عافیہ صدیقی: غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں!


پاکستان کی آزادی کی خوشبری کے مہینے سے ڈاکٹر عافیہ کے اغوا اور مظلومانہ قید کی غمناک یاد بھی وابستہ ہے۔ 15 برس سے مسلسل بدترین مظالم کا شکار ہو کر امریکی قید میں رہنے والی مُحبِ وطن ڈاکٹر عافیہ ہر یاد کے ساتھ دردمند مسلمانوں کے لبوں پر دعا بن جاتی ہیں۔

ڈاکٹر عافیہ اِشو اب کسی تعارف کا محتاج نہیں رہا۔ عافیہ کا تعلق پاکستان کے مہذب اور اعلیٰ تعلیم یافتہ خاندان سے ہے۔ اس علم دوست خاتون نے امریکہ کی اعلیٰ جامعات ایم آئی ٹی اور برینڈیز سے گریجویشن اور پی ایچ ڈی کیا۔ دین سے محبت کے باعث انہوں نے قرآن کی تعلیم کو اپنی قابلیت کا حصہ بنایا اور دورانِ تعلیم ہی بصدِشوق قرآن حفظ کیا۔ تعلیم کے ذریعے دنیا میں مثبت تبدیلی ان خواب تھا۔ ان کے ساتھ پیش آنے والے حادثات ان خوابوں کی تعبیر میں مانع رہے۔

ڈاکٹرعافیہ صدیقی کو مارچ 2003 میں مبینہ طور پر حکمرانِ وقت پرویز مشرف کے حکم پر کراچی سے تین چھوٹے بچوں سمیت اغوا کر کے بگرام ایئربیس افغانستان لےجایا گیا۔ یہاں پانچ سال تک امریکی عقوبت خانے میں انسانیت سوز مظالم میں قید رکھا گیا۔ برطانوی نَومسلم صحافیہ ایوون ریڈلے نے یہاں سے رہائی پانے کے بعد یہاں موجود قیدی نمبر 650 کے ڈاکٹر عافیہ ہونے کا انکشاف عالمی میڈیا کے سامنے کیا۔ انہوں نے عافیہ پر امریکی فوجیوں کے شرمناک اور دل دہلادینے والے مظالم کا انکشاف بھی کیا۔ اس کے بعد اس خاتون کے خلاف سازشی مقدمہ تیار کیا گیا۔ جس کے مطابق یہ کمزور اور زخموں سے چُور خاتون M۔ 4 گن اٹھا کر امریکی فوجیوں پر حملے کی غرض سے فائر کر دیتی ہے۔ فائر اس ڈرامائی انداز سے خطا ہوتا ہے کہ آس پاس در و دیوار میں گولی کا نام و نشان نہیں۔ ایک فوجی قریب سے گولی مار کر عافیہ کو زخمی کر دیتا ہے۔ مگر وہ بچ جاتی ہیں اور 2009 میں امریکہ منتقل کر دی جاتی ہیں۔ ان پر امریکی قیدیوں پر حملہ کرنے اور مارنے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ نام نہاد مقدمہ چلا کر عدالت میں جرم ثابتکیے بغیر 86 سال قید کی سزا سنا دی جاتی ہے۔ عافیہ اپنا فیصلہ اللّٰہ کے حوالے کرنے اعلان کرتی ہیں۔

قید کی سزا کے طور پر انہیں 6×6 کے تنگ و تاریک کوٹھری میں رکھا گیا ہے۔ جسمانی تشدد اور برہنگی کی اذیت قرآن کی بےحرمتی پر لباس دینے کی شرط مظالم کا حصہ ہونے کے باوجود ان کا عزم قوی تر ہے۔

دوسری جانب ان کے اہلِ خانہ اس مظلوم بیٹی کے لیے انصاف کی تلاش میں مسلسل سرگرداں ہیں۔ عدالتی فیصلے میں ان کو دی جانے والی سزا کو سیاسی سزا کہا گیا ہے۔ اس تعلق سے اس اِشو کو سیاسی کیس کے طور پر ڈیل کیا جانا چاہیے تھا۔ مگر سیاست کے ایوانوں میں اس کیس کے لئے کوئی ڈیل نہ کی جاسکی۔ پرویز مشرف نے ان کی گرفتاری کے عوض ڈالرز وصولکیے اور اپنی کتاب میں اس کا شرم ناک تذکرہ بھی کیا۔ آصف ذرداری نے امریکہ سے آئی ہوئی کیس کی اہم دستاویز پر دستخط صرف اس وجہ سے نہیں کیے کہ بقول ان کے یہ عافیہ کو بھیجنے والوں کا کام ہے۔ اس طرح پیپلز پارٹی کی حکومت نے عافیہ کی رہائی کے سلسلے کی اہم ترین کوشش کو ناکام بنا دیا۔

عدم تعاون کے حکومتی روئیوں سے بددل ہوکر عافیہ کے اہلِ خانہ نے عافیہ کی رہائی کی کوششوں کو ایک تحریک کی صورت میں آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ پچھلے سال عافیہ کی رہائی کی اہم ترین کوشش حکومتی تعاون سے مشروط تھی۔ اس کے مطابق امریکی صدر باراک اوباما صدارتی اختیارات کی نئے صدر کو منتقلی سے قبل کچھ قیدیوں کو آذاد کرنا چاہتے تھے۔ اس ضمن میں صدر یا وزیرِاعظم کا دستخط شدہ خط امریکی صدر کو مطلوب تھا۔ عوام نےاس اس دستخطی خط کے حصول کے لئے عافیہ موومنٹ کے شانہ بشانہ بھرپور مہماتی کوششیں کیں۔ مگر تمام تر عوامی دباؤ کے باوجود حکومت نے اپنے مذموم مقاصد کے پیشِ نظر اس کام کو اہمیت نہ دی۔ وقت گزرتا رہا۔ اور بلآخر اوباما کی مدتِ صدارت کے خاتمے پر عافیہ کی رہائی کے روشن ترین امکانات معدوم کردیے گئے۔ بیوہ ماں کی آنکھوں میں اُمید کے جگنوؤں کی جگہ آنسوؤں نے لے لی۔

سوچنے کی بات ہے، سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر، سابق وزیرِ اعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی اور چیف جسٹس سندھ سید سجّاد علی شاہ کے مغوی بچے بحفاظت بازیاب ہو چکے ہیں۔ قوم نے بچشمِ سر دیکھا کہ ان سیاسی اور اعلیٰ عہدے داروں کی اولادوں کی گھر واپسی کے لئے پوری انتظامیہ اور ایجنسیوں نے کس مستعدی کا مظاہرہ کیا۔ اس لئے کہ وہ حاکموں کے بیٹے تھے؟ جب کہ ایک بیوہ ماں کی بیٹی ہے جس کے وسائل بھی محدود ہیں!

امریکی جاسوس اور قاتل ریمنڈ ڈیوس کے ذریعے عافیہ کی رہائی کی ڈیل ہوسکتی تھی۔ لیکن حکومت نے یہ قیمتی موقع بھی ضائع کیا اور اس فرد کو پانچ قتل کرنے کے بعد بھی باعزت طریقے سے امریکہ رخصت کیا گیا۔ پھر ریمنڈدیوس ہی کیا، کئی اور جاسوس بھی جرم کر کے حکومتی سرپرستی میں اپنے وطن روانہ کیے گئے۔ کلبھوشن کے ساتھ باوقار حکومتی رویہ کسی ڈھکا چھپا نہیں۔ اب ڈاکٹر شکیل آفریدی کو بھی خاموشی سے امریکہ بھیجنے کی منصوبہ بندی ہے۔ نہایت دکھ کے ساتھ یہ بات کھل کر سامنے آچکی ہے کہ عافیہ کی رہائی کا کوئی موقع ملتا ہے تو ہمارے غیرت سے عاری حکمران قومی غیرت کی ڈالرز کے ذریعے سودے بازی کو ترجیح دیتے ہیں۔ امریکی سینیٹر کے الفاظ کہ ” پاکستانی تو چند ڈالرز کے عوض اپنی ماں تک کو بھی فروخت کر سکتے ہیں“۔ ہمارے اندازِحکمرانی کی شرمناک تعریف ہے۔ وزیرِاعظم نواز شریف نے عافیہ کی والدہ سے اپنی حکومت کے ابتدائی 100 دنوں میں عافیہ کی واپسی کا وعدہ کیا تھا۔ آج وہ نا اہل اور ان کی پارٹی کی مدتِ حکومت ختم ہونے کو ہے۔ بیوہ ماں سے کیا گیا وعدہ وفا کا منتظر ہی ہے۔

پھر ایک موجودہ حکومت ہی کیا، ان 15 سالوں میں یہ تیسری اسمبلی ہے جو کہ اپنی مدت مکمل کرنے جارہی ہے۔ ان تین حکومتوں نے ایک بے گناہ پاکستانی خاتون شہری کی رہائی اور اسے وطن واپس لانے کے لیے کچھ بھی تو نہ کر سکی۔ عافیہ کے اغوا سے پہلے جو حالات تھے آج اس سے کہیں ذیادہ خراب ہیں۔ پچھلے 15 برسوں میں جنرل پرویز مشرف، میر ظفراللّٰہ جمالی، شوکت عزیز، نگراں وزیرِاعظم میاں محمد سومرو، یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کے دورِحکومت گزر گئے۔ افتخار چوہدری، تصدق حسین جیلانی، وقارالملک اور انور ظہیر جمالی جیسے قابل چیف جسٹس اپنی مدتیں پوری کر گئے۔ جنرل کیانی اور جنرل راحیل شرف بھی کارنامے انجام دیتے ہوئے ریٹائر ہوئے۔ جنرل قمر باجوہ بھی ملک سے دہشت گردی کے خاتمے اور اس کے استحکام و سربلندی کے لیے کوشاں ہیں، یومِ پاکستان کی تقاریب میں اس کا اعادہ بھی ہوتا رہا۔ مگر عافیہ پر ظلم، اس کی رہائی کسی کو کیوں یاد نہیں رہتی؟

استاد جامع ام القریٰ شیخ ابو محمد عبداللّٰہ المجازی فرماتے ہیں ”اگر کوئی مسلمان عورت۔ یہود و نصاریٰ یا غیر مسلموں کے ہاتھوں میں قید ہو تو تمام مسلمانوں پر اور مسلمانوں کی حکومتوں پر لازم ہے کہ اس کو مکمل طور پر آزاد کرائیں۔ “

ڈاکٹر عافیہ سیاسی قیدی ہیں۔ ان کو ریلیف دینے کا فریضہ حکومت پاکستان، اراکین پارلیمنٹ اور ریاستی اداروں کو ہی اداکرنا ہے۔ عوام کی جان و مال، عزت و آبرو کے تحفظ کا فریضہ حکومت، پارلیمنٹ اور سرکاری حکام ادا نہیں کریں گے تو پھر یہ فریضہ آخر کون ادا کرے گا؟

روشن خیال پاکستان کاخواب روشن خیال عافیہ جیسی بیٹی کی عزت و ناموس کے دفاع کیے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔ حکومت اور آرمی چیف یومِ پاکستان پر ڈاکٹر عافیہ کو بھی یاد رکھتے تو قوم کے جذبات بھی عروج پر ہوتے۔

عافیہ کی رہائی کے لئے غیرت مند قومی قیادت کی ضرورت ہے۔ جس کی تلاش میں عافیہ کے ساتھ ساتھ پوری پاکستانی قوم بھی ہے۔ جس اللّٰہ تعالیٰ نے امریکی فوجیوں کی گولیوں سے چھلنی اور بدترین انسانیت سوز تشدد کے بعد بھی عافیہ کوزندگی دے رکھی ہی ہے۔ ہمارا ایمان ہے وہی اللّٰہ عافیہ کو مکمل عافیت کے ساتھ بہت جلد ظلم اور قید سے بھی نجات دلا کر واپس لائےگا۔ ان شاءاللّٰہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).