے؟ آپ کے نظریاتی ہونے کی خوشخبری کے ساتھ آپ کے منتخب وزیر اعظم کی بے مقصد ملاقاتیں ذہنوں میں شکوک پیدا کر رہی ہیں کہ کہیں آپ کی مراد نظریہ ضرورت سے تونہیں کیونکہ نظریہ ضرورت کا جنم ہمیشہ ایسی ہی ملاقاتوں میں ہوتا رہا ہے۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan