پرائیویٹ سکول فیڈریشن والے مرزا صاحب ملالہ نہیں ہیں


صدر آل پاکستان پرائیویٹ سکول فیڈریشن مرزا کاشف علی صاحب نے جمعہ 30 مارچ کو یوم سیاہ قرار دیتے ہوئے یہ حکم جاری کیا ہے کہ تمام پرائیویٹ اساتذہ اس دن اپنے بازوؤں پر سیاہ پٹی باندھیں۔ اب بعض افراد یہ اعتراض کریں گے کہ باحمیت پاکستانی قوم کیسے جمعے جیسے مبارک دن کو یوم سیاہ قرار دے سکتی ہے، ہم نے تو امریکی بلیک فرائی ڈے کو بھی گڈ فرائی ڈے بنا کر اپنایا ہے تو اس جمعے کو کیسے یوم سیاہ قرار دے دیں۔ لیکن غور کرنے پر ہر ذی شعور شخص اس بات سے اتفاق کرے گا کہ جمعۃ المبارک کو مرزا کاشف علی صاحب نے راضی خوشی یوم سیاہ قرار نہیں دیا ہے۔ اگر ملالہ اس دن پاکستان نہ ہوتی تو نہ مرزا صاحب جمعے کو یوم سیاہ قرار دیتے اور نہ ہی وہ ”آئی ایم ناٹ ملالہ“ کا سلوگن اپناتے۔

بعض افراد یہ بھی اعتراض کریں گے کہ مرزا صاحب کو یہ اعلان کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ہے کہ وہ ملالہ نہیں ہیں۔ انہیں تو دور سے دیکھ کر ہی پتہ چل جاتا ہے کہ وہ ملالہ نہیں ہیں۔ کوئی بھی دیکھ سکتا ہے کہ نہ تو مرزا صاحب زنانہ کپڑے پہنتے ہیں، نہ ان کے لمبے بال ہیں، نہ وہ نیل پالش یا لپ اسٹک وغیرہ لگاتے ہیں۔ کم از کم پبلک میں وہ ایسا کرتے دکھائی نہیں دیے ہیں۔ تو پھر ان کو اتنے اصرار سے یہ کیوں کہنا پڑا کہ ”آئی ایم ناٹ ملالہ“۔ ظاہری شباہت کا معاملہ ایک طرف لیکن کوئی ذی شعور شخص غور کرے تو وہ سمجھ جائے گا کہ صدر آل پاکستان پرائیویٹ سکول فیڈریشن مرزا صاحب ملالہ کیوں نہیں ہیں۔ بلکہ ملالہ نہیں ان کی ایک تصویر میں تو ہمیں رومانیہ کے علاقے ٹرانسلوینیا کے ایک کاؤنٹ کی سی وجاہت دکھائی دیتی ہے۔مرزا صاحب کی پرائیویٹ سکول فیڈریشن کی تعلیمی خدمات سب کے سامنے ہیں۔ بیشتر پرائیویٹ سکول چلانے والے ننھے ننھے معصوم بچوں کو اپنے سکولوں میں داخل کرتے ہیں۔ وہ بچوں کو ہر وقت اپنی نگاہ میں رکھنا چاہتے ہیں اس وجہ سے وہ سرکاری سکولوں کی طرح کوئی لمبی چوڑی عمارت نہیں بناتے جہاں اتنے زیادہ کمرے ہوں کہ بچے ان میں کھو جائیں۔ نہ ان کے اتنے بڑے میدان ہوتے ہیں کہ بچے ان میں دوڑ دوڑ کر اپنی صحت تباہ کر بیٹھیں اور گھر جائیں تو ان کی مائیں بے قرار ہو جائیں کہ ہمارا نونہال اتنا کمزور کیوں ہو گیا ہے۔ بلکہ اکثر نجی سکول چھوٹی سی عمارت میں سینکڑوں بچوں کو تعلیم دیتے ہیں جہاں وہ ہر وقت استاد کی نگاہوں کے سامنے رہیں اور کھیل کود کر اپنا وقت ضائع نہ کریں۔ غالباً مرزا صاحب اور ہمنوا اس قدیم مثل کے قائل ہیں کہ کھیلو گے کودو گے تو ہو گے خراب۔ وہ بچے خراب نہیں کرنا چاہتے۔

لیکن ماہرینِ اطفال یہ کہتے ہیں کہ بچوں کو صرف تعلیم ہی نہیں دینی چاہیے۔ ان کے لئے غیر نصابی سرگرمیاں اہم ہوتی ہیں۔ اس لئے پرائیویٹ سکول بچوں سے ان سرگرمیوں کے لئے سال کے شروع میں ہی ہزاروں روپے لے لیتے ہیں اور اس رقم کے بدلے بچوں کو کاغذ کترنا، رنگ کرنا اور سوانگ بھرنا وغیرہ سکھاتے ہیں۔ ان سرگرمیوں کے علاوہ سال میں دو چار فنکشن کیے جاتے ہیں جن میں بچوں کو خرگوش، بھالو یا بندر وغیرہ بنایا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لئے سکول کھلے دل سے رقم خرچ کرتا ہے جو والدین تنگ دل سے دیتے ہیں۔

اب بچے کو ہر وقت زیرنگرانی رکھنے، اسے سکھانے پڑھانے اور بھالو بندر بنانے پر پیسے تو لگتے ہیں۔ یہ پیسے سکول والے بہت محنت سے پورے کرتے ہیں تاکہ بچوں کی تعلیم کا سلسلہ جاری رہ سکے۔ وہ بچارے بہت محنت سے بیس روپے کی کاپی اپنے سکول کے کور کے ساتھ ساٹھ روپے کی بیچتے ہیں، تین سو روپے قیمت کا یونیفارم ہزار روپے میں دیتے ہیں، پانچ سو کا بستہ بارہ سو میں فراہم کرتے ہیں۔ طرح طرح کے حیلے سے حق حلال کی کمائی والدین سے لیتے ہیں۔ کیا یہ سب کچھ کرنا آسان ہے؟

بعض پرائیویٹ سکولوں میں بچوں کے گریڈز کا خاص خیال رکھا جاتا ہے تاکہ والدین بد دل ہو کر اپنے بچوں کی تعلیم کا سلسلہ منقطع نہ کر دیں۔ حقیقت یہی ہے کہ بعض والدین بہت نازک مزاج بلکہ سڑیل ہوتے ہیں۔ بچے کی تعلیمی کارکردگی اچھی نہ ہو تو سکول پر عیب دھر کر بچہ سکول سے اٹھا لیتے ہیں۔ اب پرائیویٹ سکول والوں کو کیا خبر کہ وہ بچے کو کسی دوسرے سکول میں ڈالیں گے یا پڑھائی چھڑوا کر اسے ورکشاپ پر بٹھا دیں گے۔ اس لئے وہ بچے کے مستقبل کے لئے اسے اے اور اے سٹار وغیرہ دے دیتے ہیں خواہ بچہ دوسری تیسری جماعت میں پہنچ جائے اور اسے دس تک گنتی نہ آتی ہو۔ اپنے ملازم کے بچوں کے ساتھ یہ ہوتے ہم نے خود دیکھا ہے۔ حالانکہ وہ صرف پندرہ سو روپے ماہانہ فیس دیتا تھا لیکن فرمائش اس کی یہ تھی کہ اس کے بچے پڑھائی میں اچھے ہوں۔ ایک ریزلٹ کے بعد وہ سکول والوں سے لڑ پڑا کہ بچے کے گریڈ اتنے گندے کیوں ہیں، میں بچہ سکول سے اٹھا لوں گا۔ اس کے بعد سکول والوں نے بچے کا اتنا زیادہ خیال رکھا کہ اس کے گریڈ کبھی گندے نہ ہوئے۔

لیکن بجائے اس بات کے کہ پرائیویٹ سکول والوں کی حوصلہ افزائی کی جائے، ملالہ جیسے افراد ان کی زندگی مشکل بنا دیتے ہیں۔ کبھی ستر کروڑ روپے حکومت پاکستان کو دے دیتے ہیں کہ سرکاری سکولوں کو بہتر کرو، کبھی پاکستانی بچیوں کو سکالرشپ دے دیتے ہیں کہ ملک میں یا باہر جا کر پڑھو، کبھی نوبل انعام کے کروڑوں روپے ایک فلاحی سکول بنانے پر لگا دیتے ہیں تاکہ علاقے کے پرائیویٹ سکول بند ہو جائیں، کبھِی دنیا بھر سے پیسے اکٹھے کر کے لانے شروع کر دیتے ہیں تاکہ ایسے ٹپ ٹاپ والے سکولوں کا جال ملک بھر میں پھیلا دیں۔

لیکن صاحب، جو سکول مغرب کے ڈالر کی امداد سے بنا ہو گا اس کی عمارت، اساتذہ اور عملہ چاہے جتنا بھی اچھا ہو، کیا وہ ہمیں قبول ہے؟ بعض ناسمجھ افراد یہ اعتراض کریں گے کہ ہمارے ملک کا بجٹ تو بیلنس ہی غیر ملکی ڈالروں سے ہوتا ہے تو ہم میں سے ہر ایک کی تعلیم اور خوراک میں یہ ڈالر شامل ہیں، لیکن کیا وہ افراد یہ نہیں جانتے کہ لاعلمی میں ایسا مال کھانا پینا گناہ نہیں ہوتا ہے؟

ملالہ ایسے سکول بنا رہی ہے جو بہترین تعلیمی خدمات دینے والے پرائیویٹ سکولوں کو تباہ کر دیں تو کاشف مرزا صاحب کیا یوم سیاہ نہیں منائیں گے؟ مرزا صاحب کسی سے ڈرتے ورتے نہیں ہیں۔ جسے غلط سمجھتے ہیں اس کے خلاف ڈٹ جاتے ہیں۔

مثلاً ابھی مارچ 2018 کے شروع میں ہی پنجاب سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے بچوں کے خلاف جنسی جرائم کو کنٹرول کرنے کی نیت سے تمام پرائیویٹ اور سرکاری سکولوں میں بچوں کی ڈانس پرفارمنس پر پابندی عائد کر دی تھی۔ پنجاب سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر زاہد بشیر گورایہ صاحب نے ڈان ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ڈانس پرفارمنس پر پابندی کا اطلاق تقسیم انعامات، پیرنٹس ڈے، ٹیچرز ڈے اور دوسرے ایونٹس پر ہو گا، اور ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اس پابندی کی خلاف ورزی کرنے والے سکولوں کا لائسنس معطل کر دے گا۔

مرزا کاشف علی صاحب کو یہ پابندی بچوں کی صحت کے لئے ضرر رساں لگی ہو گی تو انہوں نے الحمرا ہال میں لاہور سکول سسٹم اور آل پاکستان پرایٔیویٹ سکولز فیڈریشن کے زیر اہتمام تقسیم انعامات کی سالانہ تقریب کا انعقاد کیا جس میں بچیوں اور بچوں نے خوب ڈانس کیا۔ اس ڈانس کو مرزا کاشف علی اور سکول کے پرنسپل مرزا عاطف علی نے ذاتی طور پر ملاحظہ کیا۔ بلکہ سٹی 42 چینل کی ویڈیو کے مطابق اس سرکاری پابندی کو اس کی اوقات دکھانے کے لئے سرکاری افسران کو بھی اس تقریب میں بطور گواہ مدعو کیا گیا۔ آپ خود بتائیں کہ یہ دن یوم سیاہ نہیں کہلائے گا تو کیا کہلائے گا؟

الحمرا ہال میں لاہور سکول سسٹم اور آل پاکستان پرائیویٹ سکولز فیڈریشن کے زیر اہتمام تقسیم انعامات کی سالانہ تقریب کا انعقاد

الحمرا ہال میں لاہور سکول سسٹم اور آل پاکستان پرائیویٹ سکولز فیڈریشن کے زیر اہتمام تقسیم انعامات کی سالانہ تقریب کا انعقاد

https://www.city42.tv

Posted by City42 on Thursday, March 29, 2018

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar