ملالہ کی مشہوری ایک کامیاب منصوبہ ہے


ہر ذی شعور شخص یہ بات جانتا ہے کہ ملالہ کو مشہور کیا جانا ایک منصوبے کا نتیجہ ہے۔ ورنہ تو ستر ہزار پاکستانی دہشت گردوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔ ان میں ہزاروں بچے بھی ہیں۔ آرمی پبلک سکول کے درجنوں بچے بھی دہشت گردوں کا نشانہ بنے ہیں۔ بہت سے بچے ملالہ سے اچھی تقریر کر لیتے ہیں۔ خود ہمارا برخوردار نہ صرف ملالہ سے اچھی تقریر کرتا ہے، بلکہ ہماری رائے میں اس سے زیادہ سمارٹ بھی ہے۔ پھر ملالہ ہی کیوں اتنی مشہور ہوئی ہے؟

آپ نے نوٹ کیا ہو گا کہ ملالہ کو ڈائری لکھنے کی وجہ سے شہرت ملی ہے۔ اب آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ کیا ایک بارہ برس کی بچی ڈائری لکھ سکتی ہے؟ ہم تو اس عمر میں بھی نہیں لکھ سکتے تو اس نے بچپن میں کیسے لکھ لی؟ یہ ضرور اس کے ابا نے اس کو لکھ کر دی ہو گی۔ بہت سے والدین اپنے بچوں کا ہوم ورک وغیرہ بھی خود کر کے دیتے ہیں اور تقاریر وغیرہ تو سو فیصد والدین ہی لکھ کر دیتے ہیں۔ بچے بس اس کا رٹا لگا لیتے ہیں اور ڈائس پر کھڑے ہو کر اسے دہرا دیتے ہیں۔ تو اس سے یہ ثابت ہو گیا کہ ملالہ نے بھی خود سے ڈائری نہیں لکھی تھی۔

اب ایک پہلو پر مزید غور کریں۔ ہمارے ہاں کے اچھے بھلے بڑے اور مشہور مصنفین بھی کوئی مضمون لکھ دیں تو بی بی سی والے اسے نہیں چھاپتے۔ سو نخرے کرتے ہیں۔ معاہدے کرتے ہیں۔ ساری عمر کی ریاضت کے بعد آپ کسی بڑے ادارے میں شائع ہو سکتے ہیں۔ ہماری طرح آپ نے بھی سرتوڑ کوشش کی ہو گی مگر بی بی سی، اخبار اور ویب سائٹس والے بالکل بیکار مصنفین کو تو چھاپ دیتے ہیں مگر ہمارے آپ کے جیسے اچھے مصنفین کے دانش بھرے منطقی مضامین کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ کیونکہ وہ حق بات سے گھبراتے ہیں۔ ویسے بھی تمام میڈیا ادارے جو ہماری حق بات نہ شائع کریں وہ کسی ایجنڈے پر چل رہے ہوتے ہیں۔ تو بارہ برس کی ملالہ کیسے شائع ہو گئی؟ ظاہر ہے کہ یہ کوئی گیم کی گئی تھی۔

اب کسی کا کیا مفاد ہو سکتا ہے کہ ایک عام سی پاکستانی بچی کو بین الاقوامی سطح پر اتنا مشہور کر دے کہ دنیا بھر کی سپر پاورز کے سربراہان بھی اس سے ملنا باعث عزت سمجھیں؟ پاکستان کے خلاف ملالہ نے کبھی بیان نہیں دیا۔ ہاں طالبان اور دہشت گردی وغیرہ کے خلاف بولتی ہے۔ فلسطین اور شام میں قتل عام کے خلاف بھی اس نے باتیں کی ہیں اور ڈانلڈ ٹرمپ کو بھی چار کھری کھری سنا دی ہیں۔ اس کا اثر اتنا زیادہ ہے کہ جب پاکستان دشمنی میں مشہور افغان صدر حامد کرزئی نے ہمارے دوست اور عظیم صحافی فیض اللہ خان کو افغان جیل سے رہا کرنے سے انکار کر دیا تھا اور پاکستانی حکومت کے علاوہ پشتون اکابرین کی سفارش بھی نہیں مانی تھی، تو ملالہ کے ایک فون پر ہی وہ مجبور ہو گیا تھا کہ فیض اللہ خان کو رہا کر دے۔ حد یہ ہے کہ ہمارے ازلی و ابدی دشمن بھارت کی دیواروں پر بھی ملالہ کی تصاویر پینٹ کی جا رہی ہیں اور اسے بھارتی بچوں اور خواتین کے لئے ایک رول ماڈل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔

2012 میں گولی لگنے کے بعد اب پانچ چھے برس بعد ملالہ وطن واپس آئی ہے تو اس کے لئے حکومت پاکستان دیدہ و دل فرش راہ کیے ہوئے ہے۔ وزیراعظم نے فرمایا ہے کہ ملالہ عام پاکستانی نہیں ہے اس لئے اس کی حفاظت حکومت پاکستان پر فرض ہے۔ ملالہ کو خود سے ہیلی کاپٹر دے کر سوات بھیجا گیا ہے حالانکہ چیف جسٹس صاحب کو کہہ کر حکومت سے ہیلی کاپٹر مانگنا پڑتا ہے تاکہ وہ اتوار کے دن سرگودھا کے میڈیکل کالج کا دورہ کر سکیں۔ ملالہ کی حفاظت پولیس، انٹیلی جنس اور آرمی کر رہی ہے۔

حکومت پاکستان ملالہ کو اب تک ستارہ شجاعت اور دیگر ایوارڈ دے چکی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر ملالہ کو نوبل پرائز سمیت درجنوں ایوارڈ مل چکے ہیں۔ کینیڈا کی ایک یونیورسٹی نے اسے ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی ہے تو بین الاقوامی فلکیاتی یونین نے مریخ اور مشتری کے درمیان گردش کرنے والے ایک شہابیے کو ملالہ کے نام سے منسوب کر کے اسے آسمان کی بلندیوں پر پہنچا دیا ہے۔

لیکن کیا آپ یہ جانتے ہیں کہ ملالہ کا سب سے پہلا بڑا ایوارڈ کون سا تھا؟ ملالہ کو یہ ایوارڈ دینے والی پاکستانی حکومت تھی جس نے ملالہ یوسفزئی کو اپنا پہلا نیشنل یوتھ پیس پرائز 2011 میں دیا تھا۔ حکومت پاکستان کے دیے گئے اس ایوارڈ کے بعد ہی ملالہ کے پروفائل کو یکایک اہمیت ملنے لگی۔ جبکہ نوبل پیس پرائز اسے کئی برس بعد 2014 میں ملا۔

کیا ان سب ٹکڑوں کو جوڑ کر آپ سوچ سکتے ہیں کہ ملالہ کو مشہور کرنے کا یہ بہت بڑا منصوبہ کس کے ذہن کی تخلیق ہے؟ ہم نے اس پر خوب غور کیا ہے اور جو نام ہم نے فائنل کیا ہے وہ حیرت انگیز ہے۔ اچھا آپ کو بھی ایک ہنٹ دیتے ہیں۔ یہ بتائیں کہ جب ملالہ کو گولی ماری گئی تھی تو کس نے فوراً ہیلی کاپٹر بھیج کر اسے منٹوں کے اندر اندر سوات سے کمبائنڈ ملٹری ہسپتال پشاور پہنچایا تھا؟ کس کے حکم پر ڈاکٹروں نے اس کا علاج کر کے اس کی جان بچائی تھی؟ کس نے اپنا اثر استعمال کر کے اسے مزید علاج کے لئے برطانیہ پہنچایا تھا؟ ان سب سوالات کا جواب ہے اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی۔ جو ذی شعور لوگ یہ جان چکے ہیں کہ ملالہ کو ایک منصوبے کے ذریعے مشہور کیا گیا ہے وہ یہ تجزیہ بھی کر چکے ہوں گے کہ پاکستانی فوج ہمیشہ ہی بھرپور طریقے سے ملالہ کے ساتھ کھڑی رہی ہے۔

آپ اگر ہماری طرح جناب ہارون رشید صاحب کے کالم شوق سے پڑھتے ہیں تو جانتے ہی ہوں گے کہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کو پاکستانی فوج کے عظیم ترین سپہ سالاروں میں گنا جاتا ہے۔ وہ ایک بہترین مدبر ہیں۔ انہوں نے جنرل ضیا الحق کے دور کی اس پالیسی کو ریورس کیا جس میں فوج کو مذہبی شدت پسندی کی طرف مائل کیا گیا تھا۔ جنرل کیانی نے یہ رجحان بدل کر اسے مذہبی انتہاپسندوں سے لڑنے کے لئے تیار کیا۔ یہ جنرل کیانی کی اسی پالیسی کا نتیجہ ہے کہ سوات سے لے کر فاٹا تک کا علاقہ طالبان سے صاف کر دیا گیا ہے۔ یہ کام آسان نہیں تھا۔ ایک بڑا مدبر ہی یہ کر سکتا تھا۔

ہماری رائے میں ملالہ کو اتنی بڑی شخصیت بنا دینا جنرل کیانی کے کسی بھی دوسرے منصوبے سے زیادہ بڑا، خفیہ اور اہم پلان تھا۔ کمال یہ ہے کہ اس خفیہ منصوبے کا کسی کو بھی علم نہیں ہو پایا۔ امریکی سی آئی اے تو کیا خود ملالہ کو بھی یہ خبر نہ ہوئی کہ اس کی شہرت میں اس کا اپنا کوئی کمال نہیں بلکہ یہ جنرل کیانی کی کرامت ہے۔

حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح جنرل صاحب نے تن تنہا پوری دنیا کو اس طرح اپنے ہاتھوں میں کھیلنے پر مجبور کر دیا۔ اب دیکھتے جائیں کہ کس طرح ملالہ کے ذریعے پاکستان اپنے اہداف حاصل کرتا ہے اور خارجہ محاذ سے لے کر تعلیمی میدان تک پاکستان میں انقلاب لے آتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ پہلا پاکستانی جو اقوام متحدہ کا سیکرٹری جنرل بنے وہ کوئی دوسرا نہیں بلکہ ملالہ یوسفزئی ہو گی۔ ملالہ یوسفزئی اپنے قلم سے قوموں کی تقدیر کے فیصلے رقم کر رہی ہو گی اور اس مبارک دن ایک مدبر جنرل شام کو اپنی سٹڈی میں تنہا بیٹھا سگریٹ کے دھوئیں سے لکھی ہوئی اپنی کامیابی کی داستان کو دیکھ دیکھ کر زیر لب مسکرا رہا ہو گا۔


مجھے باہر بھجوانے میں سابق آرمی چیف جنرل کیانی کا کردار رہا، ملالہ

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar