سقوط ڈھاکہ کا ذمہ دار کون تھا؟


ڈاکٹر محمد وسیم ہمارے ملک میں سیاسیات کے سینئر ترین اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ پر متعدد وقیع کتابوں کے مصنف ہیں۔ ذیل کے مختصر مضمون میں ڈاکٹر محمد وسیم نے ایک ایسے سوال کا جواب دینے کی کوشش کی ہے جسے کئی دہائیوں تک عوامی مکالمے اور اجتماعی شعور کے دائرے سے باہر رکھا گیا۔ بدقسمتی سے آج بھی ایسے عوامل موجود ہیں جو قریب 50 برس قبل پاکستان کی شکست و ریخت پر منتج ہو ئے تھے۔ مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کے اسباب پڑھتے ہوئے دراصل ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ان میں سے کونسی غلطیاں ایسی ہیں جنہیں ہم آج بھی دہرا رہے ہیں۔

٭٭٭ ٭٭٭

حقیقت یہ ہے کہ مشرقی پاکستان کی جنگ میدان جنگ میں جرنیلوں نے نہیں ہاری۔ اگرچہ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ ہمیں یہی سمجھانا چاہتی ہے۔ اس سانحے کے کئی دوسرے کردار بھی تھے‘ مثلاً سیاست دان‘ بیوروکریٹ وغیرہ‘ جنہوں نے اس شکست میں اپنا کردار ادا کیا۔ اس سانحے کے ذمہ دار صرف وہی لوگ نہیں تھے جنہوں نے بحران کے عروج میں سیاسی یا فوجی فیصلے کئے۔ بلکہ سیاست دانوں‘ بیوروکریٹوں‘ فوجی افسروں‘ انتظامی افسروں اور معاشی و ثقافتی کارپردازوں کی ایک پوری نسل نے قوم کو اس مقام پر پہنچایا۔

بنگالیوں کو چھوڑو‘ اپنی قوم کا مفاد سوچو۔ 50ء اور 60ء کی دہائیوں میں پاکستان کے حکمرانوں کا زریں اصول یہی تھا۔ اس سوچ کا محور ریاست تھی اور یہ سوچ کئی پالیسیوں کے ذریعے مرئی اور ٹھوس شکل اختیار کر گئی۔ اسی طرز فکر کے سبب بنگالیوں کے مطالبات اور احساسات کو نظر انداز کیا گیا‘ ان کی تذلیل کی گئی اور ان کی غیر منطقی مخالفت کی گئی۔ اس کا سیدھا سادا مطلب یہ تھا کہ بنگالی جو مانگ رہے ہیں‘وہ قومی مفاد کے منافی ہے۔ بنگالیوں کا، جو ملک کی غالب اکثریت تھے‘ ہر مطالبہ اسی زمرے میں آتا تھا۔ مخلوط طرز انتخاب کا مطالبہ ہو‘ صوبائی خودمختاری کا مطالبہ ہو‘ بنگالی زبان کو قومی زبان تسلیم کرنے کا مطالبہ ہو‘ قومی وسائل کی منصفانہ تقسیم کا مطالبہ ہو یا فوج میں بنگالی نوجوانوں کی بھرتی کا مطالبہ ہو‘ سبھی کچھ قومی مفادات کے منافی تھا۔ پاکستان کا سب سے بڑا صوبائی یونٹ اپنے مفادات کے لئے جس چیز کو اہم قرار دیتا‘ وفاقی حکومت اسے بھارتی سازش کہہ کر مسترد کر دیتی۔

دو دہائیوں تک ملک کی غالب اکثریت قومی‘ صوبائی اور بلدیاتی انتخابات کے لئے مخلوط طرز انتخاب کا مطالبہ کرتی رہی۔ اس معاملے میں مغربی پاکستان کے سیاست دانوں کا کردار ان کی مصلحت کوشی پر دلالت کرتا تھا۔ یہ سیاست دان کبھی مخلوط انتخابات کے حق میں بولنے لگتے کبھی اس کے خلاف ہو جاتے۔ آخر کار اس بحث کو 1956ء کے آئین کے دائرہ کار سے باہر رکھنے کا ایک شرمناک معاہدہ کیا گیا۔

مغربی پاکستان کی انتظامیہ کے لئے سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ تھی کہ مشرقی پاکستان کے سیاست دان اور لوگ اپنی ہندو آبادی کو مساوی حیثیت دینے پر مصر تھے۔ ایسا نہیں ہو سکتا تھا۔ حکمران اشرافیہ کا خیال تھا کہ کسی اقلیت کو پاکستان کا مساوی حیثیت کا شہری تسلیم کرنے کا مطلب نظریہ پاکستان کی نفی ہے۔ انہوں نے بنگالیوں کے اس مطالبہ پر کان نہ دھرے‘ آخر کار حالات قابو سے باہر ہو گئے۔

درحقیقت بعض مسلم لیگی لیڈروں‘ مذہبی جماعتوں اور دائیں بازو کے اخبارات و جرائد نے بنگالیوں کو نیم ہندو کہنا شروع کر دیا۔ کیا بنگالی اپنی زبان کو ہندی کی طرح دیونا گری رسم الخط میں نہیں لکھتے؟ کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ پورے نہ سہی‘ آدھے ہندو ہیں؟ بعض فسطائی عناصر کا مشورہ تھا کہ مغربی پاکستان کے چند لاکھ نوجوان مشرقی پاکستان بھیجے جائیں جو وہاں کی مقامی عورتوں سے شادیاں کریں تاکہ ایک پاکیزہ اور خالص مسلمان نسل پروان چڑھ سکے۔

جنرل ایوب محض ایک فوجی جرنیل نہ تھے۔ وہ فوجی اور غیر فوجی اشرافیہ کی اس پوری نسل کی تجسیم تھے جس نے بنگالیوں کے ساتھ نسل پرستانہ سلوک روا رکھا۔ ایوب خان کا کہنا تھاکہ ”بنگالیوں میں گھٹیا اور پست نسلوں کی تمام تر خصوصیات بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں“۔ اس طرز فکر کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ بنگالیوں پر کسی قسم کی ذمہ داری نہیں ڈالی جا سکتی حتیٰ کہ انہیں اپنے بارے میں فیصلے کرنے کا اختیار بھی نہیں دیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ 1947ء سے 1969ء تک کسی بنگالی کو مشرقی پاکستان کا چیف سیکرٹری نہیں لگایا گیا۔ یہ وہ دور تھا کہ جب فوج یا سیاست دان نہیں بلکہ بیوروکریسی اقتدار کی ڈوریں ہلاتی تھی۔ چیف سیکرٹری ڈھاکہ میں مرکز کا نمائندہ تھا‘ بنگالیوں کا نہیں۔

ایوب خان نے اقتدار کو جتنا زیادہ اسلام آباد میں مرتکز کرنے کی کوششیں کیں‘ بنگالیوں نے اسی قدر صوبائی خود مختاری کا مطالبہ کیا۔ اختیارات کا صوبوں کی بجائے مرکز میں‘ دستور سازی اسمبلی کی بجائے انتظامیہ میں اور سیاست دنوں کی بجائے فوج اور بیوروکریسی میں مرکوز ہونا ملک کی تباہی کا باعث بنا۔ صاحبان اقتدار نے ہمیشہ غلط فیصلے کئے۔ جس قدر مشرقی پاکستان میں عدم اطمینانی بڑھی‘ اسلام آباد پھندا سخت کرتا گیا۔ 1971ء میں‘آخر کار‘ رسی ٹوٹ گئی۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2