سگریٹ نوشی اور عورت کا کردار


معاملہ یہ نہیں کہ مائرہ خان پر پھر لفظوں کے تازیانے برسائے گئے اور الزامات کی بوچھار کی گئی۔ اصل معاملہ تو معاشرے میں مردوں کی اجارہ داری کا ہے۔ کسی بھی چیز پر عورت کا حق آسانی سے تسلیم کرنے میں مردانہ معاشرہ نہ جانے کیوں مانع بنا رہتا ہے۔ پلاٹ ہو یا گھر، فلیٹ ہو یا گاڑی، دکان ہو یا کاروبار سب کے ملکیتی حقوق مردوں کی اکثریت نے ہمیشہ اپنے پاس ہی رکھے ہیں اور عورتیں بھی اسے عین حق جان کر سر جھکاتی چلی آئی ہیں۔ کھانے کی اچھی مقدار کے حق بات ہو یا پھر گھومنے پھرنے اور موج منانے کے اختیارات ہوں، سارے اصول غیررسمی طور پر مردوں کے لیے تسلیم کیے جاچکے ہیں۔ ہوٹلوں، ڈھابوں اور سنیما ہالوں پر بھی مردوں کا راج ہے۔ گھروں میں دعوتوں کا نیوتا مردوں کے نام آتا ہے، تحائف کے ڈبوں پر، شادی بیاہ کے لفافوں پر بھی مردوں کا نام ہوتا ہے۔

کہاں آنا ہے کہاں جانا ہے، کہیں جا کر کتنی دیر بیٹھنا ہے؟ خاندان میں کس سے ملنا ہے تو کس سے نہیں ملنا، بیوی کے میکے جانے کے لیے مہینے کا کون سا ہفتہ مقرر ہونا ہے؟ اکثر، یہ سارے احکامات مردوں کی طرف سے ہی نافذ ہوتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ بعض اوقات عورتیں اپنے لباس کے معاملے میں بھی مردوں کے حکم اور پسند ناپسند کی پابند بنائی جاتی ہیں، آستین کی لمبائی اور قمیص کی اونچائی کیا ہو، اس کا فیصلہ بھی ان کے مرد ہی کر رہے ہوتے ہیں۔ آیا منہہ کھول کے باہر نکلنا ہے یا برقعے میں قید ہونا ہے، اس میں بھی مرد کی رضا کو فوقیت دی جاتی ہے۔ اگر مرد کو پسند نہیں تو عورت ناک میں بالی نہیں پہن سکتی، پیروں میں پازیب نہیں ڈال سکتی، بیوٹی پارلر نہیں جا سکتی۔ انتہا تو یہ ہے کہ مردوں نے بڑے فخر سے عورت کو ناقص الدین اور ناقص العقل قرار دے کر اس کے رتبے کو کہیں زیادہ گھٹا دیا ہے۔ اسی لیے کبھی مردوں نے مسجد کے دروازے عورتوں پر بند کیے تو کبھی ان بے چاریوں کا قبرستان جانا ممنوع کیا گیا۔

جس معاشرے میں ابھی تک یہی بحث ہو کہ عورتوں کو جینز یا ٹائٹس پہننی بھی چاہیے یا نہیں ایسے میں عورت کا سگریٹ پی لینا تو گویا قیامت ہی ہے! میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ عورت کے سگریٹ سلگانے سے کسی مرد کا آخر بگڑتا کیا ہے؟ مرد سگریٹ کا دھواں اڑائے تو ا س کی شان ہے، عورت ہاتھ لگائے تو بے حیا۔ خود کو فخر سے چین اسموکر کہنے والے بھی عورت کو سگریٹ پیتا دیکھ کر چین سے نہیں رہتے۔ اس معاشرے کی عجیب و غریب روایتوں پر اکثر میرا قہقہہ بلند ہوتا ہے جس میں گھروں کی بوڑھی خواتین تمباکو سے بھرے پان دان پر تو اپنا حق رکھتی ہیں، لیکن یہی تمباکو سگریٹ کی شکل میں لیا جائے تو عورت، عورت کہلائے جانے کی حق دار نہیں رہتی۔ اچھی منافقت ہے!

میں بہ ذات خود کتنی ہی ایسی عورتوں اور لڑکیوں کو جانتی ہوں جو سگریٹ نوشی کرتی ہیں مگر کسی گناہ کی طرح یہ عادت سب سے چھپا کے رکھنے پر مجبور ہیں۔ ایسی ہی بعض خواتین سے نہایت قریبی تعلق کے باعث میں حلفاً یہ بات کہہ سکتی ہوں کہ ان کا کردار ہر عیب سے پاک ہے۔ لیکن اتنا ہی یقین مجھے اس بات کا بھی ہے کہ ان کی سگریٹ نوشی کی عادت سے جس دن اس معاشرے کا ایک مرد بھی واقف ہوگیا اس دن ان کے کردار کی دھجیاں اڑنے میں دیر نہیں لگے گی۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اس عورت کی تمام تر قابلیت اور صلاحیت منٹوں میں بے وقعت ہو کر رہ جاتی ہے جو سگریٹ نوشی کرتی ہو۔

میں نے عاصمہ جہانگیر کی زندگی میں ان کا تذکرہ جتنے مردوں کی زبانی سنا، تقریباً سب ہی ناک سکیڑ کر اور منہ بنا کر یہی ذکر خیر کرتے ہوئے ملے کہ اونہہ، اس عورت کی کیا بات کرنی! وہ تو مردوں کے ساتھ کھڑی ہو کر سگریٹ پیتی ہے (یہ تو رفتہ رفتہ سمجھ آیا کہ اصل اعتراض تو عاصمہ کا مردوں کے ساتھ کھڑے ہوکر اپنی انفرادیت منوانے پر تھا) بہرحال عاصمہ کے مرتے دم تک ان کی سگریٹ نوشی کو مردوں کا معاشرہ معاف نہیں کرپایا۔

جب عاصمہ جہانگیر کو ہی سگریٹ نوشی پر نہیں چھوڑا گیا، تو پھر مائرہ خان کو کیسے چھوڑ دیں کہ وہ مردوں کے ساتھ کھڑے ہو کر صرف سگریٹ ہی نہیں پیتی بلکہ ناچتی بھی ہے۔ اس معاشرے کی نام نہاد مردانہ حمیت پر ایک بار پھرہزاروں سوالات جنم لیتے ہیں جس میں مائرہ خان کی اداکاری اور رقص پر تو دل کھول کر مسکرایا تو جاتا ہے لیکن اس کے ہاتھ میں دبے سگریٹ پر نظر پڑتے ہی اچانک قومی اور دینی غیرت جاگ پڑتی ہے۔

”میرا جسم میری مرضی“ کے نعرے کی حمایت تو میں بھی نہیں کرتی، لیکن عورت کو کم از کم اتنا تو کہہ لینے دیجیے کہ میری زندگی میری مرضی۔ عورت کے سگریٹ پینے پر اتنا واویلا جو آپ مرد مچاتے ہیں، مچائیے! لیکن ذرا اتنا تو بتائیے کہ صنف نازک کی وہ کون سی عادت ہے جو آپ حضرات کو کانٹے کی طرح چبھتی نہیں۔ کیا آپ اس عورت میں کوئی عیب نہیں تلاشتے، جو سگریٹ نہ پیتی ہو؟ انگلی اٹھانے کا تو آپ کو ایک بہانہ چاہیے۔ سگریٹ نہیں تو کوئی اور وجہ سہی! اگر سگریٹ پینا اتنا ہی بڑا جرم ہے تو مردوں کی ذات بھی برابر کی مجرم ہے۔ آپ کے لیے سارے جرائم جائز اور عورت کے لیے گھٹن ہی گھٹن کیوں؟ ہر چیز پر ہی تو آپ مردوں کی اجارہ داری ہے، خدارا، اب سگریٹ کو تو جانے دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).