بھارت کی آبی دہشتگردی


ایک بہت ہی خوف ناک مسئلہ جس سے ہماری حکومت نظریں چرا رہی ہے وہ ہے پانی کی قلت کا بحران، یہ وہ مسئلہ ہے جس پر کسی کی توجہ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی توجہ دینا چاہتا ہے۔ انسان ایک وقت تو بھوکا رہ سکتا ہے لیکن پیاسا نہیں، پاکستان پر پانی کی قلت کا آسیب آبی دہشت گردی کی صورت نازل ہوا چاہتا ہے اور اس میں زیادہ تر ہاتھ ہمارے پڑوسی ملک کا ہے۔ ہم نے قوم کو مختلف ڈراموں میں الجھا رکھا ہے، اور کسی کا دھیان اس طرف نہیں ہے۔

بھارت کا پاکستانی پانی پر مزید تین ڈیم بنانے کا اعلان اور پاکستانی پانی روکنے کا عندیہ ہے، بھارت کی آبی دہشتگردی جاری ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق وزیر مملکت برائے ٹرانسپورٹ و پانی نتن گڈکری نے ہریانہ میں ایگریکلچر سمٹ 2018 ء کی اختتامی تقریب کے دوران پاکستان کے خلاف بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ ”اتر کھنڈ کے دریاؤں پر تین ڈیم بناکر پاکستان جانے والے پانی کو روک لیں گے تاکہ پانی کہ بحران کے وقت ان ڈیمز کا پانی استعمال کیا جاسکے“۔

بظاہر یہ ایک چھوٹی سی خبر ہے لیکن پرانی تاریخ بتاتی ہے کہ بھارت کی آبی دہشتگری بہت پرانی ہے وہ جب چاہتا ہے کر گزرتا ہے اور ہماری حکومتیں بیان بازی کے علاوہ کچھ نہیں کرپاتیں، جب سیلابی صورتحال ہوتو زیادہ پانی چھوڑ دینا اور پانی کی قلت ہو تو پاکستان کا پانی روک لینا بھارت کا وطیرہ ہے۔ بھارت اس کے لیے سندھ طاس معاہدے کی پاس داری نہیں کرتا اس کی جیتی جاگتی مثال“ بگلیہار ڈیم ” کی تعمیر ہے جو مخالفت کے باوجود جاری ہے۔ پاکستان کا المیہ ہے اتنی حکومتیں آئی اور گئیں لیکن کسی نے پانی کا مسئلہ حل نہ کیا اور نہ ہی اس کو اولیت دی۔

اقوام متحدہ نے بھی خبردار کردیا ہے کہ اگر پاکستان نے پانی کے ذخائر محفوظ کرنے کے لیے ضروری اقدامات نہ کیے تو 2025 ء تک پاکستان پانی کے شدید بحران کا شکار ہو جائے گا۔ یہ صورتحال پاکستان کے لیے زمینی دہشتگردی سے زیادہ خطرناک ہوگی، کسی نے اس رپورٹ پر دھیان نہیں دیا اور نہ ہی کوئی سمجھنے کو تیار ہے۔

پاکستان میں ڈیم بنانا ایسا ہے جیسے کوئی بڑا جرم کیونکہ جتنے بڑے ڈیم بنے سندھ طاس معاہدے کے بعد بنے، یہ 1960 ء کی بات ہے اس کے بعد کوئی بڑا قابل ذکر ڈیم نہیں بنایا گیا ، کالا باغ ڈیم کو انا کا مسئلہ بناکر بننے نہیں دیا گیا، منگلا اور تربیلا ڈیم کی حالت بھی بہتر نہیں دونوں میں ملکی ضرورت کا تیس دن کا پانی جمع کیا جاسکتا ہے۔ سیلابی صورت میں ایک بہت بڑی مقدار پانی کی ضائع ہوتی رہی ہے کوئی بھی حکومت ڈیم بنانے پر توجہ دیتی تو آج ہم بجلی کے بحران پر بھی قابو پاسکتے تھے لیکن جمہوری حکومت ہو یا فوجی کسی نے ڈیمز بنانے پر توجہ نہیں دی جس کا نتیجہ پانی کے قحط کی صورت میں دیکھنا پڑے گا۔ بھارت کی دھمکی دھمکی نہیں وہ اپنے عوام کے لیے کام بھی کرتے ہیں اور کرکے دکھاتے بھی ہیں شاید اسی لیے پاکستان پہ طنز کرنے کا حق رکھتے ہیں۔

آنے والی حکومت کو پانی کے مسئلے کو اولیت دینی ہوگی ورنہ پاکستان کو بنجر کرنے میں ان کا بھی ہاتھ ہوگا۔ ہمارا ملک زرعی ملک ہے اور ہمیں زراعت صنعت وحرفت کے لیے پانی کی ضرورت ہے اور ایک منصوبہ بندی سے ہی یہ مقاصد حاصل کیے جاسکتے ہیں، ورنہ بقول مغربی دانشور لیسٹر آر براؤن کہ ”آئندہ جنگیں تیل کے بجائے پانی پہ ہوں گی“۔ اللہ رحم کرے حکومت کو اس مسئلے کو حل کرنے کی توفیق دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).