ايک لڑکی کے جذبات اور لڑکے والوں کی تفريح


اتفاق سے ہمیں ایک بچی کا رشتہ کرانے سے واسطہ پڑ گیا۔ پہلےتو يہ کام نائی مراسی کراتے تھے ليکن آجکل تو ہر کوئی کرا رھا ہے۔ ھم نے بھی دو چار لوگوں سے بات کی کہ کوئی رشتہ ہو تو بتانا۔ ايک دن محلے کی خالہ نے کہا بچی کی تصوير دو ۔ ھم پہلے بازار گئے اچھی سی بوتيک سے مختلف سٹائل کے کپڑے ليئے۔ پھر بيوٹی پارلر گئے بچی کو تيار کرا کے کسی جاننے والے سے سام سنگ s8 مانگا اور بہت سی تصويريں بنا کے خالہ کو ديں۔

اللہ خوش رکھے خالہ کو ان کی کال آئی کہ لڑکے والے اپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ ہم تو خوش ہو گئے۔ ان کا فون آيا کہ کل آئيں گے۔ رات کو نيند تو کيا آنی تھی۔ خير صبح ھوتے ھی گھر صاف کرايا، پردے بدلے اور طرح طرح کے پکوان بنائے۔ جيسے پيروں يا سنياسيوں کے لئے لوگ بناتے۔ بچی کو بيوٹی پارلر لے گئے اور خود بھی ساری فيملی تيار ہو کے انتظار کرنے لگے۔ آخر کار ايک خوبُصورت گاڑی آ کے رکی۔ یہ معلوم نہیں کہ لڑکے والوں کی تھی یا کرائے کی تھی۔ خير ايک عورت خوب ميک اپ کئے گردن اُوپر کر کے نخرے سے گاڑی سے باہر آئی۔ اندازہ ھوگيا کہ لڑکے کی ماں تھيں۔

پھر ايک شريف سا آدمی نکلا جسکے ھاتھ ميں کچھ شاپرز تھے۔ پھر ايک نوجوان لڑکی نکلی جس نے بيگ سے شيشہ نکال کر خود کا جائزہ ليا ۔ اور اندر آگئے۔ لڑکے کی ماں نے گھر کا جائزہ ليا۔ بہن نے خود کا اور والد تو بيٹھ گئے۔ لڑکے کی ماں نے ہمارا انٹرويو شرُوع کر ديا۔ گھر اپنا ہے يا کرائے کا۔ ادھر کب سے رہتے ہو ۔ پيچھے کدھر کے ہو۔ بچی کی تعليم کتنی ہے۔ کس سکُول سے لی۔ بچی کی اصل عمر کتنی ہے وغيرہ وغيرہ۔ لڑکے کا باپ تو چپ کر کے بيٹھا رہا جيسے انتظار ميں ہو کہ اگلے گھر جلدی جائيں۔ خير خدا خدا کرکے ہمارا انٹرويو ختم ھُوا تو کہنے لگيں لڑکی کو بُلائيں۔

بچی ٹرالی سجائے اندر داخل ہو ئی تو سب اُس کو سر سے پائوں تک ايسے ديکھنے لگے جيسے ہڈيوں والے ڈاکٹر ہوں۔ بچی گھبرا سی گئی۔ اب لڑکے کی بہن کی باری آئی اور بچی سے انٹرويو شروُع ۔ کون سے سکول ميں گئی تھی؟ بچی کہتی ايجوکيٹر ميں ۔ کہتی اچھا ميں تو بيکن ميں پڑھی۔ پھر جاب کے بارے میں پوچھا۔ سب باتيں پوچھنے کے بعد کہا، اپنا فون نمبر بھی دو آخری فيصلہ تو ميں نے کرنا۔ خير ہم سر جھکائے ھر حکم کی تعميل کرتے گئے۔

وہ لوگ کوئی دو گھنٹہ بيٹھے اور چلے گئے۔ اور کہا فون پہ بتائيں گے کہ بچی پسند آئی کہ نہيں۔ بعد ميں لڑکے کی بہن روز کال کرتی تو بچی کہنے لگی اپ لوگ ان سے کنفرم کر لو۔ رشتہ پکا ھو تو ميں بات کروں، ورنہ ميں نےنہيں کرنی۔ خير دس دن گزر گئے ہم نے خود ہی فون کرکے پُوچھا تو کہتے سوری ہميں لڑکی پسند نہيں آئی۔ خير روز کوئی آتا ہے روز بچی تيار ہو کے سامنے آتی ايک نئی اُميد کے ساتھ۔ جب وہ چلے جاتے تو ہميں بچی کے جذبات ديکھ کے جيسے ضمير جھنجہوڑ رھا ہوتا کہ يہ ايک جيتا جاگتا انسان ھے۔ اور ہم نے شوکيس پہ سجی گڑيا بنا ليا اس کو ۔ اس کے کيا جذبات ہوتے ہوں گے جب روز ايک بے جان گڑيا بن کران کے سامنے جاتی ھے۔

روز لوگ آتے اور یہ سلسلہ چلتا رہتا۔ اب تو ھم بھی تھک گئے۔ کہ کب اس کی آخری قسط ہو۔ اللہ ہر بچی کے نصيب اچھے کرے اور وہ لڑکے والوں کی تفريح کے باعث نہ بنے۔ ماں باپ ارمانوں سے پالتے ۔ پڑھاتے لکھاتے اور جب کوئی ديکھنے آئےاور پھر ريجکٹ کر ديں اُس کی رنگت يا قد کی وجہ سے جو اُس کے اختيار ميں ہے ھی نہيں۔ تو پھراُس کی پرسنينلٹی ڈيمج ہو جاتی جو دوبارہ مشکل سے بحال ہوتی۔ آج کل لڑکے کی بہن جو يا تو ابھی کنواری ہو يا طلاق یافتہ ہو کر ميکے رہتی ہو وہ ايک وِلن کا رول نبھا رہی ھے، ہم مڈل کلاس فيملیز ميں۔ ليکن پاکستان کے لوگ نقل کے ماہر ہيں۔ شاید يہ طريقہ انڈيا کے ڈراموں سے سيکھا۔ کيوں کہ آجکل پھوپھی کو بُوا اور بہنُوئی کو پاکستانی جيجا کہتے سنائی دیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).