مانگنے والا گدا ہے، صدقہ مانگے یا خراج


یہاں اسلام آباد میں میرے ایک عزیز بتانے لگے، کہ کار میں جاتے ایک ٹریفک سگنل پر ٹھیرنا پڑا، تو ہٹا کٹا خوش لباس جوان ہاتھ پھیلائے کھڑکی میں آ کھڑا ہوا؛ ”اللہ کے نام پر کچھ مدد کر دو“۔ اُس سے کہا، کہ تم تو اچھے بھلے صحت مند، بظاہر ٹھیک ٹھاک دکھائی دیتے ہو، پھر کیا مجبوری ہے؟ جوان نے رُکھائی سے جواب دیا، ”اللہ کے نام پر مانگا ہے، دینا ہے تو دو؛ مجھ پر احسان نہیں ہے، اللہ کو دو گے؛ میری تفتیش مت کرو، کہ میری کیا مجبوری ہے“۔

دس بارہ برس پہلے کراچی کی سڑکوں بھکاریوں کی بہتات دیکھ کر یہ سمجھا کہ کراچی بھکاریوں کا شہر ہے۔ لاہور اور پنڈی میں بھکاری تو تھے، لیکن اتنے زیادہ نہیں۔ بعد میں ادراک ہوا کہ کراچی جسے غریب کی ماں کہا جاتا ہے، وہاں سیٹھ، مزدور، ہنرمند و کای گر، فن کار، تاجر، آجر، اجیر سبھی کی بہتات ہے۔ کراچی کو منی پاکستان یونھی نہیں کہا جاتا؛ جسے پاکستان بھر میں کہیں روزگار نہ ملے، اس کے لیے کراچی میں آمدن کا کوئی نہ کوئی وسیلہ نکل ہی آتا ہے۔ رمضان کا مہینا ہو، تو پس ماندہ علاقوں سے بھیک منگوں کے غول در غول کراچی میں آن بسیرا کرتے ہیں۔ کون ضرورت مند ہے، کون عادی بھیک منگا، یہ جانچنا مشکل ہی نہیں، لگ بھگ ناممکن ہے۔

سکون کی کیا کہیے، لیکن ان دِنوں راول پنڈی میں سکونت ہے۔ کم کم ہی گھر سے نکلنا ہوتا ہے؛ جب جب کہیں جانا ہو، بھکاریوں سے واسطہ نہ پڑے، یہ ممکن نہیں۔ راول پنڈی کی آبادی بیس برسوں میں کہیں سے کہیں جا پہنچی ہے۔ وہ جنگل جہاں کبھی گیدڑ بولا کرتے تھے، اب حد نگاہ وہاں انسانوں کے سر دکھائی دیتے ہیں۔ آبادی بڑھی ہے تو بھکاری بھی اسی رفتار سے بڑھے ہیں۔

دو چار ہفتے پہلے کی بات ہے، ایک جوان موٹر سائکل پر بیوی بچوں کو بٹھائے میرے سامنے آ ٹھیرا۔ ناچاری سے کہا، میں ٹیکسلا سے ہوں، کسی کام سے پنڈی آیا تھا، جس کے یہاں جانا تھا، وہ نہیں ملا؛ ٹنکی میں پیٹرول کم ہے اور جیب خالی، کچھ مدد کردیں۔ کوئی مشکل میں ہے یا نہیں، شک کرنے سے بہ تر ہے، بساط بھر اُس کی مدد کردیں؛ یوں بھی ہم نے اللہ کے بندے کو نہیں، اللہ کو دینا ہوتا ہے۔ افسوس تب ہوا، جب وہی شخص کچھ دن بعد دکھائی دیا، اور پچھلی کہانی سے ملتی جلتی داستان سنانے لگا، موٹر سائکل کی پچھلی سیٹ پر بیٹھے اس کی بیوی اور بچے اُمید بھری نظروں سے مجھے یوں تک رہے تھے، جیسے میں نے تعاون نہ کیا، تو ان کی عزت دو کوڑی کی نہ رہ جائے گی۔ دو چار ہفتے پہلے بھی ان کی نظروں میں ایسی ہی اُمید و حسرت تھی۔

میرے بچپن کا ذکر ہے؛ گلی سے ایک ”فقیر“ گلے میں ”جھولا“ لٹکائے، صدا کرتا جاتا تھا، ”جو دے اس کا بھی بھلا، جو نہ دے اُس کا بھی بھلا“۔ ہفتے کا ایک دن، وہ بھی جمعرات؛ اس کے سوا گلی میں کبھی کسی ”فقیر“ کی شکل نہ دیکھی تھی۔ بھکاری وہ کہلاتے تھے، جو مسجد کے باہر کپڑا ڈالے، سر جھکائے بیٹھے ہوتے تھے۔ گلی سے گزرنے والے ”فقیر“ کو آٹا دو، ناکارہ برتن، پرانے جوتے کپڑے؛ وہ دعا دے کر آگے بڑھ جاتا۔ پیسے نہ وہ مانگتا تھا، نہ دیے جاتے تھے۔ پیسے مسجد کے باہر بیٹھے بھکاریوں کی قسمت تھی۔

اب کون سا مقام ہے جہاں آپ بھکاریوں کی دست رس سے دُور ہیں! بس اسٹاپ، اڈے، ریل ویز اسٹیشن، اسپتال، گلیاں، چوراہے، ریستوران، کریانہ اسٹور، گوشت کی دُکان، بیکری، مسجد؛ کوئی ایک مقام بتائیں جہاں بھکاریوں سے واسطہ نہ پڑتا ہو۔ اُن سے ہاتھ اٹھا کر معذرت کریں؛ عاجزی سے ”معاف کرو“ کہیں، یا کچھ بھی کرلیں، اگر بھیک نہ دی، تو وہ آپ کے گریبان ہی نہیں پڑیں گے، باقی کوئی کسر رہنے نہیں دیں گے۔ بدتمیزی کرنا ان بھکاریوں کا معمول ہے۔

سنتے تھے کہ گئے دنوں میں سادھو، چیلوں کی تربیت کرنے کے لیے سب سے پہلے ان سے بھیک منگواتے تھے؛ اس لیے کہ بھیک مانگنے سے انا کو ٹھیس پہنچتی ہے؛ ”میں“ زد پر ہوتی ہے؛ اس ”میں“ کو مارنا ہوتا ہے۔ صوفی، فقیر کی منزل تک پہنچنے کے لیے ”میں“ مارنے پر زور دیتے تھے؛ یہی وجہ رہی ہوگی، کہ بھکاریوں کو بھکاری نہیں ”فقیر“ کہا جاتا رہا۔ انھیں ”فقیر“ کیا کہیے، جو بھیک نہ ملنے پر اُلٹا آپ کی توہین کرنے پر اُتر آتے ہیں۔ کوئی ان سے کیا پوچھے، کہ تم اتنے ہی غیرت مند ہو، تو بھیک مانگنے کیوں نکلے! بھیک مانگنا تمھاری مجبوری سہی، بھیک نہ ملنے پر برہمی تمھارا استحقاق کیسے ہوا؟

بھکاریوں کی ڈھیروں قسمیں ہیں۔ کوئی تحقیق کرے تو یقین سے بتائے کہ کتنی قسمیں ہیں۔ ہیجڑوں کے بہ رُوپ میں نقلی ہیجڑے، اور اصلی بھکاری؛ جھگیاں لگائے خانہ بدوشوں کی وہ نسل تو ناپید ہوئی، جو موسم کے ساتھ سفر کرتے تھے۔ چنگڑ؛ گڈوی بجا کر مانگنے والیاں، اب گڈوی کو بھی زحمت نہیں دیتیں۔ بھیک مانگنے کے جدید طریقے ایجاد کرلیے گئے ہیں۔ ”ایزی لوڈ والی صائمہ“ تو یونھی بدنام ہے؛ سوٹڈ بوٹڈ، انگریزی میڈیم بیگر بھی دیکھنے میں آتے ہیں۔

کسی کے پاس کھانے کو کچھ نہیں، وہ ایک وقت کے کھانے کے لیے بھیک مانگے، سمجھ آتا ہے۔ بھیک مانگ مانگ کر ذخیرہ کرنا، یہ کاروبار ہے۔ آج کل کے بھکاریوں کی جیب میں سیل فون عام ہیں۔ جھگیوں میں رہنے والے نہیں، کرائے کے مکانوں میں رہتے ہیں۔ سہولیات میں بجلی، پانی، پنکھا، اے سی، موٹر بائک، گاڑی تک رکھنے والے ”فقیر“ کے قصے سننے میں آتے ہیں۔ بھکاریوں کی یہ وہی قسم ہے جن کے لیے کہا گیا ہے کہ یوم حساب بھیک مانگنے کی قبیح عادت کے باعث، ان کی پیشانی پر داغ ہوگا۔

کچھ یہی احوال ان ریاستوں کا بھی ہے، جو عالمی اداروں سے بھیک مانگتی ہیں۔ ان کے انداز و اطوار دیکھیں تو کیا ہی شاہانہ ہیں۔ بھیک دینے والی ریاستوں کے حکمران بھی ویسی پرتعیش سہولیات کا تصور نہیں کرتے، جیسے بھیک لینے والی ریاستوں کے حکمران جیتے ہیں۔ ان ریاستوں کا بھی وہی چلن ہے، جیسے آج کل بھکاریوں کا طور، کہ بھیک نہ دی جائے، معذرت کرلی جائے، تو توہین آمیز کلمہ کہ کر پلٹتے ہیں۔ بھیک مانگنے والی ریاستیں بھیک نہ ملنے پر، بلیک میلنگ پر اُتر آتی ہیں؛ دشنام دیتی ہیں؛ بھیک نہ دینے والوں کے ابا و اجداد تک جا پہنچتی ہیں۔ صد شکر کہ نہ ہم بھکاری ہوئے، نہ ایسی ریاست کے شہری۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran