ملالہ کی اپنے ملک واپسی کی مخالفت کیوں؟


گزشتہ دنوں ملالہ یوسفزئی تقریباً پانچ سال کے بعد اپنی فیملی کے ہمراہ پاکستان آئی، ملالہ کو سٹیٹ گیسٹ کا درجہ دیا گیا اور غیر معمولی پروٹوکو ل دیا گیا، وزیر اعظم ہاؤس میں ملالہ کے اعزاز میں مختصر سی تقریب کا اہتمام کیا گیا، جس میں ملالہ یوسفزئی نے تقریر کی، دوران تقریر وہ اپنے جذبات پر قابونہ رکھ سکی اور اس کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے، ملالہ کی آنکھوں سے آنسوؤں کا چھلکنا ایک فطری عمل تھا کیونکہ وہ اپنی دھرتی ماں پر پانچ سال بعد قدم رکھ رہی تھی، وہ دھرتی جس پر اس کا بچپن گزرا، جس کے گلی کوچوں میں اس کی یادیں موجودہیں جہاں وہ دہشتگردی کا نشانہ بنی اور اسے معلوم بھی نہیں ہوا کہ وہ بے ہوشی کے عالم میں کسی اور ملک کی مقیم بن چکی ہے۔

جو لوگ ملالہ پر بلاوجہ کی تنقید کر رہے ہیں ان میں سے اکثریت کا تعلق مذہبی حلقوں سے ہے اس لئے ان کی خدمت میں تاریخ اسلام کا ایک ریفرنس پیش کیا جا رہا ہے۔ جب مکہ معظمہ میں مشرکین کے ظلم و ستم کی وجہ سے حضور اکرم ؐ اور صحابہ کرام ہجرت پر مجبور ہوئے تو شہر مکہ اور خاندان والوں کی جدائی میں اکثر صحابہ بیمار پڑگئے، حضور اکرم ؐ نے شہر مکہ کی طرف آخری بار مڑ کر دیکھا اور رنجیدہ ہوتے ہوئے فرمایا:”اے شہر مکہ تو پاکیزہ شہر ہے اور مجھے بے حد عزیز ہے۔ اگر میری قوم مجھے یہاں سے نہ نکالتی تو میں کسی اور جگہ نہ جاتا۔ ‘‘

ایک حادثے کے بعد گو ملالہ اپنی فیملی کے ساتھ ملک سے باہر چلی گئی لیکن جہاں وہ پانچ سال بعد لوٹ کر آئی کیا اس ملک، اس سرزمین کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہ تھا، کیا والدین اور بہن بھائیوں کے علاوہ دیگر عزیز و اقارب اس ملک میں نہ تھے، اور پھر اس نے ایسا کونسا ناقابل معافی جرم کیا ہے جس کی وجہ سے اس پر تنقید کے نشتر چلائے جائیں؟ میرا کبھی بھی بائیں بازو کے مضمون نویسوں سے تعلق نہیں رہا اور شاید آئندہ بھی نہ رہے کیونکہ میری اپنی طبیعت ہے جو کسی صورت تبدیل نہ ہوگی۔ لیکن کبھی کبھی دائیں بازو والوں کے عمل پر حیرت ہوتی ہے، ہمارے کچھ نادان دوست بلاسوچے سمجھے مخالفت میں اس قدر آگے نکل جاتے ہیں کہ انسان دنگ رہ جاتا ہے۔

دائیں بازو کے میرے ایک دوست نے دوران گفتگو مجھ سے کہا کہ آپ ملالہ کے حامی ہیں؟ میں نے کہا حامی سے کیا مراد ہے اور مخالف سے آپ کیا مراد لیتے ہیں؟ کہنے لگے کہ اس کے ملک سے باہر چلے جانے کو آپ درست سمجھتے ہیں؟ میں نے کہا ملالہ کے ملک سے باہر چلے جانے کی مخالفت کون کر رہا ہے اور کیوں کر رہا ہے؟ کیونکہ ملالہ کو ملک چھوڑنے پر مجبور کیا گیا تھا، کہنے لگے کہ آپ تو اچھے خاصے مذہبی ہیں آپ کو ہو کیا گیا ہے؟ میرا دوست چونکہ مذہبی تھا اس لئے میں نے جواب میں حضور اکرم ؐ کی ہجرت کا واقعہ بطور دلیل پیش کیا، میرے دوست کہنے لگے کہ آپ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے امریکہ کی قید میں ہونے پر کیوں نہیں بولتے؟ میں نے عرض کیا ڈاکٹر عافیہ کے کیس کا ملالہ کے ساتھ کیا تعلق؟ وہ ایک الگ بحث ہے۔ کہنے لگے آپ کے ساتھ بات کرنا فضول ہے کیونکہ آپ بھی اب ”اُن‘‘ کے رنگ میں رنگ چکے ہیں۔

امرواقعہ یہ ہے کہ ملالہ یوسفزئی اپنے ہی ملک واپس آئی ہے، یہ حق اس سے کوئی نہیں چھین سکتا، پاکستان اب بھی اس کا ملک ہے اور وہ پاکستان کی شہری۔ میرے نالج میں ملالہ یوسفزئی نے ایسا کچھ نہیں کیا ہے کہ جس کی بنیاد پر اسے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔ باقی رہی یہ بات کہ وہ مشکل حالات میں اپنی جان بچا کر ملک سے باہر چلی گئی تھی اس ضمن میں عرض ہے کہ ملک سے باہر جانا اور اپنا علاج و تعلیم مکمل کرنا کیا کوئی جرم ہے، کیا ملالہ پہلی پاکستانی ہے جو ملک سے باہر گئی ہے؟ کیا ملالہ کے علاوہ وطن عزیز کے ہزاروں لاکھوں نوجوان روزگار اور تعلیم کے سلسلے میں بیرون ملک مقیم نہیں ہیں؟ حقیقت تو یہ ہے کہ بیرون ممالک میں برسرروزگار افراد ہمارے محسن ہیں کیونکہ ان کی شب وروز کی محنت سے ملکی زرمبادلہ میں اضافہ ہوتا ہے اوراگر بیرون ممالک میں مقیم پاکستانی اپنے ملک میں رقم کم بھیجیں تو ہمیں بجٹ کو مینج کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

جہاں تک مجھے یاد پڑتاہے ملالہ یوسفزئی پاکستان کی نیک نامی میں اضافے کا باعث بنی ہے، وہ دوسری پاکستانی شخصیت ہے جسے نوبل انعام سے نوازا گیا ہے، وہ دنیا کی پہلی کم عمر ترین لڑکی ہے جسے نوبل انعام سے نوازا گیا ہے، نوبل انعام ملنے کے بعد ملالہ نے اپنی آمدن کا خطیر حصہ پاکستان اور دیگر غریب ممالک میں تعلیم کے لئے وقف کر دیا ہے یہی وجہ ہے کہ دائیں بازو کے مضمون نگاروں سے تعلق ہونے کے باوجود میں ملالہ کی مخالفت نہیں کر سکا، میرے نزدیک جو دوست ملالہ پر تنقید کر رہے ہیں ان کے پاس بھی کہنے کو ٹھوس بات نہیں ہے بس طے کر لیا ہے کہ ملالہ کی مخالفت کرنی ہے اور اس سلسلے میں وہ ہر حد تک جانے کے لئے تیار ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).