امریکی انہیں انتہا پسند کیوں نہیں کہتے؟


وہ دنیا کے بہت سے دوسرے بچوں کی طرح گڑیوں سے کھیلتے ہیں لیکن ان کی اور باقی دنیا کی گڑیاؤں میں تھوڑا سا فرق ہوتا ہے۔ ان کی گڑیا کسی چہرے والی نہیں ہوتی۔ وہ اس کی وجہ اپنا مذہب بتاتے ہیں۔ ان کے خیال میں خدا کی ساری مخلوق برابر ہے اور بناؤ سنگھار ایک انسان کو دوسرے انسان سے ظاہری طور پہ برتر کر دیتا ہے۔ تو وہ اس ٹرینڈ کو روکنے کے لیے کھلونوں کو بھی کوئی چہرہ دینا پسند نہیں کرتے۔

جب کوئی بندہ ان کی روایات سے باغی ہونے کے چکر میں ہوتا ہے تو وہ سب اس سے بات کرنا بند کر دیتے ہیں۔ اسے بالکل الگ تھلگ چھوڑ دیا جاتا ہے۔ وہ اس لیے یہ سب کرتے ہیں کہ ان کا پیارا اپنی اوقات پر آ جائے اور روایتی رسموں رواجوں کو دوبارہ ماننا اور ان کے آگے سر جھکانا شروع کر دے۔ عموماً یہ کارروائی کسی بھی چیز سے روکنے کے لیے باغی افراد کے خلاف آخری حربے کے طور پر آزمائی جاتی ہے۔

جہاں عام آدمی اس کوشش میں ہوتا ہے کہ دو یا تین بچوں سے زیادہ اس کا خاندان بڑھ نہ پائے، وہ لوگ کم از کم چھ یا سات بچوں کا ہونا ضروری سمجھتے ہیں۔ بعض اوقات ایک فیملی میں نو دس بچے ہونا بھی ایک عام سی بات سمجھی جاتی ہے۔ یہ ان کے لیے ڈبل فائدے کا معاملہ ہے۔ ایک طرف تو وہ اپنے قبیلے کی آبادی میں اضافہ کرتے ہیں‘ دوسری طرف انہیں زمینیں سنبھالنے کی لیے افرادی قوت بھی زیادہ مل جاتی ہے۔ جس کے دو تین بچے ہوں اس خاندان کو قابلِ رحم سمجھا جاتا ہے اور ان میاں بیوی کو معاشرے میں باعزت مقام مشکل سے ہی نصیب ہوتا ہے۔

انہیں کسی بھی قسم کا ساز بجانے کی اجازت نہیں ہے۔ اصل میں وہ سرے سے آرٹ شارٹ کا چکر ہی نہیں پالتے۔ کسی بھی فن کے ذریعے اپنی ذات کا اظہار ان کے یہاں ممنوع ہے۔ تصویریں بنانا، مجسمہ سازی، گانا بجانا، کچھ بھی ایسا جو تخلیقی ہو سکتا ہے وہ ان کے عقیدے میں فٹ نہیں ہوتا۔

ان کا بچہ آٹھویں کلاس سے اوپر نہیں پڑھ سکتا۔ وہ اپنے بچوں کو ہائی سکول یا کالج وغیرہ کے تکلف میں ڈالنا بالکل پسند نہیں کرتے۔ وہ جہاں رہتے ہیں وہاں مڈل سے اوپر کوئی تعلیمی ادارہ ہوتا ہی نہیں ہے، کالج کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جب ان کا بچہ چودہ برس کا ہو جائے تو ان کے خیال میں اسے کاروبار میں کھپانے کی یہ بہترین عمر ہوتی ہے اور اس کے لیے بہت زیادہ پڑھنا انہیں نقصان دہ لگتا ہے۔

شراب پینا یا جدید ٹیکنالوجی کا استعمال اس قبیلے میں ایک برابر کے گناہ ہیں۔ نہ صرف ٹیکنالوجی بلکہ وہ لوگ سائنس کے بھی پرلے درجے کے دشمن ہیں۔ انہیں جدید طبی سہولیات پر قائل کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ یہ سب چیزیں یکساں منحوس تصور کی جاتی ہیں اور اگر ان میں سے کوئی بھی شخص ایسی کوئی حرکت کرے اور وہ لوگ جان جائیں تو اسے سزا کے طور پر اپنے دائرے سے خارج کر دیا جاتا ہے۔ جب تک سب قبیلے والے اس بات پر متفق نہ ہوں کہ بندہ واپس لینا ہے، تب تک وہ آدمی دوبارہ اپنے علاقے کا رخ نہیں کر سکتا۔

وہ لوگ زندگی کا بیمہ کروانے پر بھی یقین نہیں رکھتے۔ نہ ہی کسی قسم کی ہیلتھ انشورنس کرواتے ہیں۔ چونکہ وہ قبیلے کی شکل میں رہتے ہیں اس لیے اگر کوئی کبھی بیمار پڑ جائے تو اس کا علاج معالجہ سب کی امداد سے ہوتا ہے۔

ان کی خواتین پر سخت پابندی ہوتی ہے کہ وہ لمبی آستینوں والی قمیص پہنیں، جو بھی لباس ہو وہ ٹانگوں کو مکمل ڈھانپے۔ انہیں کسی قسم کے زیورات پہننے کی اجازت نہیں ہوتی۔ میک اپ کرنا ان کے یہاں بہت برا سمجھا جاتا ہے۔ وہ اپنی تصویریں بھی نہیں کھنچواتیں، بلکہ مرد لوگ بھی فوٹو کھچوانا پسند نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک تصویر مجسم نحوست ہوتی ہے۔ اگر بہت زیادہ کوئی بندہ مچل بھی جائے تو وہ اپنے چہرے کی تصویر نہیں بنواتا۔ کیمرے کی طرف پشت کر کے کھڑے ہو جائیں گے یا بہت دور سے تصویر بنوا لیں گے۔

باہر کی دنیا سے کوئی بندہ بھی اس قبیلے میں شامل ہو سکتا ہے لیکن نئے آنے والوں کے لیے ان کے اصول بڑے سخت ہیں۔ انہیں جدید دنیا کو طلاق دینی پڑتی ہے اور ان لوگوں کی زبان سیکھنی پڑتی ہے۔ وہ لوگ اس چیز کو پسند کرتے ہیں کہ نیا آنے والا شخص ان کے معاشرے میں گھل مل جائے اور جو کام وہ لوگ کرتے ہیں وہی سب کرنے میں ان کی مدد کرے۔ پھر بھی قبیلے کے لیڈروں کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ نیا بندہ اگر انہیں ٹھیک نہیں لگ رہا تو وہ اسے اپنے دائرے سے خارج کر سکتے ہیں۔

نہیں استاد، یہ اپنی پارٹی نہیں ہے۔ یہ لوگ سولہویں صدی میں سوئٹزرلینڈ کے آس پاس سے اکٹھے ہوئے تھے۔ اسی زمانے میں یہ فرقہ وجود میں آیا۔ یہ مسیحیوں کی ہی ایک شاخ ہیں اور آمش کہلاتے ہیں۔ گزشتہ ایک ڈیڑھ صدی میں یہ سب کے سب امریکہ میں آباد ہو گئے۔ میں نے آمش پن سمجھنے کی بہت کوشش کی۔ یہ بات پلے نہیں پڑتی تھی کہ قرون وسطیٰ کے لوگوں جیسے عقائد رکھنے کے باوجود یہ لوگ آج تک بنیاد پرست کیوں نہیں ٹھہرائے گئے؟ کبھی ان کے خلاف کوئی جلوس کیوں نہیں نکلا؟ امریکہ کیوں انہیں ہنس کھیل کے برداشت کرتا ہے؟ بلکہ یہاں تک کہ یہ امریکی بچوں کی لازمی تعلیم کے قانون، ہیلتھ انشورنس کے قانون، فیملی پلاننگ کے لوازمات، میٹرنٹی حقوق اور کئی دوسری چیزوں سے بھی بری الذمہ ہیں۔ ایک نارمل امریکی پہ جتنی پابندیاں ہیں ان کا قبیلہ ان سے تقریباً آزاد ہے، پوری دنیا سے الگ تھلگ گھوڑوں پہ سواری کرتا ہے اور دے بچے پہ بچے پیدا کرتا جاتا ہے۔

اس کی دو وجوہات نظر آتی ہیں۔ ایک تو ان کے یہاں بچہ جب سولہ برس کا ہو جائے تو اسے پوری آزادی ہوتی ہے کہ جو مرضی چاہے کرے۔ اس مذہبی روایت کو ”رمسپرنگا‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ چھوٹ ایک قسم کا وقفہ ہوتی ہے کہ بچہ باہر دنیا میں جائے اور جو دل چاہے وہ کام کر لے۔ بے شک جوا کھیلے، شراب پیے، نشے کرے، ڈانس کرے جو مرضی منہ کالا کرے، پھر اگر سوٹ کرتا ہے تو اس کی مرضی، واپس نہ آئے، واپس آئے گا تو ہمیشہ کے لیے دوبارہ ان کے جیسا بن کے رہے گا۔ تو جو واپس آتا ہے وہ پھر اپنی مرضی سے آتا ہے۔ اچھا اگر واپس آنے کے بعد بھی وہ باقی تمام عمر میں کبھی بھاگنا چاہتا ہے تو کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے۔ بس اسی سوشل بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑے گا جو پہلے بتایا تھا اور چپ کرکے پتلی گلی سے نکل لے گا۔

دوسرا یہ کہ وہ لوگ گالم گلوچ کرنے یا جھگڑا کرنے کو انتہائی برا سمجھتے ہیں۔ اتنا برا کہ ایسا آدمی ان کے معیار کے مطابق ایک شرابی جواری کے ہم پلہ سمجھا جاتا ہے۔ ان میں سے کچھ بندوقیں بھی رکھتے ہیں لیکن جھگڑا کرنے والے اور ایک دوسرے پہ بندوق تان لینے والے شاید لاکھوں میں ایک دو ہوتے ہوں۔ یہ اتنے ٹھنڈ پروگرام لوگ ہوتے ہیں کہ انہیں فوجی بھرتی کے قابل بھی نہیں سمجھا جاتا۔ انہیں وہ لازمی فوجی ٹریننگ بھی نہیں کرنی پڑتی جو ہمارے یہاں این سی سی کہلاتی تھی اور دوسرے ملکوں میں بھی اسی طرح فرض ہے۔ اصل میں ان کا عقیدہ ہی یہ ہے کہ لڑائی جھگڑا کسی مسئلے کا حل نہیں ہے، جو ہو گا بات چیت سے کام ہو گا۔

یہ جو کچھ کرتے ہیں اپنے قبیلے کی حدود میں کرتے ہیں۔ یہ کسی کو اپنی طرف آنے کی دعوت نہیں دیتے نہ کسی دوسرے کے عقیدوں میں ٹانگ اڑاتے ہیں۔ کسی خطہ ارضی پہ ان کا کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ کسی ملک سے انہوں نے بدلہ نہیں لینا۔ تو میں بس اتنا سمجھ پایا کہ اگر آج یہ لوگ اپنے قبیلے سے نکلیں اور پوری دنیا میں اپنے جھنڈے گاڑنے کے مشن پہ لگ جائیں تو شاید بہت جلدی یہ بھی فنڈامینٹلسٹ کہلانے لگیں گے۔ ان کے رسم و رواج، طور طریقے تو ویسے ہی سائنس دشمن ہیں، ان کے راہنما منہ کھولیں گے تو دنیا ہنسے گی۔ شاید یہ لوگ اندر سے اس راز کو جانتے ہیں کہ اگر اپنے طریقے سے رہنا ہے تو کسی دوسرے کے معاملے میں ٹانگ نہیں اڑانی، نہ ہی کسی بھی ایسے چکر میں آنا ہے جو انہیں پوری دنیا سے جوڑ دے۔ تو بس کھیتی باڑی کرتے، بجلی اور فون کے بغیر رہتے، انٹرنیٹ کے استعمال سے ناواقف اے آمش لوگو، جب تک تم اپنے آپ میں گم ہو، سکون میں ہو، جس دن تم نے دنیا کی فلاح کا بیڑا اٹھا لیا اس دن تمہارا اپنا بیڑہ غرق ہو جائے گا۔ اے آمش لوگو، خوش رہو، اپنے دریا میں رہو اور موج کرو۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain