دمشق قدیم سے ایک مکتوب۔۔۔۔ پس نوشت


مسجد میں ایک جانب رسیوں کی مدد سے ایک علاقہ خواتین کے لیے مخصوص کیا گیا تھا لیکن ہجوم کے سبب بہت سی خواتین اس سے باہر بھی بیٹھی نظر آئیں۔ نماز کی ترتیب حنفی طرز پر تھی اور اگرچہ لاوڈ سپیکرز کے سبب آواز صاف صاف ہر کونے تک پہنچ رہی تھی مگر قدیم روایت کی پیروی میں مکبرین کا التزام تھا۔ اس فرق کے ساتھ کہ مختلف مکبرین کے وقفے وقفے سے آواز بلند کرنے کے بجاے جماعت کی صفوں میں جابجا ایستادہ مکبرین بیک آواز تکبیر دہراتے تھے۔ ان مکبرین کا لحن اور طرز آپس میں ہم آہنگ مگر امام صاحب سے مختلف رکھا گیا تھا۔ سچ پوچھیں تو اس خادم کو تو یہ انتظام جمالیاتی طور سے بہت بھلا محسوس ہوا۔ نماز کے بعد مسجد کے صحن میں لوگوں کا ٹھٹ لگ گیا اور جس جانب نگاہ دوڑائیں، جدید دور کی مقبول ترین بدعت یعنی “سیلفی” کا عمل جاری تھا۔ مسجد اموی کے بارے میں مسلمانوں کے کچھ فرقوں میں مشہور ہے کہ حضرت عیسی [ع] کا نزولِ ثانی اس کے مینار کے قریب ہوگا۔ اس وقت تو یہ تحقیق کرنے کا موقع نہ تھا کہ وہ کون سا مینار ہوگا، چنانچہ احتیاطا تینوں میناروں کی زیارت کر لی۔ بعد میں پتا چلا کہ یہ روایت جنوبی مینار کے بارے میں ہے۔

صحنِ مسجد میں ایک قُبّہ ہے جس میں کسی دور میں ایک دھوپ گھڑی ہوا کرتی تھی۔ مسجد سے متصل ایک احاطے میں سلطان الناصر، صلاح الدین ایوبی کا مرقد ہے۔ مزار ایک چھوٹے سے کمرے میں واقع ہے اور اند جائیں تو تو تین قبور ہیں۔ ان میں دائیں جانب واقع قبر کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ سلطان کی اصل قبر ہے۔ اس کے براببر، کمرے کے وسط میں سنگِ مرمر کا بنا ایک تعویذ ہے جو جرمنی کے بادشاہ ولہیلم نے انیسویں صدی میں عثمانی سلطان کو بطور تحفہ بھجوایا تھا مگر غالبا اس وقت کے فقہا میں اختلاف کے سبب اسے اصل قبر پر نصب نہ کیا گیا بلکہ اصل قبر کے ساتھ خالی زمین پر نصب کر دیا گیا۔ تیسری قبر بالکل نئی ہے۔ اور اس میں، حالیہ خانہ جنگی میں شہید ہونے والے ایک جیّد سنّی عالم اور ادیب شیخ محمد سعید رمضان البوطی آسودہ خاک ہیں جو اپنے دس شاگردوں کے ہمراہ سن دوہزار تیرہ میں ایک بم دھماکے کی نذر ہوے۔ شامی حکومت نے انہیں سلطان صلاح الدین ایوبی کے پہلو میں دفن ہونے کا اعزاز بخشا۔ اس میں ان احباب کے لیے سوچ بچار کا خاصا سامان ہے جو اس جنگ کو “رافضی” حکمرانوں اور “صحیح العقیدہ” عوام کی فرقہ ورانہ لڑائی قرار دینے پر تلے رہتے ہیں۔ یہ نہ کھل پایا کہ قبر گنبد کے نیچے کمرے کے وسط کی بجاے ایک سمت ہٹ کر کیوں بنائی گئی تھی۔ یا پھر گنبد کی تعمیر کے وقت کیونکر قبر کو وسط میں رکھنے کا التزام نہ کیا گیا۔ کمرہ مرقد سے باہر احاطے میں دائیں جانب چار عثمانی ترک ہوابازوں کی قبریں اور یادگاری تختیاں ہیں جو بیسویں صدی کی ابتدا میں استنبول سے شام تک کا فضائی راستہ کھوجتے ہوے تکنیکی حادثات میں جان ہار گئے۔ احاطے کی دوسری جانب قدیم قبل از بازنطینی محرابوں کے آثار موجود ہیں۔

سلطان صلاح الدین کے احاطہ مزار سے نکل کر سیدھے ہاتھ سیدہ رقیہ بنت حسین کے مرقد کی جانب ایک تنگ اور پر پیچ راستہ جاتا ہے۔ مزارِ مبارک ایک احاطے میں واقع ہے جس میں مرقد کے برابر ایک وسیع مسجد ہے جہاں شیعہ ترتیب سے نماز جمعہ جاری تھی۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ مزار و مسجد کی خدمت اور زائرین کی دیکھ بھال کے لیے متعین عملے کی غالب اکثریت پاکستان اور افغانستان سے آے ہوے ہزارہ برادری کے لوگوں کے سپرد ہے۔ اس خادم نے افسرِ کفش برداری سے فارسی میں حال احوال کرکے اپنا نشہ پورا کیا، مزار پر فاتحہ پڑھی اور احباب کی تحیات پیش کرکے باہر آگیا۔ اموی مسجد کے دروازے کے سامنے “سوق حمیدیہ” نام کا طویل مسقف بازار واقع ہے جس سے دائیں بائیں تنگ، پیچدار اور سرپوش گلیاں پھوٹتی ہیں جن میں اشیاے صرف، سامانِ خورد و نوش اور دستکاری کی دکانیں ہیں جن میں اکثر جمعہ کی مناسبت سے بند پائیں۔ دمشق کے دیگر محلوں اور اطراف سے آے ہوے مرد وزن البتہ کثیر تعداد میں گھومتے پھرتے اور آئس کریم اور مشروبات سے لطف اٹھاتے نظر آے۔ دن ڈھل رہا تھا اور موبائل فون پر سرکاری برقیاتی ڈاک کے بیسیوں پیغامات یاد دہانی کروا رہے تھے کہ سیر کا وقت ختم ہو رہا ہے اور بہت سے ادھورے کام توجہ کے مستحق ہیں۔ سو صدیوں کی تاریخ کے نقوش یادداشت اور کیمرے کی سکرین پر ثبت کیے مسافر ٹھکانے کو لوٹ آیا، حیدر بخش حیدری کی آرائش محفل کا فقرہ دہراتے ہوے کہ “ایک بار دیکھا ہے، دوبارہ دیکھنے کی ہوس ہے”۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).