انقلاب کے راستے پر۔۔۔


وہ انقلابی رہنما کی تقریر سے بھی متآثر ہوا تو اس کے قول و فعل سے بھی۔ اسے وہ انقلابی رہنما ہر لحاظ سے مخلص نظر آیا۔ اسے اس انقلابی رہنما کی تقاریر اور تحریروں کی وجہ سے پختہ یقین ہوگیا کہ اب انقلاب کو کوئی بھی روک نہیں سکے گا۔ تب اس نے بہت سوچ سمجھ کر اس انقلابی رہنما کے پیچھے چلنے کا فیصلہ کیا۔

انقلابی جدوجہد کے لیے فنڈ کی ضرورت پڑی تو اس نے اپنی تمام جمع پونجی، چار ایکڑ زمین فروخت کرکے حاصل شدہ رقم انقلاب فنڈ میں جمع کرادی۔

وہ انقلابی رہنما کے پیچھے چلتا رہا۔

مسلسل چلتا رہا۔

چلتا رہا…

وہ چل چل کر تھک گیا تو اس نے انقلابی رہنما کے پیچھے چلتے چلتے کہا، ’’ مَیں تھک چکا ہوں۔‘‘

انقلابی رہنما نے پیچھے مڑ کر دیکھے بغیر آگے بڑھتے ہوئے کہا، ’’ انقلابی کبھی نہیں تھکتے۔‘‘

انقلابی رہنما کے جذبے نے اسے نئی طاقت عطا کر دی، اس کا حوصلہ بڑھایا۔

وہ انقلابی رہنما کے پیچھے چلتا رہا۔

مسلسل چلتا رہا۔

چلتا رہا…

نہ ختم ہونے والی مسافت…

مسلسل گزرتا ہوا وقت…

اس نے اپنے جسم کو کمزور ہوتا محسوس کیا۔

اس نے انقلابی رہنما کے پیچھے چلتے ہوئے بڑی مشکل سے کہا، ’’ اب تو مَیں بہت تھک چکا ہوں۔‘‘

انقلابی رہنما نے گردن موڑ کر پیچھے دیکھے بغیر مسلسل آگے بڑھتے ہوئے کہا، ’’ انقلاب جہدِ مسلسل کا نام ہے۔‘‘

وہ انقلابی رہنما کے مسلسل جدوجہد کے فلسفے کے مطابق اس کے پیچھے چلتا رہا۔

مسلسل چلتا رہا۔

چلتا رہا…

نہ ختم ہونے والی مسافت ۔۔۔

مسلسل گزرتا وقت ۔۔۔

وہ برسوں تک انقلابی رہنما کے پیچھے چلتا رہا۔ اس نے اپنے آگے چلتے ہوئے رہنما سے پوچھا، ’’ آخر کب آئے گا انقلاب‘‘

انقلابی رہنما نے گردن موڑکر پیچھے دیکھے بغیر کہا:’’ مجھے تمہارے لہجے سے مایوسی جھلکتی محسوس ہو رہی ہے، لیکن یاد رکھو! انقلابی کبھی مایوس نہیں ہوا ہوتے ۔‘‘

اس کا جسم کمزور ہوتا رہا لیکن انقلاب کی اُمید اسے آگے بڑھنے کی تحریک دیتی رہی۔

کئی برس گزر گئے لیکن وہ انقلاب کی اُمید لگائے، مسلسل انقلابی رہنما کے پیچھے چلتا رہا۔

اس کے سیاہ بال سفید ہوگئے، لیکن وہ چلتا ہی رہا۔

مسلسل چلتا ہی رہا۔

چلتا رہا…

لامتناہی مسافت…

مسلسل گزرتا وقت…

اس کی آنکھوں کے آگے تاریکی چھانے لگی۔ اسے سمجھ میں نہیں آیا کہ اچانک اندھیرا کیوں ہونے لگا ہے! اسے اپنے آگے چلنے والا انقلابی رہنما بھی نظر نہیں آرہا تھا۔ اس نے اس اچانک تاریکی کا سبب جاننے کے لیے اپنے رہنما کوچیخ کر پکارا، لیکن انقلابی رہنما کی طرف سے کوئی بھی جواب نہیں ملا۔

وہ مسلسل چیخ چیخ کر اپنے انقلابی رہنما کو پکارتا رہا، لیکن اس کی کسی بھی پکار چیخ کا کہیں سے بھی جواب نہیں آیا۔

آگے صرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔

اسے لگا کہ وہ انقلاب کی راہ میں کہیں کھو گیا ہے۔

وہ سوچتا رہا …

سوچتا رہا…

اس نے سوچ سوچ کر گردن موڑکر پیچھے دیکھا۔

پیچھے اندھیرا تو تھا لیکن اتنا نہیں، کچھ روشنی ضرور تھی… اس نے حسرت سے لمبی سانس لی تو اپنے اندر سے درد کی ٹیس اُٹھتی محسوس کی۔

اس نے پیچھے پلٹ جانے کا فیصلہ کیا۔ وہ جیسے جیسے پیچھے لوٹا تو مناظر واضح ہوتے چلے گئے۔

پیچھے لوٹتے ہوئے اسے سب سے پہلے وہ چار ایکڑ زمین نظر آئی، جو اس نے بیچ کر رقم انقلاب فنڈ میں جمع کرائی تھی۔ یہ وہی چار ایکڑ زمین تھی جو اس کی کل جمع پونجی تھی اور جو اس کے بچوں کی روزی روٹی کا وسیلہ تھی، لیکن اب وہ اس کی ملکیت نہ رہی تھی۔

وہ کچھ اور پیچھے لوٹا تو اسے وہ ہزاروں ایکڑ سرکاری زمین نظرآئی، جو کبھی غیرآباد اور ویران تھی، لیکن اب وہاں پھلوں سے لدے باغ اور سرسبز کھیت تھے۔

اس کے پاس اب اپنی چار ایکڑ زمین تو تھی نہیں، لہٰذا اس نے گزر بسر کے لئے اسی کھیت پر مزدوری کرنے کا سوچا۔ اس نے کھیت میں کام کرتے ہوئے کسان سے زمیندار کا پتہ پوچھا۔

وہ جب کسان کے بتائے ہوئے پتے پر باغ میں بنی ہوئی محل نما بیٹھک پر پہنچا تو اس نے وہاں انقلابی رہنما کو زمیندار کے روپ میں دیکھا۔ رہنما نے اسے پہچاننے سے ہی انکار کر دیا !

وہ غم زدہ ہوکر بیٹھک سے نکل گیا۔ اسے یوں لگا کہ انقلاب کے نام پر نہ صرف اس کی چار ایکڑ زمین بلکہ سونے ایسی جوانی بھی لٹ چکی تھی!

وہ کچھ اور پیچھے لوٹا تو اسے وہ مِل نظرآئی، جہاں وہ پانی کی عدم دستیابی کے دنوں میں مزدوری کرکے بچوں کا پیٹ پالتا تھا۔ وہ وہاں مزدوری حاصل کرنے کے لئے چلا گیا۔ مل مالک کے دفتر میں پہنچا تو وہی انقلابی رہنما سیٹھ کی صورت بیٹھا دکھائی دیا اور وہ پیشانی پر سلوٹیں ڈالے اسے گھور رہا تھا۔

وہ غم کے مارے دفتر سے نکل گیا۔ اسے لگا کہ انقلاب کے نام پر نہ صرف اس کی چار ایکڑ زمین بلکہ سونے جیسی جوانی کے ساتھ، اس کے بچوں کے مستقبل پر بھی ڈاکا ڈالا گیا ہے۔

وہ اپنے گھر کی طرف واپس جانے لگا۔

وہ اپنے گھر کی گلی میں پہنچا تو اس کا گھر، جو پہلے قدرے بہترحالت میں تھا، وہ اب ٹوٹ پھوٹ چکا تھا۔ اس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔

وہ اپنے گھر میں داخل ہوا تو اس کی نظر اپنی بیوی پر پڑی، جو پہلے بہت صحت مند ہوا کرتی تھی لیکن اب وہ ہڈیوں کے پنجر کی صورت چارپائی پر پڑی ہوئی تھی۔

وہ احساسِ ندامت کے ساتھ آگے بڑھا اور سر جھکا کر چارپائی کے قریب فرش پر بیٹھ گیا۔

اس کی بیوی نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے بہت ہی نحیف آواز میں پوچھا، “انقلاب آ گیا؟‘‘

اس نے غم کی شدت سے بے بس ہوکر بیوی کا ہاتھ پکڑ لیا۔اس کی آنکھوں سے دو آنسو ٹپکے اور اس کی بیوی کے ہاتھ پر جا گرے۔ اس نے کہا، “انقلاب بِک گیا!‘‘

اور پھر وہ کسی ایسے چھوٹے بچے کی طرح سسکیاں لیتے ہوئے رو پڑا جیسے کسی نے اس کے سارے کھلونے چھین لیے ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).