یورپ کی زندگی اور انسانیت


یورپ میں غیر مسلم لوگ رہتے ہیں جس کو ہم بے حیائی کہتے وہ ان کے تو مذہب میں جائز ہے۔ لیکن جو ہمیں اچھا لگے وہ ہم ان سے سیکھتے ہیں۔ جو ہمارا دل کرے اور پھر لوگ یورپ کو بدنام کرتے۔ لیکن ہم صرف ان کا فیشن ہی سیکھتے۔ جو ہم خود بھی کرنا چاھتے۔ لیکن انسانیت اور انسانی ہمدردی نہیں سیکھتے۔ جو ہم نہیں کرنا چاھتے۔ والد صاحب کہتے ہوتے کہ بیٹا کھانا ایک بندے جوگا ہو اور کھانے والے دو اور آپ کو بھی اتنی بھوک لگی ہو جتنی دوسرے کو تو کھانا اگلے بندے کو دے دو اس کو انسانیت کہتے ہوتے۔

وہ ایک بات سنی تھی لیکن یورپ میں سب انسانیت آنکھوں سے دیکھی۔ یہاں کا قانون ہی سب کچھ ہے جو امیر غریب کو ایک کرتا ہے اور امیر غریب کے لئے ایک قانون ہے۔ یہ لوگ پانچ سال باھر سے آئے ہوئے بندے سے ٹیکس لیتے۔ پانچ سال کے بعد بندہ ان کا شہری بن جاتا تو اس کے سب حقوق ان کے اپنے بندوں جتنے ہو جاتے۔ اس کیاگر ملازمت نہ ہو اور بچے بھی ہوں تو اس کو گورنمنٹ پیسے دیتی رہتی جب تک ملازمت نہ ملے۔ اور جیسا کہ اپ جانتے ہم پاکستانی تو جب اس مقام پہ آجاتے تو ملازمت ڈھونڈتے بھی نہیں کہ پیسا مل رہا ہے آرام کریں۔

ہم مڈل کلاس لوگ ہوتے جیسا کہ اپ جانتے کہ پاکستان میں سوائے سیاسیوں کے زیادہ لوگ مڈل کلاس۔ خیر ان کا قانون ہے کہ جو بچہ ان کے ملک میں پیدا ہو اس کا مہینے کا سو یا دو سو گورنمنٹ لگا دیتی جو پاکستانی پندرہ سے بیس ہزار ہوتا اور جو بچے باہر سے آتے وہ جس تاریخ کو ان کے ملک میں داخل ہوتے ان کا لگ جاتا۔ اور یہ پیسے اٹھارہ سال کے ہونے تک ملتے رہتے ہیں۔ ملازمت نہ ہو یا تنخواہ تھوڑی ہو تو گھر کا کرائے بھی گورنمنٹ دیتی ہے۔

نہ کسی کے جلسے میں جاتے نہ ایک دوسرے کو گالی دیتے ہیں۔ ایک قوم بن کے یہ لوگ رہتے ہیں۔ جب کوئی بزرگ ہو جائے تو ان کا اپنا مذہب یا کلچر ہے اس کو اولاد نہیں تو گورنمنٹ نرس دیتی گھر دیتی اور ہر بندے کی پینشن ہوتی ہے۔ اپ کسی کے پاس ملازمت کرتے آپ کا مالک ان کا ہو یا باہر کا اُس پہ ایک ہی قانون لگتا کہ ملازم کے حقوق پورے کرے۔ اگر نہیں کرتا تو اپ ایک درخواست دیں جس کو ’(Employment right) کہتے ہیں۔ تو اس کو کورٹ بلالیتا اور وہ اپنے شرم سے آپ کو حق سے زیادہ پیسا دے گا کہ کورٹ میں جاتے میری بےعزتی ہوتی۔ اور اللہ خوش رکھےہمارے پاکستانی تو یہ حق ضرور استعمال کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے یہ لوگ ڈر ڈر کے ہمیں نوکری دیتے ہیں۔

آپ کو کوئی پوچھ نہیں سگتا کہ کون ہو کہاں سے آئے ہو کیسا پہناوا ہے۔ اور سارے ملک میں ایک ہی تعلیم کا نظام فری سکول میں دودھ فروٹ سب اور مسلمانوں کے لئے الگ کھانا گھر گھر لیٹر دیتے کہ لکھ دو آپ کے بچے کیا کھا ئیں گے۔ کوئی مسجد جائے کوئی چرچ جائے کوئی مندر جائے کوئی پابندی نہیں اور نہ باہر نکلتا دیکھ کے کوئی کہتا کہ یہ مسجد کا یا یہ چرچ کا بندہ ہے۔ ہر بندے کو آزادی ہے۔ ہم ان کو برا بھلا کہتے ہیں لیکن ان کا تو مذہب ہے اور ہم فیشن سے ان کے تہوار مناتے یہ ہمیں نہیں کہتے۔ لیکن جو ہمیں سیکھنا چاہیے وہ ہم نہیں سیکھتے۔ جو خود کو اچھا لگے وہ سیکھتے ہیں۔

عورت اور غریب کے حقوق سب سے زیادہ ہوتے ہیں اکیلی عورت ہو بچوں کے ساتھ تو اس کو وہی سہولتیں گورنمنٹ دیتی جو ملازمت والے مرد دیتے ہیں۔ ہماری قوم تو تمیز اور انسا نیت سے نکل کر پیسے کے پیچھے لگ گئی۔ اور پیسے کے لئے ظمیر چھوڑ دیے دکھ ہوتا اپنے لوگوں کو دیکھ کے۔ محاورہ یاد آگیا کہ بندہ خواب دیکھتا کہ بہت سے کُنویں ہوتے اور ہر کنویں پہ ایک بندہ پہرہ دے رہا ہوتا ہے۔ ایک کنویں پہ کوئی پہرہ نہیں تو خواب والا بندہ کسی سے پوُچھتا کہ یہ کیا ہے۔ تو ایک بندہ بتاتا ہے کہ یہ دوزخ کے کنویں ہیں اور ہر بندہ ان سے باہر نکلنا چاہتا ہے۔ اس لئے پہرہ دیا جاتا کہ پہرے والا بندہ ان کو واپس دھکا دے سگے۔ خواب والا پوچھتا کہ یہ کنواں خالی کیوں ہے۔ اس میں کیا کوئی باہر جانے کی کوشش نہیں کرتا تو آگے والا بتاتا یہ پاکستانیوں کا کنواں ہے اس سے جو باہر جانا چاہتا ہے اس کے اپنے پا کستانی خود ہی اس کی ٹانگ کھینچ لیتے ہیں۔ اس لئے کسی پہرے کی ضرورت نہیں ہوتی ان کے لئے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).