ہنود و یہود ہمارے خلاف سازشیں کرتے ہیں


بہت پرانی بات ہے؛ غالبا زمانہ قبل مسیح کا واقعہ ہے؛ یہ اسی پاکستان کے کسی اور لاہور شہر کا قصہ ہے۔ ملک انگلستان میں پرورش پانے والی پاکستانی نژاد دوشیزہ کے والدین، اسے آبائی وطن لائے کہ اُس کا نکاح برادری کے نیک نام نوجوان سے کردیا جائے۔ خاندان کے نیک ترین لڑکے پر انگلی رکھی گئی۔ چوں کہ دوشیزہ کافر ملک میں پلی بڑھی تھی، تو اس کے اطوار بھی کافرانہ تھے۔ محترمہ نے سن رکھا تھا کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا، وہ پیدا ہی نہیں ہوا؛ تو چاہا کہ کیوں ناں اپنے ہونے والے شریک حیات کی معیت میں لاہور شہر کا نظارہ کیا جائے۔ توبہ استغفار؛ دو نا محرم محو سفر ہوئے۔

اُس وقت شہر میں نہ میٹرو بس کا نام و نشان تھا، نہ اورنج ٹرین کے تذکرے؛ تب لاہور، لاہور تھا۔ سیر کرتے رات پڑگئی؛ گھر کی اور جاتے ایک چوراہا آیا، جہاں کم بخت مارا ٹریفک سگنل کا ایک کھمبا نصب تھا۔ اغلب امکان یہ ہے، کہ لاہوری نوجوان شہر کی سیر کرواتے دور دیس انگلستان کے حسین سپنوں میں کھویا ہوگا؛ یوں ٹریفک کی لال بتی کی پروا کیے بنا چوک کراس کرگیا۔

کافر ملک کی حسینہ کے تو جیسے توتا، مینا، کبوتر، سبھی کچھ ایک ساتھ اُڑ گئے۔ تلملا کر استفسار کیا، کہ ٹریفک سگنل کیوں توڑا؟ معصوم نے سادگی سے جواب دیا، کہ ایک تو اس وقت سڑکیں خالی ہیں، دائیں بائیں سے کوئی گاڑی نہیں آ رہی تھی، اور دوسرا یہ کہ رات کے اس پہر، بھلا کون ہے جس نے مجھے ٹریفک سگنل توڑتے دیکھا ہوگا؟

کسی نے خوب کہا ہے، کہ انگریز لوگ بہت انتہا پسند ہوتے ہیں، پھر یہ بھی ہے کہ عقل کی بات تو انھیں چھو کر نہیں گزری۔ کچھ پاکستانی بھی ہیں، جو ان کی نقل میں بے عقلی کی بات کر جاتے ہیں۔ دوشیزہ کی مثال سامنے کی ہے، کہ شہر لاہور کی سیر سے لوٹتے ہی کافرہ نے، اُس جوان رعنا سے نکاح کرنے سے انکار کردیا۔ بہانہ یوں گھڑا کہ جو شخص دانستہ ٹریفک سگنل کی پابندی نہیں کرتا، کہ کوئی دیکھنے والا نہیں، لہذا پابندی کیوں کی جائے! ایسا شخص بھلا کیوں کر میری ذات سے وفا کرے گا۔ زبان درازی کرتے مزید یہ کہا، کہ جہاں میں اس کے سامنے نہ ہوئی، وہاں یہ مجھے بھی دھوکا دے گا۔

آسٹریلیا کے کرکٹر اسٹیون اسمتھ، بین کرافٹ اور ڈیوڈ وارنر نے بال ٹیمپرنگ کے جرم کا مرتکب ہونے پر، کرکٹ سے محبت کرنے والوں اور اپنی قوم سے معافی مانگی، اس پر میرے محلے دار خواجہ صاحب کو کوئی حیرت نہیں ہوئی؛ کیوں کہ اُن کے بقول یہ گورے ہیں ہی ایسے۔ غلطی کرتے ہیں، اور مان جاتے ہیں۔ خواجہ صاحب طنزیہ فرماتے ہیں کہ ”ذہن نشین رہے، آسٹریلیا نہ تو پاکستان ہے، نا ہی کوئی اور مسلمان ملک، کہ جہاں کے شہریوں یا ریاست کے خلاف یہودی لابی ہمہ وقت سازش میں مصروف رہتی ہو۔ غیر مہذب دُنیا میں فرشتے بہت ہیں، اور مہذب ممالک میں محض انسان بستے ہیں۔ فرشتوں سے غلطیاں نہیں ہوتیں، جب کہ انسان غلطی ثابت ہونے پر اپنی غلطی تسلیم کرلیتے ہیں۔ بس یہی سبب ہے کہ وہ مہذب اقوام گردانی جاتی ہیں“۔

مجھے خواجہ صاحب کی بات سے وہ واقعہ یاد آ گیا، جب پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان سلمان بٹ، محمد عامر، اور محمد آصف پر الزام لگا تھا، کہ یہ میچ فکسنگ میں ملوث ہیں، تو ہمارے کھلاڑیوں‌ کا، میڈیا کا اور شہریوں کا ردِعمل کیسا تھا۔ پہلے تو ہم مان کر نہیں دیے کہ ہمارے جوان ایسی غلطی کے مرتکب ہوسکتے ہیں۔ آج بھی ایسوں کی کمی نہیں جو میچ فکسنگ کے اس اسکینڈل کو پاکستان کے خلاف سازش بتاتے ہیں۔

یہ عجب نہیں کہ اُن کے یہاں بے ایمانی میں ملوث شخص کے بیوی بچے اُس سے کنارہ کرلیتے ہیں۔ ہمارے یہاں کی ایسی کوئی ایک مثال ذہن میں نہیں ہے۔ اس لیے بھی کہ ہمارے بچوں کے خلاف دشمن ہر وقت سازش کرتا پایا جاتا ہے۔ اس دوشیزہ کا واقعہ یاد کیجیے جس نے ٹریفک سگنل کی پابندی نہ کرنے پر نکاح کرنے سے انکار کردیا تھا، تو آپ کو یہ سمجھنے میں آسانی ہوگی، کہ اُن کے یہاں کھیل کے میدان میں چیٹنگ کرنے پر، اپنے بیوی بچوں سے بھی معافی مانگنا کیوں اہم ہوتا ہے۔

ایسے ہی کرکٹ کی خبروں کو پاکستان کے سیاسی، معاشی و معاشرتی احوال سے جوڑ کر دیکھا جائے، تو ایک اطلاع سدا جوان رہتی ہے، کہ پاکستان کی پچ نازک دور ے گزر رہی ہے۔ مشاہدہ ہے، کہ یہاں بال ٹیمپرنگ معمول ہے۔ اسٹاک ایکسچینج کے حصص ہوں، صحافت کے نامی گرامی، کریانہ اسٹور پروپرائٹر ہوں، پنڈت یا سیاست کے میدان کے گھوڑے؛ کھلاڑی ہر گیند پھینکنے سے پہلے کسی نہ کسی بے ایمانی کے مرتکب ہوتے ہیں؛ ہر جا جھوٹ کا سہارا ہے۔ کرکٹ میں ایمپائر کسی اپیل کا فیصلہ کرتے ہیں، تو پاکستانی سیاست میں ایمپائر کھلاڑی سلیکٹ کرتے ہیں، انھیں بیٹنگ کے لیے بھیجتے ہیں، موقع محل دیکھ کر آوٹ قرار دے دیتے ہیں۔ چاہیں تو ساری عمر کے لیے نا اہل کردیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ پاکستانی سیاست کے ایمپائر جتنی بے ایمانی کریں، اتنے نیک نام کہلاتے ہیں۔

ہمارے یہاں ہر شخص کو دوسرے کے معاملات سدھارنے کا جنون ہے، چاہے اپنے گھر کو چور لے جائیں۔ ایسے ہی ہر ادارہ اپنے ادارے کی کارکردگی سے بے خبر ہے، اور اسے دوسروں اداروں کی کارکردگی کو سوالیہ نشان بنائے رکھنے میں دل چسپی ہے۔ یہ غلطی تو نہیں، قومی شعار ہے۔

سو بات وہیں آ کے ٹکی، کہ ہمارے یہاں غلطی کرنے پر معافی مانگنے کا رواج نہیں ہے۔ عوام ہوں یا خواص؛ معافی مانگنا شکست ماننے جیسا ہے، اور ہم بہادر اقوام میں سے ایک ہیں جو کبھی شکست نہیں مانتیں۔ ماضی بس ماضی ہوتا ہے، اور ماضی پر بات نہ کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ ممکن ہے اس لیے ہم ماضی سے کچھ سیکھتے بھی نہیں ہیں۔ سیاست دانوں سے ماضی میں غلطیاں ہوئی ہوں۔ فوج کے آئی جے آئی بنانے جیسے نا مناسب اعمال ہوں، یا اقتدار پر قبضہ کرنے کے جرائم؛ یا پھر ماضی میں عدلیہ کا قانون کو ایک طرف رکھ کر آمروں کے حق میں غیر منصفانہ فیصلے ہوں؛ ملک کا ٹوٹ جانا ہو، اوجڑی کیمپ ہو، کارگل ہو، ریاست کا طالبان بنانے جیسا مہلک فیصلہ ہو؛ معافی مانگنے کا تو سوال ہی نہیں، اس لیے کہ یہ غلطیاں نہیں تھیں، یہود و ہنود کی سازشیں تھیں؛ ان میں سے جو سازش نہ تھی وہ ماضی تھا، اور ماضی کی کیا بات کرنا۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran