ہندوستان میں مولوی خواتین کو استعمال کر رہے ہیں


آج کل بھارت کے اردو اخبارات میں، آئے دن برقع پوش خواتین کے احتجاج کی روداد اور تصاویر شائع ہو رہی ہیں۔ رپورٹوں کے مطابق ان خواتین کا مطالبہ ہے کہ اسلامی شریعت میں حکومت کی دخل اندازی بند کی جائے۔ احتجاج کی بنیاد وہ مجوزہ قانون ہے جس کی رو سے حکومت بیک وقت تین طلاق دینے والے شوہر کو سخت سزا دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔ بات کو مزید واضح کرنے کے لئے اس کے پس منظر کو سمجھنا ضروری ہے۔ دراصل کئی خواتین نے سپریم کورٹ میں بیک وقت تین طلاق کی روایت کے خلاف عرضیاں دائر کی تھیں۔ عدالت میں تین فریقوں کو کلیدی مانا گیا، پہلا وہ خواتین جنہوں نے تین طلاق کو چیلنج کیا تھا، دوسرا حکومت اور تیسرا مذہبی قیادت۔ تینوں فریق ایک بات پر متفق تھے کہ بیک وقت تین طلاق غیر اسلامی اور غلط امر ہے اور اس کی حیثیت بدعت کی ہے۔ بنیادی نکتہ پر اتفاق کے باجود مولوی عدالت میں اڑ گئے کہ بھلے ہی تین طلاق غیر اسلامی عمل ہے، بدعت ہے، گناہ ہے لیکن اس پر پابندی نہیں لگائی جانی چاہیے۔

عدالت نے روزانہ کی بنیاد پر مقدمہ کو سنا اور تاریخ ساز فیصلہ سنایا کہ بیک وقت تین طلاق غیر اسلامی اور غیر آئینی عمل ہے۔ آزاد بھارت کی تاریخ میں مسلمان خواتین کے حقوق کے حوالے سے یہ تاریخ ساز فیصلہ تھا اور اس کا چہار جانب خیر مقدم کیا گیا اس لئے اس وقت مذہبی قیادت نے فیصلے کی مخالفت کرنے کی ہمت نہیں کی لیکن جیسے ہی حکومت نے بیک وقت تین طلاق دینے والوں کو سزا دینے کے لئے ایک قانون بنانے کا ارادہ ظاہر کیا، مذہبی قیادت کو عمدہ موقع ہاتھ آ گیا۔ قانون کے مسودے میں کچھ خامیاں ڈھونڈ نکالی گئیں اور عدالت کے فیصلے کے بعد دلوں میں جو غبار بھرا ہوا تھا وہ تیزی سے نکلنے لگا۔ اب ملک کے الگ الگ حصوں میں برقع پوش خواتین کے جلوس نکلوائے جا رہے ہیں جن میں مطالبہ ہو رہا ہے کہ حکومت یہ قانون منظور کرانے کا ارادہ ترک کر دے۔

مجھ سے اگر پوچھا جائے تو میں مسلم خواتین کو آگے کرکے چلا جا رہی اس احتجاجی مہم کو بے شرم منافقت کا نام دینا چاہوں گا۔ درحقیقت مذہبی قیادت مسلمان خواتین کی آڑ لے کر اپنے مقاصد کی تکمیل چاہتی ہے۔ مسلمان خواتین کو بتایا جا رہا ہے کہ حکومت شریعت میں مداخلت کر رہی ہے، اسے بدل دینا چاہتی ہے، شریعت خطرے میں ہے، اسلام مشکل میں ہے، ہمارا وجود مٹانے کی سازش ہو رہی ہے وغیرہ وغیرہ۔ ان خواتین کو یہ نہیں بتایا جا رہا کہ پہلی بار بھارتی مسلم خواتین کو تین طلاق کی غیر اسلامی اور گھناونی روایت سے نجات ملی ہے، اس روایت سے ان کا پیچھا چھوٹا ہے جس کے تحت کوئی بھی مرد کسی بھی وقت کسی بھی بات پر اپنی بیوی کو تین بار طلاق کہہ کر گھر سے نکال سکتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مسلمان خواتین کے یہ جلوس فتح اور کامیابی کے جلوس کے طور پر نکلتے، تمام خواتین کو بتایا جاتا کہ علمائے کرام جس غیر قرآنی بدعت کو برقرار رکھنے کے لئے سر دھڑ ایک کیے ہوئے تھے وہ لعنت غیرآئینی قرار دے دی گئی ہے، لیکن قربان جائیے خالص مولویانہ تدبر کے جس نے ان خواتین کو اپنی منقاروں سے جال کا پھندہ کسنے پر آمادہ کر لیا۔

مجھے مسلمان خواتین سے شکایت نہیں ہے۔ بھارتی مسلم خواتین تعلیمی میدان میں دوسری برادریوں کے مقابلے بہت پیچھے ہیں۔ گھر کی چہار دیواری اور چولہا چکی کے درمیان شب و روز بسر کرنے والی سادہ لوح خواتین کو یہ باور کرانا قطعی مشکل نہیں کہ حکومت شریعت میں مداخلت کر رہی ہے۔ شکایت مذہبی قیادت سے بھی نہیں کیونکہ وہ اپنے اعمال سے بار بار واضح کر چکی ہے کہ اسے خواتین کے حقوق کے حوالہ سے کوئی بھی اصلاح گوارہ نہیں ہے۔ ہاں، اس ذہنیت پر ماتم ضرور کرنا چاہوں گا جس نے قسم کھا رکھی ہے کہ مسلم خواتین کے گلے میں بیک وقت تین طلاق اور حلالہ جیسی لعنتوں کے طوق ضرور ڈالے رکھنے ہیں۔

جس مجوزہ قانون کے خلاف احتجاج ہو رہا ہے، اس کے مسودے میں اگر کچھ خامیاں ہیں تو ان خامیوں کی نشاندہی کرکے ایک ترمیم شدہ مسودہ تیار کرنا چاہیے نہ کہ برقع پوش خواتین کی آڑ لے کر اپنے عزائم کو پورا کرنے کی کوشش کی جائے۔ مذہبی قیادت اس وقت فکرمند ہے کہ قانون بن گیا تو مسلمان مردوں کو جھوٹے مقدمہ میں پھنسایا جا سکتا ہے۔ میں مذہبی قیادت کی اس فکرمندی کو سمجھتا ہوں لیکن جان کی امان پاکر عرض کروں کہ جس وقت بیک وقت تین طلاق کی بدعت کا استعمال کرکے مرد ایک خاتون کو گھر سے باہر نکال دیتا ہے اور وہ مطلقہ خاتون زندگی بھر در در کی ٹھوکریں کھاتی ہے، اس درد سے نجات دلانے کے لئے مذہبی قیادت نے کیا اسی پیمانے پر آج تک کوئی اقدام کیا؟ مسلمان مرد کی فکر میں گھلنے والے اگر مسلمان خواتین کے درد کے لئے حساس نہیں رہے تو یہ تو صنفی تفریق اور مرد نواز ذہنیت ہی کہلائے گی۔

مسلم خواتین کو گمراہ کرکے انہیں سڑکوں پر اتارنے کا آئیڈیا جس ذہنیت کی پیداوار ہے وہی ذہنیت اس سے پہلے بھی اسی نوعیت کی واردات کر چکی ہے۔ بیک وقت تین طلاق کا مقدمہ جس وقت عدالت عظمیٰ میں زیر غور تھا اس وقت آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے جمعہ کو مساجد میں ایک کاغذ بٹوایا اور کہا گیا کہ اس پر اپنے اپنے گھروں کی خواتین کے دستخط کرائے جائیں۔ اس کاغذ پر لکھا تھا کہ ہم اسلامی شریعت میں مداخلت نہیں چاہتے۔ مسلمان خواتین نے اپنے شوہروں، بھائیوں، بیٹوں اور چچا یا ماموں کے کہنے پر اس کاغذ پر دستخط کر دیے۔ یہ سارے کاغذ جمع کرکے پرسنل لا بورڈ نے انہیں حکومت کو بھیج دیا اور ساتھ میں یہ اعلان فرمایا کہ چونکہ بیک وقت تین طلاق شرعی معاملہ ہے اور ان خواتین نے شریعت میں تبدیلی کو ناقابل قبول بتایا ہے اس لئے اس کا مطلب یہ ہوا کہ کاغذ پر دستخط کرنے والی لاکھوں خواتین تین طلاق کا خاتمہ نہیں چاہتیں۔

غور فرمایا آپ نے کہ تقلیدی ذہن اور اصلاحات سے چڑ آدمی کو کیسا مدبر بنا دیتی ہے؟ ایسا ہی معاملہ اس بار بھی ہے، مردوں کو بتایا جا رہا ہے کہ شریعت خطرے میں ہے، اپنی اپنی خواتین سے کہو کہ سڑکوں پر نکل کر احتجاج کریں۔ کیسی حیرت ناک بات ہے کہ شریعت ہمیشہ اسی وقت خطرے میں آجاتی ہے جب معاملہ مردوں سے متعلق ہو۔ عورتوں کو تین لفظ کہہ کر بے سر و سامان کرنے سے شریعت خطرے میں نہیں آتی لیکن غیرقرآنی فعل پر قدغن سے مسلمانوں کی شناخت ضرور خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ مسلمان خواتین کو احتجاج پر آمادہ کرکے مذہبی قیادت تین طلاق کو باقی رکھنا چاہتی ہے۔ سنجیدہ فکر اور معتدل علماء، دانشور، بیدار اور تعلیم یافتہ خواتین اور نوجوانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ احتجاج کرنے والی ان خواتین کو بتائیں کہ ان کو صرف استعمال کیا جا رہا ہے اور اس ساری زورآزمائی کا مقصد ایک ایسی بدعت کی بحالی ہے جو قرآنی تعلیمات اور اسلامی احکامات سراسر منافی ہے۔

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter