ملالہ سے حسد کیوں؟


گرمیوں میں میری نیند خراب ہو جاتی ہے۔ ماسکو میں ابھی گرمی نہیں آئی مگر روشنی صبح سویر ہو جاتی ہے۔ مجھے رات کو دیر سے سونے کی عادت ہے۔ باوجود پردوں کے روشنی کمرے میں در آتی ہے۔ آنکھیں بند رہتی ہیں مگر مغز جاگ جاتا ہے۔ پندرہ بیس منٹ سونے کی کوشش کرنے کے باوجود آنکھیں کھولتے ہی بنتی ہے۔

آج نیند کی کمی کے باعث اضمحلال تھا، سوچا سہ پہر میں آنکھ لگا لوں۔ لمحے بھر کو سویا تھا کہ موبائل کی آواز پر آنکھ کھل گئی۔ کسی نے ملالہ کے والد ضیاء الدین یوسفزئی اور خود ملالہ کو سی آئی اے کا ایجنٹ بتائے جانے والی وڈیو بھیجی ہوئی تھی۔ دس بیس سیکنڈ سے زیادہ کیا سنتا، پراپیگنڈہ تھا۔ یہی وڈیو چند منٹ میں کئی اور لوگوں نے بھی بھیج دی۔ نیند خراب ہو گئی اور میں بھنّا گیا۔

ملالہ پاکستان آئی تو میں نے سوشل میڈیا پر کوئی شذرہ جاری نہیں کیا۔ آئی ہے تو جی بسم اللہ، اس کا اپنا ملک ہے۔ ملالہ اب ایک شخصیت ہے۔ اس کی شخصیت نہ سی آئی اے نے بنائی ہے نہ اقوام متحدہ یا نوبیل پرائز کمیٹی نے۔ اس کی شخصیت بنی ہے اس کی اپنی ہمت و جرات، طالبان کے قبیح ظلم اور اللہ تعالٰی کے فضل و کرم سے۔

اگر ملالہ سی آئی اے کی ایجنٹ ہے تب تو یہ فرض کرنا پڑے گا کہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور کے سرجن، ایم ایچ راولپنڈی کے ماہر فوجی ڈاکٹر، تب کے پاکستان آرمی چیف جنرل راحیل شریف، تب پاکستان کے صدر آصف علی زرداری، ایر ایمبولینس پر برطانیہ پہنچانے والے پائلٹ سب ہی سی آئی اے کے ایجنٹ ہوں گے۔ کیا یہ ممکن ہے؟ جنہوں نے اسے گولی ماری اور مارنے کا اعلان کیا ان کو تو کسی نے اب تک سی آئی اے کا ایجنٹ نہیں کہا۔ گولی لگنا اگر ڈرامہ تھا تو اس کا چہرہ کیوں ٹیڑھا ہو گیا، اس کی ایک آنکھ کیوں زیادہ کھلی ہے؟ دنیا میں وہ کونسا ماہر نشانہ باز ہے جو ایسے تاک کے گولی مارے کہ دماغ کا ایک بھی حصہ متاثر نہ ہو صرف لقوہ ہو اور وہ قائم بھی رہے۔ میرے ساتھ خود ایک حادثہ ہو چکا ہے، سر پر پہنچائی گئی ضربوں سے مجھے بھی ایسا لقوہ ہو چکا ہے جس کے اثرات اٹھارہ برس گزر جانے کے بعد بھی چہرے کے ایک حصے میں دیکھے جا سکتے ہیں۔

اگر کسی کو علم طب معلوم نہیں تو وہ اپنی زبان بند رکھے۔ اگر کسی کو سیاسیات بارے علم نہیں تو وہ اپنی بڑ نہ ہانکے۔ مجھے رنجش تو کل سے تھی جب پاکستان سے روس پہنچی ہوئی ایک خاتون نے کمنٹ دیا کہ ” ملالہ کا پاکستان آنا امریکہ اور برطانیہ کی ایک بڑی گیم کا حصہ ہے“ استفسار کرنے پر بھی موصوفہ بتانے سے قاصر رہیں کہ وہ ”بڑی گیم“ ہے کیا؟

ایک چھوٹی عمر کی بچی نے 2009 میں حامد میر کے پروگرام میں کہا تھا کہ مجھے کہیں بھی صرف بیٹھنے کو جگہ مل جائے اور وہاں مجھے تعلیم دی جائے تو میں تعلیم حاصل کروں گی۔ حامد میر کے سوال پر کہ آپ کسی سے نہیں ڈرتیں؟ اس نے جس بیباکی اور شجاعت سے کہا تھا کہ ” میں کسی سے نہیں ڈرتی ” وہ آج بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ کیا تب بھی وہ سی آئی اے کی ایجنٹ تھی؟ کسی اور بچے یا بچی نے تو کسی سے نہ ڈرنے کا دعوٰی اس وثوق کے ساتھ نہیں کیا تھا۔ ظاہر ہے پوچھا بھی کسی سے نہیں گیا تھا کیونکہ ”گل مکئی“ ملالہ کے علاوہ تھی بھی کون جس نے تب کے سوات کے حالات پر بی بی سی ڈاٹ کام پر بلاگ لکھے تھے۔

جو ملالہ سے نفرت کا اظہار کر رہے ہیں، انہیں ملالہ سے نفرت نہیں ہے بلکہ ایک جانب وہ طالبان یا شدت پرستوں کے حامی و ہمدرد ہیں تو دوسری طرف وہ ملالہ سے حسد کرتے ہیں، ایسے بھی ہیں جو اس پر رشک کرتے ہیں۔ حسد اور رشک ایک ہی جذبے کی دو پرتیں ہیں۔ حسد کرنے والا کسی کی قابلیت، لیاقت، اہلیت، مقام، عہدے، ثروت، جائیداد، آسائش وغیرہ کو دیکھ کر کہتا ہے کہ اگر میرے پاس یہ نہیں ہے تو اس کے پاس کیوں ہے؟ اس کے پاس نہیں ہونا چاہیے، حسد میں صاحب صفات کے خلاف زہر پھیلاتا ہے، پروپیگنڈہ کرتا ہے، ہو سکے تو منتقم مزاجی کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش بھی کرتا ہے اور بعض اوقات شدید نقصان پہنچانے میں کامیاب بھی ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس رشک کرنے والا شخص کسی حد تک کم عداوت پرست، کم منتقم مزاج، کم حاسد ہوتا ہے وہ یہ سوچتا ہے کہ اس شخص کے پاس جو ہے ویسا اس کے پاس بھی ہو چنانچہ وہ اسے پانے کے لیے تگ و دو کرتا ہے۔ کامیاب ہو جائے تو فبہا، نہ ہو تو وہ بھی بالآخر حاسد کی ہی شکل اختیار کر لیتا ہے۔

کوئی ملالہ کا تقابل اے پی ایس میں مارے جانے والے بچوں سے کرتا ہے، یہ دیکھے بنا کہ ان بچوں پر تو بلاوجہ افتاد توڑی گئی تھی جبکہ ملالہ کو اس کی جراءت اور اس کے موقف کی سزا میں مارنے کی سعی کی گئی تھی۔ کوئی عافیہ صدیقی کو اس کے مدمقابل لا کھڑا کرتا ہے۔ عافیہ پر غلط یا صحیح دہشت گردی میں ملوث ہونے کا الزام تھا، چاہے امریکیوں کے مطابق وہ کابل سے دھری گئی ہو یا اس کے ہمدردوں کے مطابق پاکستان کی حکومت نے اسے گرفتار کرکے امریکہ کے حوالے کیا ہو، اسے بہر طور مجرم ثابت ہونے پر سزا دی جا چکی ہے۔ ملالہ بیچاری پر تو دہشت گردی میں ملوث ہونے کا کوئی الزام نہیں تھا البتہ وہ دہشت گردی کے خلاف نبرد آزما ضرور تھی وہ بھی ایک کمزور بچی ہوتے ہوئے۔

لوگ اس کے خلاف کیوں ہرزہ سرائی کر رہے ہیں جو نہ صرف اپنے ملک اور اپنے آبائی علاقے میں رہنے سے عاجز ہے بلکہ وہ آکسفرڈ میں تعلیم حاصل کر رہی ہے۔ جو ملالہ فنڈ کے ذریعے بچیوں کے لیے تعلیم کو عام کرنے میں جٹی ہوئی ہے۔ چاہتی تو جتنا اسے پیسہ ملا ہے وہ کوئی بہت بڑا کاروبار کر سکتی تھی مگر اس نے نہیں کیا۔ اس کا جو موقف 2009 میں حامد میر کے پروگرام میں تھا وہ اپنے اس ہی موقف کی تکمیل میں مصروف ہے۔ یہ اس پر اللہ تعالٰی کا خاص فضل و کرم ہے، جلنے والے جلتے ہیں تو جلیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).