سور ہمارے بھائی ہرگز نہیں


اگر مستقبل میں خدانخواستہ میرے کالموں کے بارے میں کوئی تحقیقی مقالہ لکھا گیا تو محقق بے چارہ بہت پچھتائے گا کہ یہ کیسا ناہنجار کالم نگار ہے کہ اس کے بیشتر کالم انسانوں کے نہیں جانوروں کے بارے میں ہیں، کیا یہ انسانوں کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ اپنا زور کالم اُن پر ضائع کرے اور جانوروں وغیرہ کی اُلفت میں مبتلا ہے۔۔۔اس کے کالموں میں نہ صرف گدھے۔۔۔ مگر مچھ، ہاتھی، اُلوّ، گدھ وغیرہ پائے جاتے ہیں بلکہ کہیں کہیں سور بھی پائے جاتے ہیں۔ میری بہت سی کتابوں کے نام بھی جانوروں اور پرندوں کے حوالے سے ہیں۔ مثلاً ’’پرندے‘‘، ’’فاختہ‘‘، ’’شتر مرغ ریاست‘‘، ’’گدھے ہمارے بھائی ہیں‘‘، ’’اُلّو ہمارے بھائی ہیں‘‘۔۔۔مجھے ہمیشہ حیرت ہوتی کہ یہ جو ’’اُلّو ہمارے بھائی ہیں‘‘، اس میں معمول کے کالم ہیں لیکن ایسا کیوں ہے کہ اس کے دھڑا دھڑ ایڈیشن شائع ہوتے جاتے ہیں اور تب کھلا کہ بھائیوں کی سالگرہ کے موقع پر ہمشیرگان انہیں یہ کتاب تحفے میں دیتی ہیں، اُدھر بھائی حضرات خاص طور پر بڑے بھائیوں کی سالگرہ پر اُنہیں ’’گدھے ہمارے بھائی ہیں‘‘ پیش کرتے ہیں۔۔۔ایک ادبی محفل میں ایک صاحب کہنے لگے کہ آپ ’’سور ہمارے بھائی ہیں‘‘ کب لکھیں گے، میں نے کہا کہ بھائی جان جب آپ اجازت دیں گے۔

ایک ادبی میلے میں میرے ناولوں کے بارے میں ایک خصوصی سیشن تھا، میں نے سوچا کہ یہ ایک سنجیدہ موضوع ہے، پبلک بور ہو جائے گی تو اس سے پیشتر اُن کی تفریح کی خاطر ایک ہلکا پھلکا کالم پڑھ دیا جائے اور وہ کالم شیروں اور گدھوں کے بار ے میں تھا۔۔۔کہ امریکی صدر دنیا کے سب سے بڑے گدھے ہیں کہ ڈیموکریٹک پارٹی کا امتیازی نشان گدھا ہے اور وہ اس کے سربراہ ہونے کی حیثیت میں سب سے بڑے گدھے نہ ہوئے تو کیا ہوئے اور ادھر ہمارے ہاں حکومتی پارٹی کا امتیازی نشان ایک دھاریدار چیتا ہے جسے شیر کہا جاتا ہے اور عجب شیر ہے کہ سمندر پار کے گدھے کے آگے دم ہلانے لگتا ہے، گدھے کے سامنے کشکول دراز کرکے اُس سے بھیک مانگتا ہے، علاوہ ازیں میں نے گدھے کی فضیلت کے بارے میں اُس کے اعضاء کی شاعری کے کچھ حوالے دیئے۔۔۔

مجھے نہیں معلوم تھا کہ اس کالم کی ادائیگی کو ریکارڈ کیا جا رہا ہے اور پھر میری اجازت کے بغیر اسے انٹرنیٹ پر ڈال دیا جائے گا۔۔۔ یہ کالم ’’وائرل‘‘ ہوگیا۔۔۔پسند کرنے والوں کی تعداد بین الاقوامی طور پر لاکھوں سے تجاوز کرگئی۔۔۔لوگوں نے اس میں سے سیاسی حوالے دریافت کرلئے خاص طور پر تحریک انصاف نے۔۔۔حالانکہ میں نے محض ایک اپنے تئیں شگفتہ اور ہلکے پھلکے انداز میں شیروں اور گدھوں کا موازنہ کیا تھا۔۔۔ویسے میں تحریک انصاف والوں کو خبردار کرتا ہوں کہ میں ’’شیر کے شکاری‘‘ کے بارے میں بھی اسی نوعیت کا کالم لکھ سکتا ہوں۔۔۔ مجھے سیاست کی آلودگی میں ملوث نہ کیجئے۔۔۔چنانچہ آج مجھے خیال آیا کہ اگر میں بیشتر جانوروں کے بارے میں کالم لکھ چکا ہوں تو آخر سوروں نے کیا قصور کیا ہے۔۔۔چلئے ’’سور ہمارے بھائی ہیں‘‘لکھنے میں کچھ خدشات اور قباحتیں ہیں لیکن آخر کار وہ اللہ کی مخلوق ہیں۔ بے شک اُن کا گوشت حرام ہے لیکن اُن کا تذکرہ تو حرام نہیں ہے تو میرا یہ کالم سوروں کے بارے میں ہے اور اگر کسی کی دل شکنی ہوتی ہے تو پیشگی معذرت۔۔۔

