کیا ملالہ بھی مذاق کر رہی ہیں


عوام کی خوشحالی کے لئے اپنی زندگی سیاست کو وقف کردینے والوں کا بیان کہ فلاں ”عوام کو بیوقوف بنا رہا ہے“ متواتر سننے/پڑھنے کو مل ہی جایا کرتا ہے۔ کاش ایسا بھی کوئی سروے ہو سکے جس کی بدولت سراغ لگ جائے کہ اب تک عوام کو کتنا فیصد کب، کیسے اور کس نے بیوقوف بنایا ہے۔ ایسے کسی سروے کی قلت میں بس، باقی دعووں اور باتوں کی طرح سبھی سیاستدان اپنی اپنی جانب سے مخالفین پر تنقیدی بھالے اچھالتے ہوئے ایسا محض عندیہ دیتے ہیں۔ ہمارے شہر کے ایک مجذوب، لوگوں کی فریادیں خاموشی سے سنتے رہتے تھے لیکن کبھی کبھار چلا کر بس اتنا کہہ دیتے تھے کہ ”اللہ ہی جانے کون بشر ہے“۔ مجذوب کے نعرہ مستانہ میں ترمیم کرنے کی گستاخی پر معافی کا خواستگار ہوتے ہوئے عرض یہ کرنی ہے کہ عوام کو مطلع کرنے والا نجانے کون سا رہنما سچا ہے! ایسی صورتحال میں یکم اپریل کے دن، خاص طور پر، ہر کوئی اپنی سی ایک کوشش کرتا ہے کہ بیوقوف بن جانے سے بچ جائے۔

لیکن سیاست ہمیشہ سے ملک میں زوروں پر رہتی آئی ہے۔ اخبارات ہوں یا ٹی وی چینل، اشتہارات سے لبریز ہوتے ہیں یا سیاسی بیانوں کے سیلاب کی زد میں رہتے ہیں۔ جنہیں اشتہارات کے توسط سے بکتی اشیاء خریدنی ہوتی ہیں یا بیانوں کے عین مطابق بیوقوف بننے سے خود کو بچانا بھی ہوتا ہے ان کے ساتھ جڑی باتوں کو اندرونی صفحات میں جگہ ملتی ہے یا نیوز بلیٹن کے اختتامی وقت میں ”ایک منٹ۔ 10 خبریں“ میں نشر کیا جاتا ہے۔ عوام کے مسائل کا مور بڑے سے جنگل میں بہت چھپا چھپا کر نچایا جاتا ہے۔

سیاست کی وسعت اور اہمیت کے سامنے ”تحقیقی صحافت“ شکست تسلیم کرچکی ہے، جتنی سی بھی تحقیق بچ گئی ہے وہ بھی ”آف شور کمپنیوں“ اور ”خفیہ شادیاں“ ڈھونڈنے پر اکتفاکیے ہوئے ہے۔ عوام کو بیوقوف بنائے جانے والی وردات کا سراغ تحقیقی صحافت کے ”جیمز بانڈ“ بھی نہیں لگاتے۔

عوامی رہنما مگر اب بہت شد و مد کے ساتھ ”نظریاتی“ ہونے نہ ہونے کا تذکرہ کرتے ہوئے عوام کو مایوسی کی گہری کھائی میں گرنے سے بچانے کے لئے مشورہ یہ بھی دینے لگے ہیں کہ عوام کے مسائل کا گھںا جنگل پولنگ کے دن ووٹ کی بدولت ایک ٹھپے سے کٹ جائے گا۔ بہرحال یکم اپریل کو بیوقوف بننے سے بہرصورت ہر حال میں بچنا ہی بچنا ہوگا۔ لیکن یکم اپریل کے اخبارات کے پلندے میں کئی ایک بیانات ہیں جنہیں پڑھتے ہوئے دماغ میں احتیاطی تدابیر کی گھنٹی بجنا شروع ہوجاتی ہے۔

اردو اخبارات کے اپنے تقاضے ہیں اور سندھی زبان میں شایع ہونے والے اخبارات کی ترجیحات ذرا مختلف۔ سندھ کے ”علاقائی“ اخبارات پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو نمایاں جگہ دینے پر مجبور ہو ہی جاتے ہیں۔ ایک سندھی روزنامے نے ضلع سانگھڑ میں عوامی اجتماع سے بلاول بھٹو کا جو خطاب شایع کیا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ ”سندھ کے لوگ غربت کی وجہ سے خودکشیاں کر رہے ہیں ایسی خبریں سن کر مجھے نیند نہیں آتی“۔

ایک دوسری خبر یہ باور کرا رہی تھی کہ ”انہیں خوشامد پسند نہیں“۔ حالانکہ ہر روز اخبارات اور چینل ان کے فیصلوں کی بجائے بیانات سے لبریز ہوتے ہیں۔
ایک بیان پاک پتن سے بھی تھا کہ ”جس طرح انہوں نے شادی کی ہمارے شہر کے عوام کو وہ فیصلہ مناسب نہیں لگا اس وجہ سے پارٹی چھوڑ دی“۔

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ڈیرہ غازی خان سے گویا ہوئے ہیں کہ ”فاروق خان لغاری جب صدر تھے تب ہم ایک دوسرے کے مخالفین تھے لیکن وہ اصول پسند سیاستدان تھے“۔ اچھا ہے کہ بہت ہی پرانے بیانات کسی کو یاد نہیں رہتے۔

جس وقت، میں وزیراعظم کا بیان پڑھ رہا تھا بجلی بند تھی اور کمرے کے حبس کی وجہ سے پسینہ میرے چہرے پر اپنی راہیں بنا رہا تھا لیکن وزیراعظم دعویٰ کر رہے تھے کہ ”میری پارٹی کی حکومت ہی ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتی ہے اور ہم نے لوڈشیڈنگ ختم کردی ہے“۔

اخبارات میں چھپے ایسے بیان، میں روزانہ پڑھتا رہتا ہوں۔ یکم اپریل کو بھی پڑھ لئے حالانکہ سوشل میڈیا کی وساطت سے کئی ایک پیغامات بھی موصول ہوئے تھے کہ آج آپ کو بیوقوف بنایا جا سکتا ہے اس لئے مشتری ہوشیار باش۔ اب اس اطلاع کی وجہ سے ہی ملالہ یوسفزئی کا بیان بھی ذہن میں اٹک سا گیا ہے۔ اتنے مشہور ہوئے لوگ تو سیاست میں آنے سے ذرا دیر نہیں کرتے اور انہیں تھوڑا سا بی ادھر سے ادھر ہونا پڑے تو ”مجھے کیوں نکالا“ والی دہائی دینے لگ جاتے ہیں، تو ملالہ نے کیونکر یہ کہہ دیا کہ ”میں وزیراعظم بننا نہیں چاہتی“۔ کیا ملالہ بھی مذاق کر رہی تھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).