جنگ کی تباہ کاری اور شبینہ سرمستیوں میں بٹے دمشق سے ایک مکتوب


دوستانِ گرامی، دِمشق سے پھر آداب عرض ہے۔ گزشتہ مراسلے میں مشرقی غوُطہ میں جاری شورش اور اس کے عوام اور اہلِ دمشق پر اثرات کا ذکر کیا تھا۔ اس دوران سوریا کی حکومت اور ان سے بڑھ کر ان کے روسی حلیفوں کی مساعی سے مشرقی غوطہ کے دو تہائی حصے پر قابض، القاعدہ سے منسلک دو گروہوں “النصرہ” اور “فیلاق الرحمن” مجبور ہو گئے کہ وہ علاقے کا قبضہ چھوڑ دیں۔ تصفیہ اس پر ہوا کہ مسلّح باغی اپنے ہتھیاروں اور اہلِ خانہ کے ہمراہ شمال میں واقع امریکہ اور ترکی کے زیرِ قبضہ کُرد اکثریتی شہر ادلِب کی جانب کوچ کر جائیں تاکہ نہتے یرغمالیوں کی جانوں کا اتلاف مزید نہ ہو۔ چنانچہ جیسے ہی یہ مجاہدین اپنے بہیر و بنگاہ کے ہمراہ سدھارے، سالوں سے مشرقی غُوطہ میں مقیّد ہزاروں افراد وہاں سے نکل دمشق کے دیہی علاقوں میں حکومت کی قائم کردہ پناہ گاہوں میں امنڈ پڑے۔ ان پناہ گاہوں کی گنجائش بیس ایک ہزار افراد کی تھی مگر ابتدائی دنوں میں ان کی تعداد ساٹھ ہزار کے لگ بھگ ہو گئی۔ کچھ واپس یا اور شہروں اور قصبوں کو چلے گئے اور بہت سے اب بھی رُکے ہوے ہیں یا حکومت نے پوچھ تاچھ کی غرض سے روک رکھا ہے۔

یہ سطور لکھتے وقت بھی تیس ہزار سے زائد افراد وہاں موجود ہیں اور ہمارے ہم کار ادارے انہیں خوراک، غسل خانے، ادویات وغیرہ فراہم کرنے کی سر توڑ کوشش کر رہے ہیں۔ چند ایک سے بات ہوئی تو ایسے ایسے قصے سننے کو ملے کہ پتھر دل انسان کی آنکھ بھی نم ہو جاے۔ کئی خواتین نے اپنی ننگی کلائیاں اور سُونے یا زخمی کان دکھاے چونکہ “مجاہدین” کوچ کرتے وقت اپنے زیرِ نگین لوگوں کے بدن سے سونے کا آخری تار تک بطور اندوختہ یا مالِ غنیمت اتار کر لے گئے۔ ایک سولہ سترہ سالہ بچی کے چار بچے ہیں جن میں سے ایک کی شکل دوسرے سے نہیں ملتی اور اسے کچھ علم نہیں کہ ان کی ولدیت کا سہرا کن مجاہدین کے سر ہے۔ ایسی بے شمار داستانیں بکھری پڑی ہیں۔ اب مشرقی غوطہ کا صرف ایک حصہ “دُوما”، “جیش الاسلام” نامی گروہ کے قبضے میں ہے جس پر حملے اور مذاکرات، دونوں جاری ہیں۔

ہمیں اس پیش رفت کا فائدہ یہ ہوا کہ دمشق پر روزانہ دسیوں کے حساب سے برسنے والے مارٹر گولوں کا سلسلہ تھم گیا۔ سو شہر کی فصیلوں پر سے کم از کم ایک دیو کے سائے کے کم از کم وقتی طور پر خاک ہونے کو غنیمت جانتے ہوئے طے ہوا کہ اس جمعے کو دمشقِ قدیم دیکھا جاے۔ یہ خادم ہلکی ہلکی بارش اور بادلوں کے جلو میں اپنی قیام گاہ سے نکلا اور سڑک پار کر کے دوسری جانب شارع ثورہ [شاہراہِ انقلاب] کا رخ کیا۔ وہاں ایک میدان میں عثمانی ترکوں کے دور کی حجاز ریلوے کا عظیم الشان سٹیشن اور اسی دور کا ایک ناکارہ دُخانی انجن ایستادہ ہے۔ اس ریلوے لائن کی بنا سلطنت عثمانیہ نے سن انیس سو آٹھ میں ڈالی تھی اور بیان کردہ مقصد حاجیوں کی نقل و حمل میں معاونت کرنا تھا۔ بد خواہوں کا کہنا ہے کہ بنیادی یا ضمنی مقصد سلطنت کے زیرِ نگیں علاقوں تک افواج پہنچانے کی رفتار کو بڑھانا بھی رہا ہوگا۔ بہر کیف، یہ ریلوے ابھی پوری طرح فعّال نہیں ہوئی تھی کہ برطانوی جاسوس کرنل ٹی ای لارنس معروف بہ لارنس آف عریبیہ کی سرکردگی میں اس دور کی برپا ہونے والی “عرب بہار” نے اسے جگہ جگہ نقصان پہنچایا۔ سلطنت عثمانیہ بھی لد گئی اور اس کی بچھائی ہوئی پٹڑی بھی نہ رہی مگر دمشق کا ریلوے سٹیشن اب تک آتشِ رفتہ کا سراغ دے رہا ہے۔

شارع ثورہ پر کوئی ایک ڈیڑھ کلومیٹر شمالی جانب چلنے پر پرانے شہر کی فصیل نظر آنے لگتی ہے۔ اس خادم نے ایک بغلی سڑک سے ایک برابر جاتی سڑک پر ایک عظیم الشان مسجد کی جھلک دیکھی تو اس جانب مُڑ گیا۔ یہ “المرجہ” نامی چوک ہے جس پر ایک اونچا آہنی مینار ایک سنگِ مرمر کی کرسی پر ایستادہ ہے۔ مینار کی چوٹی پر الاقصی کی شبیہہ بنی ہوئی ہے جبکہ مرمریں کرسی پر اس کے افتتاح، بدستِ خلیفہِ رسول اللہ [ص] کہلانے والے سلطان عبدالحمید ثانی کی سنگی تختی نصب ہے۔ چوک سے سات پانی کی نالیاں پھوٹتی ہیں اور ایک جانب وہ عظیم الشان مسجد واقع ہے جسے دیکھ کر خادم اس سمت مڑا تھا۔ اس پر “سیف الدین یلبُغا” کا نام کندہ ہے۔ فیس بک پر یہ تصویر دیکھ کر آسٹریلیا سے عزیزم عامر نریمان گھانگھرو نے تحقیق کے بعد مطلع کیا کہ یہ یلبغا صاحب کوئی اور نہیں ، تاریخ میں “الملک الظاہر، سیف الدین قطز” کے نام سے مشہور مملوک سلطان ہیں۔ ان کی وجہ شہرت یہ ہے کہ انہوں نے کئی صدیوں سے ایشیا بھر کو تاراج کرتے منگول لشکر کو “عین جالوت” کے مقام پر اپنی نرالی جنگی چالوں سے، اپنے نائب رکن الدین بیبرس کی مدد سے ایسی شکست دی کہ اس کے بعد یورشِ تاتار کا زور ہمیشہ کے لیے ٹوٹ گیا۔ مسجد کے بالمقابل ایک چار منزلہ عمارت ہے جس کا چہرہ فرانسیسی طرزِ تعمیر کا غماز ہے۔ چوک کے ایک سمت قدیم عثمانی دور کی چند ٹوٹے پھوٹے گنبدوں اور بے نام قبروں پر مشتمل ویرانہ ہے جس کے چوگرد گھاس کے قطعوں پر مرد و زن بیٹھے پھیری والوں سے آئسکریم، چاے یا کافی خرید کر پی رہے تھے۔

خادم وہاں سے دمشقِ قدیم کی فصیل کی جانب بڑھا تو باہر لگے ایک گھڑ سوار مجسمے پر نظر پڑی جو سلطان صلاح الدین کے نام سے موسوم ہے اور واضح طور پر حال کی پیداوار ہے۔ یہاں سے شہرِقدیم کو دو راستے جاتے ہیں ایک مسقف راستہ براستہ سوقِ حمیدیہ اور دوسرا پرانے قلعے کے ساتھ ساتھ۔ اس خادم نے خوشگوار موسم کا لطف اٹھانے کی غرض سے قلعے کی دیوار اور خندق کے درمیانی راستے کا انتخاب کیا۔ قلعے کی دیوار میں صحابیِ رسول [ص] حضرت ابوالدرداء کی مسجد کے پاس سے گزرتے ہوے ایک نظر قلعے کے دروازے پر ڈالتے ہوے خادم ایک دوراہے پر پہنچا جہاں دائیں جانب مڑیں تو مسجد امویہ آ جاتی ہے اور بائیں جانب کا تنگ اور پر پیچ راستہ سیدہ رقیہ بنت حسین [ع] کے مرقد مبارک کی جانب جاتا ہے۔ جمعہ کی نماز کا وقت ہوا چاہتا تھا چنانچہ مسجد کی راہ لی۔ اس مسجد کی تاریخ اسلام میں بہت اہمیت ہے۔ یہاں کسی زمانے میں مقامی مظاہر پرستوں نے رعد کے دیوتا کا مندر بنا رکھا تھا۔ جب یہاں رومیوں کا تسلط ہوا تو انہوں نے “نشّہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں” کے مصداق رعد دیوتا کو اپنے خداوندِ مشتری یعنی جوپیٹر میں ضم کرلیا۔ جب روم عیسائی ہوا تو یہاں بازنطینی طرز کا ایک گرجا کھڑا کر دیا گیا۔ حضرت خالد بن ولید کی افواج نے دمشق فتح کیا تو گرجے ایک کونے میں مسلمانوں کی نماز کے لیے جگہ حاصل کی گئی حتی کہ مرورِ زمانہ نے دمشق کو اموی خلفاء کا دار الحکومت بنا دیا۔ خلیفہ ولید بن عبدالملک نے گرجے کو ڈھا کر اس کی جگہ ایک عظیم الشان مسجد بنانے کا حکم دیا۔ اس پر مسیحی برادری کے احتجاج کو فرو کرنے کے لیے ازراہ تالیف قلوب خلیفہ نے دیگر تمام مستعمرہ گرجے واگزار کرنے کا حکم دے دیا۔ دنیا بھر سے لاے گئے معماروں اور صناعوں نے گرجے کے قدیم ستونوں کو زیادہ نہیں چھیڑا بلکہ ان کی مزید تراش خراش کر کے انہیں اکثر اپنی جگہ رہنے دیا۔ ایک جانب واقع قربان گاہ ڈھا کر دیوار بنا دی اور ایک لمبی دیوار کے وسط میں منبر و محراب نکال دیئے۔

اگر کسی نے “بوستان سعدی” پڑھی ہے تو یاد ہوگا کہ “معتکف بودم بر مزار حضرت یحیی”۔ سو مسجد کے تالار میں محراب سے ذرا ہٹ کر بائیں جانب ایک گنبد اور سنہری جالیوں سے ڈھکا ہوا کمرہ ہے جس کے بارے میں یقین کیا جاتا ہے کہ یہاں شہید پیغمبر حضرت یحیی [ع] کا سرِ مبارک دفن ہے۔ شیخ سعدی نے یہیں اعتکاف فرمایا تھا اور دوران قیام ایسے قحط کا مشاہدہ بھی جس میں یاروں سے عشق فراموش ہوگیا تھا۔ منبر کوئی پندرہ فٹ اونچا ہے ۔ جب یہ خادم منبر سے کچھ فاصلے پر پہنچا تو دیکھا کہ نچلی سیڑھیوں پر ترکی ٹوپی اور عرب جبّے میں ملبوس ایک شخص کا مجسمہ نصب ہے جس کا چہرہ گُڑیا جیسے پلاسٹک کا بنا ہوا ہے۔ ابھی حیرت کا دورہ جاری تھا کہ “مجسمے” نے پلکیں جھپکائیں تو اندازہ ہوا کہ یہ کوئی داڑھی منڈا مبروص شخص ہے جس کے ذمے مسجد کی کوئی خدمت ہے۔ دل ہی دل میں شرمندگی تو بہت ہوئی ، البتّہ یہ آخر تک نہ کھُلا کہ ان صاحب کا فرض منصبی کیا ہے۔ نہ تو امام تھے اور نہ ہی موذن۔ خطبے کے دوران یہ اس سیڑھی پر بے حس و حرکت بیٹھے رہے اور شاید یہی رونق افروزی ان کا کام ہے۔ امام صاحب ایک چگّی داڑھی والے صاحب تھے جو عمر میں اس خادم سے کچھ کم ہی رہے ہوں گے۔ خطبے کو انہوں نے قران کی سورہ احزاب کے گرد ترتیب دیا تھا اور قریش مکہ اور ان کے حلیفوں کے مدینہ کے گھیراو اور شام پر عالمی قوتوں اور ان کے مقامی حواریوں کی یورش کے درمیان مماثلت پیدا کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ امام صاحب کی تقریر ولولہ انگیز تھی اور قران و حدیث کے حوالہ جات سے مزین، مگر یہ خادم سوچتا رہ گیا کہ اس وقت مشرقی غوطہ کے باغیوں کے زیرِ قبضہ آخری کونے، دوما میں خطبہ جمعہ میں کیا بیان ہورہا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).