جیسے اکثر ناولوں کے آغاز میں لکھا ہوتا ہے کہ اس ناول کے تمام کردار فرضی ہیں، کسی بھی نوعیت کی مماثلت محض ایک اتفاق ہوگا تو۔۔۔کسی کو بُرا ماننے کی ضرورت نہیں، محض اتفاق ہو گا، ہم آپ کو بھائی کہنے سے گریز کرتے ہیں۔ ایک صاحب اجمیر شریف سلام کرنے کے لئے گئے۔۔۔وہاں بہت دن پڑے رہے۔۔۔ اُن کے مشاہدے میں آیا کہ جب ایک جہازی سائز کی دیگ میں لنگر تیار ہوتا ہے، بانٹا جاتا ہے تو درگاہ کے فرش پر چھینا جھپٹی کے دوران چاول، دالیں اور گوشت وغیرہ گر جاتے ہیں۔ شام کے وقت اس خوراک کو فرش سے کھرچ کر ریڑھیوں میں ڈال کر کہیں لے جایا جاتا ہے۔۔۔ تو وہ صاحب تجسس میں آگئے کہ آخر یہ خوراک کہاں پھینکی جاتی ہے۔۔۔ وہ ان ریڑھیوں کے پیچھے گئے، شہر کے باہر جوہڑوں کے کناروں پر جو سینکڑوں سور رہتے تھے خواجہ کی دیگ کی یہ خوراک اُنہیں ڈال دی گئی۔۔۔ان صاحب کو بہت صدمہ ہوا کہ چشتی کے لنگر کو سوروں کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے، اُنہوں نے درگاہ کے ایک متولی سے شکایت کی تو اُس نے کہا ۔۔۔یہ جانور بھی تو اللہ کی مخلوق ہیں، اُن کا رزق بھی تو وہی مہیا کرتا ہے تو ہم محض ایک وسیلہ ہیں۔ سور کا گوشت یہودیوں کے لئے حرام ٹھہرا، قرآن نے اسے ہمارے لئے حرام قرار دیا۔۔۔اور ہم لوگ چین جا کر شاید سانپ اور گدھے کھا جائیں پر یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ ہم خنزیر کے گوشت کو ہاتھ بھی لگائیں۔

سور سے اجتناب ہماری خصلت میں شامل ہے یہاں تک کہ انگلستان میں ایک نہایت پرہیز گار پاکستانی چاچا جی نے مجھے خفیہ طور پر بتایا تھا کہ بال بچوں سے دور کبھی کبھار وہ کسی گوری کے ساتھ من وتُو کے معاملات مجبوراً کر لیتے ہیں لیکن اُن کے ہونٹوں سے اجتناب کرتے ہیں کہ وہ سور کھاتی ہیں۔۔۔ اسلام آباد میں سور بہت ہوتے ہیں، ملک بھر میں اتنے سور نہیں ہوتے جتنے اسلام آباد میں ہیں، اور پلیز اس بیان کی کوئی اور سیاسی تو جیہہ نہ نکال لیجئے گا یہ ایک حقیقت ہے۔۔۔ ’’صبح کی نشریات‘‘کی میزبانی کے برسوں میں جب میں ہر سویر ٹیلی ویژن سٹیشن کی جانب پیدل چلتا جاتا تھا تو اکثر منہ اندھیرے کسی نہ کسی نیم سیاہ جھنڈ میں سے سور ظاہر ہو جاتے تھے، اور میں دَم روک کر اُنہیں گزر جانے دیتا تھا کہ اسی میں عافیت ہوتی ہے کہ سوروں کے منہ کون لگے، بلکہ اُن کی تھوتھنیوں کے منہ کون لگے۔۔۔آہستہ آہستہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میں بیشتر سوروں کو پہچاننے لگا کہ تقریباً سوروں کے وہی خاندان بار بار میرے راستے میں آتے تھے۔ یعنی نئے سور میری قسمت میں نہ تھے، بس وہی آتے تھے، جاتے تھے اور پھر آجاتے تھے۔ انہی دنوں اور آپ اخبارات چیک کر سکتے ہیں ، کسی سویر بہت سے سور اسلام آباد میں وارد ہو گئے۔ اُن میں سے بیشتر کو بھگا دیا گیا لیکن۔۔۔یہ باقاعدہ رپورٹ ہوا تھا کہ کچھ سور ٹیلی ویژن ہیڈکوارٹر اور پریذیڈنٹ ہاؤس میں داخل ہو کر غائب ہو گئے۔ نہیں ملے۔۔۔

خدا کے لئے اور میں قسم اٹھاتا ہوں کہ یہی رپورٹ ہوا تھا، آپ چیک کر سکتے ہیں۔۔۔ اگر میں نے مبالغہ کیا ہو تو جو پانامہ لیک کی سزا وہ میری! میں نے اپنے سندھ کے سفرنامے ’’اور سندھ بہتا رہا‘‘ میں لکھا ہے کہ ادھر ہمارے تھرپارکر میں مور بہت تھے، ننگر پارکر اور کاسبو میں بہت تھے اور ہم نے اُن کا خوب شکار کیا، اُنہیں کھا گئے اور وہ جان بچانے کے لئے سرحد پار کرکے ہندوستان چلے گئے اُدھر سور بہت تھے اور وہ لوگ اُن کے پیچھے پڑ گئے، اُنہیں کھا گئے، چنانچہ سور اپنی جان بچانے کی خاطر سرحد عبور کر کے پاکستان آ گئے۔۔۔ چنانچہ ہم ایسے سوداگر ہیں کہ موروں کے بدلے میں سور حاصل کرلیتے ہیں جو تھرپارکر سے نکل کر پورے پاکستان میں پھیل جاتے ہیں۔ پلیز اسے کوئی ذاتی مسئلہ نہ بنائیے گا۔۔۔مماثلت محض ایک اتفاق ہو گا۔۔۔ اور کیا حسین اتفاق ہوگا۔۔۔ اگرچہ یہ سور ہمارے بھائی ہرگز نہیں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مستنصر حسین تارڑ

بشکریہ: روزنامہ 92 نیوز

mustansar-hussain-tarar has 181 posts and counting.See all posts by mustansar-hussain-tarar