ایک نا مکمل تحریر


ہمارے ہمسائے میں کچھ لوگ رہتے ہیں، عجیب و غریب لوگ، بظاہر ان کی شکلیں انسانوں سے ملتی ہیں مگر ہمارا خیال ہے کہ وہ ہم جیسے انسان نہیں۔ ہمیں یوں لگتا ہے جیسے وہ انسانوں سے کم تر کوئی مخلوق ہیں، کم از کم ایک درجے کم۔ اور یہ فقط ہماری رائے نہیں بلکہ علاقے کے دیگر مکین بھی ان کے بارے میں ایسا ہی سوچتے ہیں۔ لیکن ہم میں سے کوئی بھی یہ بات کھلے بندوں نہیں کرتا اور نہ ہم نے کبھی اشارتاً اس بات کا اظہار ان عجیب و غریب لوگوں کے سامنے کیا ہے۔

ہماری اخلاقی اقدار اس بات کی اجازت نہیں دیتیں کہ ہم انہیں یہ باور کروائیں کہ وہ ہم میں سے نہیں۔ اسی لیے ہم اپنے تئیں ان کے ساتھ انسانوں جیسا برتاؤ ہی کرتے ہیں۔ لیکن کبھی کبھی ہمیں یوں لگتا ہے جیسے انہیں علم ہے کہ ہم ان کو اپنے جیسا انسان نہیں سمجھتے۔ یہ بات انہوں نے کبھی اپنے منہ سے نہیں کہی اور نہ ہی اپنے کسی رویے سے ایسا ظاہر کیا ہے جس سے یہ معلوم ہو سکے کہ وہ ہمارے دلوں کا حال جانتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود نہ جانے کیوں ہمیں یہ شک ہے کہ انہیں ہمارے خیالات کا بخوبی اندازہ ہے۔

وہ لوگ کچھ زیادہ نہیں، دو ہیں، نر اور مادہ، آپ انہیں میاں بیوی بھی کہہ سکتے ہیں۔ وہ دونوں اپنے گھر سے بہت کم باہر نکلتے ہیں، البتہ مرد کبھی کبھار کسی ضرورت کے تحت باہر نظر آ جاتا ہے۔ اس کا حلیہ بہت عجیب ہے، ہم نے اسے پہلی مرتبہ اس دن دیکھا تھا جب وہ ہمارے پڑوس میں منتقل ہونے کے لیے گاڑی سے اپنا سامان اتار رہا تھا۔ اس روز میری پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ چونکہ ان کا نئے مکان میں پہلا دن تھا، میں نے انہیں مدد کی پیشکش کی جس کے جواب میں اس نے خوفزدہ ہو کر مجھے یوں دیکھا جیسے میں کسی بہانے اسے پکڑنے آیا ہوں۔ اس دن میں نے پہلی مرتبہ اس کی آواز سنی، کسی انسان کی ایسی آواز نہیں ہو سکتی، مجھے یوں لگا جیسے کوئی منمنا کر یک دم چپ ہو گیا ہو۔ میں اس آواز کو کوئی نام نہ دے سکا۔

اہل علاقہ کو اس جوڑے سے متعلق جو بھی معلومات ملیں ہیں ان کا ماخذ میری ان سے وہی پہلی ملاقات ہے۔ یہ بات میں نے ہی اپنے پڑوسیوں کو بتائی ہے کہ وہ عجیب الخلقت شخص کہیں سے بھی مکمل انسان نہیں لگتا، میں لوگوں کو یہ تو نہیں سمجھا پایا کہ آخر کس بنیاد پر میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے مگر کسی نہ کسی طرح وہ سب اس بات کے قائل ہو چکے ہیں کہ علاقے کے نئے مکین انسانوں سے کم تر درجے کی کوئی مخلوق ہیں۔ ایک مرتبہ کسی نے ان دونوں میاں بیوی کو کہیں سے آتے ہوئے دیکھا، ان کی چال میں عجیب سی لنگڑاہٹ تھے، پہلے تو ایسا لگا جیسے دونوں زخمی ہیں اور لنگڑا کر چل ر ہے ہیں مگر غور کرنے پر معلوم ہوا کہ نہیں، اصل میں ان کی چال ہی بے ڈھنگی ہے۔ کوئی انسان ایسے قدم نہیں اٹھاتا۔ اس دن کے بعد سے میری اس بات کو مزید تقویت مل گئی ہے کہ یہ لوگ انسانوں سے ایک درجہ کم کی کوئی مخلوق ہیں۔

میں اس مرد کا حلیہ بھی آپ کو بتا دوں۔ اس کا چہرہ بالکل سپاٹ ہے، جذبات سے عاری، اس کو دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے اس پر کسی خوشی غم کا کوئی اثر نہیں ہوتا، میں جانتا ہوں کہ بعض انسانوں کے چہرے کرخت ہوتے ہیں مگر اس انسان نما شخص کا چہرہ کرخت نہیں ہے، فقط غیر جذباتی ہے، مگر اس غیر جذباتی چہرے کو دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے اس نے بہت ظلم سہے ہوں اور اب وہ ہر قسم کے جذبات سے عاری ہو چکا ہو۔ اس شخص کی مادہ یعنی عورت کی واضح شکل اب تک کوئی نہیں دیکھ سکا ہے، وہ اکثر نقاب میں ہی ہوتی ہے اور اس کی فقط آنکھیں ہی دکھائی دیتی ہیں جن سے اس کے بارے میں زیادہ اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ ہم اہل علاقہ کی اب یہ متفقہ رائے ہے کہ یہ جوڑا عام انسانوں جیسا بہر حال نہیں۔ ہم میں سے کوئی بھی انہیں مکمل انسان نہیں سمجھتا۔

مگر آج صبح سے کچھ عجیب و غریب باتیں ہو رہی ہیں۔ وہ عورت جسے ہم میں سے کسی نے کبھی بغیر نقاب کے نہیں دیکھا تھا، بے حجابانہ باہر گھوم رہی ہے، کبھی وہ ہم میں سے کسی کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹا دیتی ہے اور کبھی عجیب ہسٹیریائی انداز میں چیخنے چلانے لگتی ہے۔ ابھی تک کسی نے دروازہ کھول کر نہیں پوچھا کہ اس کا کیا مسئلہ ہے۔ علاقے کے اکثر مکین گہری نیند سو رہے ہیں کیونکہ رات دیر تک یہاں آتش بازی کا مظاہرہ ہوتا رہا جس کا اہتمام سب سے دولت مند شخص نے یوم آزادی کی خوشی میں کیا تھا اور اب کسی میں صبح صبح اٹھنے کی ہمت نہیں ہے۔

مجھے چونکہ جلدی بیدار ہونے کی عادت ہے اس لیے اس عورت کی آوازیں سب سے پہلے میری ہی کانوں تک پہنچی ہیں۔ میں ٹھیک سے سمجھ نہیں پا رہا کہ وہ کیا کہہ رہی ہے شاید اس کی وجہ وہی ہے کہ اپنے مرد کی طرح اس کی آواز بھی عام انسانوں جیسی نہیں۔ البتہ کھڑکی سے مجھے اس کا چہرہ صاف نظر آ رہا ہے۔ بظاہر وہ انسان ہی لگ رہی ہے مگر اس کی حرکتیں کچھ عجیب ہیں۔ اس نے ہاتھ میں ایک کتبہ اٹھا رکھا ہے جس پر کچھ آڑی ترچھی لکیریں ہیں۔

میرے لیے یہ تحریر بالکل اجنبی ہے، یا شاید میں اپنے گھر میں بیٹھا کھڑکی سے دور یہ منظر دیکھ رہا ہوں اس لیے مجھے کتبے کی عبارت پڑھنے میں مشکل پیش آ رہی ہے۔ لیکن اب وہ عورت آہستہ آہستہ میرے مکان کی طرف آ رہی ہے، شاید اس نے مجھے دیکھ لیا ہے، اس کی آنکھوں میں ایک موہوم سی امید ہے کہ شاید میں اس کی مدد کروں گا۔ آج سے پہلے اگر وہ عورت مجھے یوں بغیر نقاب کے نظر آتی تو میں اس بات کو پورے علاقے میں فخر سے بتاتا کہ میں وہ واحد شخص ہوں جس نے اس عورت کو بغیر حجاب کے دیکھا ہے۔

لیکن آج نہ جانے کیوں میں یہ نہیں چاہتا کہ یہ عورت میری طرف آئے۔ جوں جوں وہ عورت کتبہ اٹھائے میری طرف آ رہی ہے توں توں اس کی عبارت واضح ہوتی جا رہی ہے۔ اب وہ بالکل میرے سامنے ہے اور کتبہ اٹھائے خالی خالی آنکھوں سے مجھے دیکھ رہی ہے۔ میں کتبے کی عبارت پڑھ چکا ہوں۔ کتبے پر لکھا ہے کہ کل رات سے میرا شوہر لا پتا ہے، کیا آپ اس کی بازیابی میں میری مدد کریں گے! میں یہ عبارت پڑھ کر سکتے میں آ گیا ہوں، مجھے یوں لگ رہا ہے جیسے اس عورت نے اپنے چہرے سے حجاب نہیں اتارا بلکہ کسی نے میری آنکھوں پر گرا ہوا پردہ ہٹا دیا ہے۔ وہ عورت ایک جیتی جاگتی انسان ہے، اس کے چہرے پر کرب اور دکھ کی لکیریں ہیں اور آنکھوں میں ایسی گہری اداسی ہے جو خدا نے صرف انسانوں کے لیے مخصوص کر رکھی ہے۔

میں نے اس کے چہرے سے نظریں ہٹا لی ہیں اور اپنی یہ تحریر مکمل کرنے میں مصروف ہو گیا ہوں۔ مگر نہ جانے کیوں مجھے لگ رہا ہے جیسے میں یہ تحریر کبھی مکمل نہیں کر پاؤں گا۔

 

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 490 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments