شریف خاندان کے بعد حکمران کون ہو سکتا ہے


پاکستان کے اخبارات اور ٹی وی سکرینوں پر سرسری نگاہ ڈالیں تو 1980کی دہائی سے ہمارے سیاسی منظر نامے پر چھایا شریف خاندان بہت مشکل میں نظر آتا ہے۔ کئی جید مبصرین کا بلکہ اصرار ہے کہ وہ عروج کی انتہاﺅں تک پہنچنے کے بعد وقت کی ڈھلوان پر تیزی سے لڑھکتے ہوئے ذلت وگمنامی کی کھائیوں میں دفن ہونے جارہا ہے۔ تاریخ کے حوالے دے کر بات یہ بھی سمجھائی جارہی ہے کہ ”اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں“ اور ”ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں“۔ وغیرہ غیرہ۔

اقتدار کے کھیل میں حکمران خاندانوں کے عروج وزوال ہی نے ہماری تاریخ بنائی ہے۔ غزنوی حکمرانوں سے اقتدار غوریوں نے چھینا۔ چلتے چلتے بات ان ہی حکمرانوں کے چہیتے دلاوروں مگر غلاموں تک پہنچی۔ پھر لودھی آگئے اور بالآخر مغلیہ سلطنت جس کے بعد ریل کی سیٹی بجی اور دل لہو سے بھرگیا۔سات سمندر پار سے آئے انگریز پورے برصغیر پر قابض ہوگئے۔

ان کے ہاں بھی بادشاہ اور ملکہ وغیرہ ہوا کرتے تھے لیکن ہمارے ہاں انہوں نے منتخب نمائندگی کا تصور متعارف کروایا۔اس نمائندگی کا بنیادی مقصد خلق خدا کے نمائندوں کو اقتدار کی منتقلی ہرگز نہیں تھا۔ ”تعمیر وترقی“ کے کاموں میں ان کے منتخب کردہ لوگوں سے محض مشورہ لینا مقصود تھا۔ حتمی فیصلہ سازی فقط وائسرائے کو جوابدہ عسکری اور سول افسر شاہی پر مشتمل اداروں ہی کے پاس رہی۔

1947کے بعد وائسرائے نہیں رہا۔ مملکتِ خداداد کے ریاستی ا دارے مگر اپنی جگہ موجود رہے۔ نواز شریف کے چاہنے والوں کا تو بلکہ اصرار ہے کہ موصوف کی موجودہ پریشانیوں کا اصل سبب ان ا داروں کو ناراض کرنا ہے۔ کونے میں بیٹھ کر دہی کھاتے رہتے تو شاید اس انجام کو نہ پہنچتے۔

یکم اپریل کی صبح اُٹھ کر یہ کالم لکھتے ہوئے لیکن میں ان کی رائے پر سوال اٹھانا نہیں چاہتا۔ میری کھڑکی کے سامنے لگے شہتوت ۔،لوکاٹ اور کچنار کے درختوں میں پرندے چہچہارہے ہیں۔ ویسے بھی آج Fools’ Dayہے۔فلسفہ بگھارنے سے لہذااجتناب برتنا چاہیے۔ ذرا مسکرالینے میں کوئی حرج نہیں۔

اپریل فول کی مناسبت سے مسکرانے کو جی چاہا تو ”ایک زرداری….“ یاد آگئے۔ سنا ہے کہ ہماری ریاست کے دائمی اداروں میں بیٹھے نواز شریف کے چند کٹرمخالفین کو یہ فکر لاحق تھی کہ سینٹ میں موصوف سے وابستہ جماعت نے اکثریت حاصل کرلی تو قیامت آجائے گی۔ ”اپنا“ سینٹ چیئرمین منتخب کروانے کے فوری بعد یہ جماعت آئین میں ایسی ترامیم لانے کی بھرپور کوشش کرے گی جو نہ صرف سپریم کورٹ کے ہاتھوں ”نااہل“ ہوئے نواز شریف کو ان کے نام سے وابستہ جماعت کی بااختیار سربراہی کا حق لوٹادیں گی بلکہ کچھ ایسا بندوبست بھی فراہم کردیں گی جو ان کی مشکلات کا باعث ہوئے اداروں کے ہاتھ باندھ دیں۔ متوقع ترامیم کو روکنے کا مو¿ثر منصوبہ مگر ”ایک زرداری….“ ہی دریافت کرپایا۔

نہایت خاموشی سے بلوچستان میں گیم لگی۔ سردار ثناءاللہ خان زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تو موصوف نے گھبراکر استعفیٰ دے دیا۔ ان کے بعد عبدالقدوس بزنجو بلوچستان کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوگئے۔ ان کے انتخاب نے بلوچستان سے ”آزاد“ سینیٹروں کا ایک طاقت ور گروپ ابھارنے میں آسانیاں پیدا کیں۔ یہ گروپ اسلام آباد آیا تو اپنے صوبے کے احساسِ محرومی کے تدارک کے لئے عمران خان جیسے ضدی اور بااصول سیاست دان کو ”سب سے بڑی بیماری“ کے ساتھ تعاون کرنے پر قائل کردیا۔

ان دونوں کی قوت یکجا ہوئی تو صادق سنجرانی سینٹ کے چیئرمین منتخب ہوگئے۔ انہیں منتخب کرنے کی خاطر تحریک انصاف جیسی صاف شفاف جماعت پیپلز پارٹی کے سلیم مانڈوی والا کو سینٹ کا ڈپٹی چیئرمین منتخب کروانے پر مجبور ہوئی۔ سنجرانی کا انتخاب ہوا تو سینٹ کا ہال ”ایک زرداری سب پہ بھاری“ کے نعروں سے گونج اٹھا۔ طے ہوگیا کہ آئندہ انتخابات کے بعد اس ملک کا وزیر اعظم بھی وہ شخص ہوگا جو ”ایک زرداری….“ کے من کو بھائے گا۔

عمران خان کو یہ دعویٰ پسند نہ آیا۔ دودنوں کے لئے کراچی چلے گئے۔ اس شہر میں اپنا لشکر تیار کرتے ہوئے ڈاکٹر عامر لیاقت صاحب کی ذہانت وفطانت سے رجوع کرنے پر مجبور ہوئے۔ میڈیا میں اپنی جماعت کی ترجمانی کا ایک مو¿ثر ذریعہ دریافت کرلیا۔ تحریک انصاف میں ڈاکٹر عامرلیاقت صاحب کی شمولیت کے بعد سے ”کراچی عمران کا “ ہوگیا تو تحریک انصاف کے قائد بلوچستان روانہ ہوگئے۔ ان کی وہاں آمد سے قبل مگر ان کے اور ”ایک زرداری….“ کے ساتھ پنجابی والا ”ہتھ“ہوگیا۔

بلوچستان سے قدوس بزنجو جیسے بظاہر صاف ستھرے اور وطنِ عزیز سے شدید محبت میں مبتلا نئے چہروں نے پیپلز پارٹی یا تحریک انصاف میں شمولیت کے بجائے ایک نئی جماعت بنالی ہے۔بلوچستان عوامی پارٹی اس کا نام ہے۔ اس جماعت کے آئندہ انتخابات کے ذریعے بلوچستان کی اکثریتی جماعت بن کر ابھرنے کے امکانات بہت روشن دکھائے جارہے ہیں۔

اس جماعت کے رہ نماﺅں کو قوی یقین ہے کہ ان کے صوبے سے منتخب ہوا ان ہی کی جماعت کا کوئی نمائندہ قومی اسمبلی میں پہنچ کر وزیر اعظم ہاﺅس پہنچ جانے کے راستے بھی بنالے گا۔ غالباََ جان جمالی اس شخص کا نام ہے۔ ظفر اللہ جمالی تیار ہوگئے تو جان جمالی ان کے خاندان کی انتخابات میں سہولت کے لئے خاص طورپر ہوئی حلقہ بندی کی بدولت بآسانی قومی اسمبلی کے لئے منتخب ہوجائیں گے۔ وہ قومی اسمبلی پہنچ گئے تو گرمئی بازار دیکھنا۔ صادق سنجرانی بھی سینٹ کا چیئرمین منتخب ہونے تک گمنام ہی تو تھے۔

آئندہ انتخابات کے بعد جان جمالی کا وزیراعظم کے لئے ایک اور ”سنجرانی“ ثابت ہونا بعید از امکان نہیں۔ اپریل فول کی صبح یہ کالم لکھتے ہوئے اگرچہ میرے ذہن میں سوال یہ بھی مچل رہا ہے کہ نواز شریف کے زوال کے بعد وزارتِ عظمیٰ کو جان جمالی جیسے ”سنجرانیوں“ کے پاس ہی جانا ہے تو میرا پیارا کپتان اکتوبر 2011سے اپنی جان کیوں ہلکان کئے جارہا تھا۔ یہ تو دُکھ جھیلیں بی فاختہ اور کوےّ انڈے کھائیں والا معاملہ ہوجائے گا۔”بی فاختہ“ ہی نے مجھے محترمہ فوزیہ قصوری کی یاد بھی دلادی۔

2013کے انتخاب کو چند ہی روز رہ گئے تھے۔ میرے ایک بہت ہی پیار ے سینئر افضل خان صاحب اپنے جاہ وجلال کے ساتھ زندہ تھے۔ ان کے حوالے نے کھانے کی ایک دعوت میں جانے پر مجبور کیا۔ اس دعوت میں میرے پیارے ساتھی ہارون رشید صاحب بھی موجود تھے۔ انتخابات کے ممکنہ نتائج کے بارے میں زور دار بحث ہورہی تھی اور ایک موقع پر پورے ڈرامائی انداز میں محترمہ فوزیہ قصوری صاحبہ نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا:”نصرت بھائی اس ملک میں عمران خان کے علاوہ (صاف ستھرا سیاستدان) اور رہ کون گیا ہے؟“ اس سوال کے بعد مزید گفتگو کی گنجائش باقی نہیں رہی تھی۔

ان ہی محترمہ فوزیہ قصوری صاحبہ نے اب دواقساط پر مشتمل ایک طویل انٹرویو ایک نوجوان وہونہار صحافی منصور علی خان کو دیا ہے۔ 2013کو ایک شام مجھ سے کئے سوال کا خود ہی اس انٹرویو کے ذریعے جواب دے دیا۔

اپریل فول کی صبح ذہن میں لبوں پر مسکراہٹ بکھیرتی یادیں امڈنا شروع ہوگئی ہیں۔ نواز شریف کا انجام تو عیاں ہوا نظر آتا ہے مگر اس سوال کے ساتھ کہ ان کا زوال ”ایک زرداری….“ اور عمران خان صاحب کو واضح طورپر عروج کی جانب کیوں نہیں دھکیل رہا۔ مجھے کئی اور ”سنجرانی“ ڈھونڈنے کی ضرورت کیوں محسوس ہورہی ہے۔ کالم ختم کرتے ہوئے یہ سوال اٹھانے میں بھی کوئی حرج نہیں کہ اگر چکوال کے سردار عباس کو PTIمیں شمولیت پر مجبور کردیا گیا تو ہمارے بہت ہی دبنگ ایاز امیر کا کیا ہوگا۔

بشکریہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).