ملالہ یوسف زئی یا JANE یوسف زئی


(جمیل فاروقی صاحب نے وضاحت کی ہے کہ ان کا یہ مضمون طنز ہے۔ اس لئے اسے طنز کے طور پر ہی پڑھا جائے۔ طنزیہ تحریر میں عموماً جو الفاظ لکھے گئے ہوتے ہیں، مصنف کا اصل مفہوم اس کے الٹ ہوتا ہے: مدیر)۔

کیا آپ کو معلوم ہے کہ ملالہ کا اصلی نام کیا ہے اور اس کا تعلق کس ملک سے ہے۔ یقیناًآپ یہ سوال پوچھنے والے کو پاگل سمجھیں گے لیکن حقائق درحقیقت کچھ ایسے ہی ہیں۔ نتائج تو خطرناک ہوں گے لیکن چلئے ان حقائق سے پردہ اٹھاتے ہیں۔ اپریل 2013 ء میں پاکستان کے معتبر اخبار ’ڈان ‘ نے اپنے کہنہ مشق تحقیقی صحافیوں کی ایک ٹیم کووادی سوات روانہ کیا تاکہ اس معاملے کی کھوج لگائی جاسکے کہ ملالہ یوسفزئی پر حملے کے محرکات کیا تھے اور طالبان کو ملالہ سے ایسی کیا نفرت تھی جس کے نتیجے میں ایک چودہ سالہ لڑکی کو براہ راست اس کی کھوپڑی میں گولیاں ماردی گئیں۔ چند افراد پر مشتمل یہ ٹیم کم وبیش پانچ ماہ تک مینگورہ اور سوات میں قیام پذیر رہی اور انہوں نے اپنے اس تحقیقی سفر کے دوران انکشافات سے بھرپور ایسے شواہد اکٹھے کیے جسے سن کر یقیناً آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے۔

10اکتوبر2013ء کو ڈان ڈاٹ کام پر شائع ہونیوالی تحریر Malala:The Real Story یعنی ’ملالہ کی اصل کہانی‘ کے خالق کے مطابق ملالہ یوسف زئی کا تعلق نہ تو سوات سے ہے اور نہ ہی وہ پشتون ہے، یہ کہانی ملالہ کے بچپن سے شروع ہوتی ہے جب وہ اپنے والد کے ہمراہ کان کے درد کا علاج کرانے سوات کے ایک نجی اسپتال گئی، ڈاکٹر امتیاز خان زئی سوات کے معروف ماہر امراض کان ہیں، انہوں نے ملالہ کے کان کے میل یعنی ویکس کو بطور نمونہ لیا اوربہترین ادویات کے ساتھ روانہ کردیا، کچھ دنوں بعد ملالہ کے کان کی تکلیف تو دورہو گئی لیکن یہ تکلیف بہت سارے راز افشا کر گئی۔

ستمبر 2012ء میں ملالہ پر طالبان کے حملے کے واقعے کے بعد میڈیا پر شدید واویلے نے ڈاکٹر امتیاز خان زئی کو سوچنے پر مجبور کر دیا کہ مغرب اس لڑکی کے لئے اتنا واویلا کیوں مچا رہا ہے، ڈان کے آن لائن ایڈیشن کے مطابق ڈاکٹر خان زئی اپنے مریضوں کے کان کی میل یا ویکس کو بطور ڈی این اے سیمپل (DNA Sample) سنبھال کر رکھنے کے عادی تھے، انہوں نے انتہائی احتیاط کے ساتھ ملالہ کے ڈی این اے سیمپل پر کام کرنا شروع کر دیا، اس ڈی این اے کی تحقیق کے بعد جو نتائج ڈاکٹر خان زئی کے سامنے آئے وہ انتہائی ہوشربا تھے۔ ڈاکٹر امتیازخان زئی کا دعوی تھا کہ ملالہ یوسفزئی کا تعلق خیبرپختونخوا سے نہیں بلکہ ڈی این اے کے مطابق وہ caucasianیعنی قوقازی یعنی ’کاکیشیائی‘ باشندہ تھی اور غالب امکان یہ کہ ایسی نسل کے باشندے پولینڈ میں پائے جاتے ہیں، ڈاکٹر خان زئی نے اپنی تحقیقات کو بار بار دہرایا اور بالآخر اس نتیجے پر پہنچے کہ ملالہ کا تعلق مینگورہ یعنی سوات سے نہیں بلکہ پولینڈ سے ہے۔

تمام تحقیق کرنے کے بعد انہوں نے ملالہ کے والد کو اپنے کلینک بلایا اورانہیں بتایا کہ میں جانتا ہوں کہ ملالہ کون ہے، ملالہ کے والد، ڈاکٹر خان زئی کی بات سن کر سٹپٹا گئے۔ ڈاکٹر امتیاز خان زئی نے ملالہ کے کان کے درد سے لے کر ویکس یعنی ڈی این اے سنبھالنے تک کے تمام واقعات ان کے گوش گزار کر دیے، ملالہ کے والد ضیاء الدین یوسف زئی پہلے پہل تو ادھر اُدھر کی ہانکتے رہے بعدازاں منت سماجت پراتر آئے اور معاملے کو دبانے کا مطالبہ کیا۔ ڈاکٹر خان زئی نے اس شرط پر خاموشی کا وعدہ کیا کہ اگر وہ ملالہ کے بارے میں سب کچھ سچ سچ بتائیں گے تو ہی بات کو صیغہء راز میں رکھا جائے گا۔

ملالہ کے والد ضیاء الدین یوسف زئی نے بتا یا کہ ملالہ یوسف زئی کا اصل نام ’جین‘ (JANE)ہے اور وہ 1997 ء میں ہنگری میں پیدا ہوئی، جین کے اصل ماں باپ پولینڈ سے ہیں جو عیسائی مشنری سے وابستہ ہیں اور2002 ء میں سوات کے سفر کے دوران وہ جین کو ان کے ہاں چھوڑ گئے تھے، بچی کو لے پالک کے طور پرگفٹ کرنے کی وجہ اس پولش خاندان کا چپکے سے عیسائیت کی جانب مائل ہونا تھا اور ضیالدین یوسف زئی نے موقع پرستی کا ثبوت دیتے ہوئے خود کو عیسائی ظاہر کیا تھا۔ جب روزنامہ ڈان کے نمائندگان نے ڈاکٹر امتیازخان زئی سے یہ سوال کیا کہ وہ اس حقیقت سے اتنے عرصے بعد پردہ کیوں اٹھا رہے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ انہیں لگتا ہے کہ ملالہ کا واقعہ پاکستان مخالف عناصر کی سوچی سمجھی سازش لگتا ہے اور جب کہ انہیں معلوم ہو چکا ہے کہ حقائق کیا ہیں تو وہ اس بات سے پردہ اٹھا رہے ہیں۔

ڈاکٹر خان زئی نے اس بات کا بھی دعوی کیا کہ ملالہ یوسف زئی کو گولی مارنے والے کا ڈی این اے ویکس سیمپل بھی ان کے پاس موجود ہے اور ان کی تحقیق کے مطابق ملالہ کو گولی مارنے والا پشتون نہیں بلکہ اس کا تعلق اٹلی سے ہے۔ یعنی اس واقعے کے پیچھے طالبان نہیں تھے بلکہ یہ بلیک واٹر کی کارروائی تھی۔ ڈاکٹرزئی نے دعوی کیا کہ اس نے اس سارے واقعے اور اس تفصیلی تحقیق سے متعلق پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے ایک آفیسر کو ای میل کی اور ملالہ کے والد اور ملالہ کی اصلیت سے آگاہ کیا، کچھ دن بعد جب وہ سعودی عرب میں سعودی شاہی خاندان کے کانوں سے میل یعنی ویکس کے نمونے لینے کے لئے سعودیہ میں مقیم تھے تو ان کی غیر موجودگی میں پولیس نے سوات میں واقع ان کے نجی کلینک پر چھاپہ مارا اور کلینک کے عملے کوویکس نمونوں کی حوالگی سے متعلق ہراساں کیا۔

سعودیہ سے واپس آنے کے بعد پاکستانی خفیہ ایجنسی کے آفیسر نے ڈاکٹر زئی کے کلینک کا دورہ کیا اور پولیس ریڈ سے متعلق معذرت خواہانہ لہجہ اپناتے ہوئے کہا کہ انہیں علم ہے کہ’ ملالہ شوٹنگ ‘سے جڑے اصل حقائق کیا ہیں اور پاک فوج اس بات سے باخبر ہے کہ ملالہ درحقیقت کون ہے، معتبر روزنامے کے نمائندگان کی جانب سے شدید اصرار پر ڈاکٹر امتیاز خان زئی نے انہیں خفیہ ایجنسی کے آفیسر کا نمبر دے دیا۔ کئی دنوں کی تگ و دو کے بعد ’ماسٹر ایکس ‘ نامی ایجنٹ نے اسپائیڈر مین کے ماسک میں رپورٹرز سے ملنے پر رضا مندی ظاہر کردی۔ اور محب وطن پاکستانی ایجنٹ کے مطابق ملالہ یوسف زئی پر حملے کا واقعہ ایک ڈرامہ تھا جس کا مقصد وزیرستان میں پاک فوج کی پیش قدمی اور افغانستان میں امریکہ کی مداخلت کے لئے راہ ہموار کرنا تھا۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ پاکستان کے معتبر اخبار کے تحقیقی صحافیوں کی کہنہ مشق ٹیم کی چند ماہ پر مبنی تحقیق کا خلاصہ ہے۔

معتبر روزنامے کی اس رپورٹ میں کس حد تک صداقت ہے اس کا فیصلہ تو وقت کرے گا لیکن یہ طے ہے کہ ملالہ مغرب کے ہاتھوں میں جا چکی۔ بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی کہ ملالہ کی اصلیت کیا ہے بلکہ بات یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ ملالہ کو اس ڈرامے کے لئے بطور مرکزی کردار چننے کے لئے کن خفیہ طاقتوں کا ہاتھ ہے۔ سی آئی اے سے لے کر ایم آئی تک۔ سب یہ جانتے ہیں کہ امریکہ کو افغانستان پر حملے کے لئے نائن الیون کے بعد ٹھوس جواز چاہیے تھا اور وہ تھا طالبان کی خواتین کی تعلیم سے نفرت کا جواز۔ یہ وہ واحد sentimentتھا جسے جواز بنا کر شمالی اور جنوبی وزیرستان میں فوجی پیش قدمی، ڈرون حملے اور افغان طالبان پر باقاعدہ امریکی حملہ کیا جا سکتا تھا اور پھر وہی ہوا۔ ملالہ پر حملہ ہوا۔ وہ بچ گئی۔ اسے بین الاقوامی برانڈ بنا دیا گیا۔ اور پھر وزیرستان میں پیش قدمی کی گئی۔

ادھر سخاروف ایوارڈ سے لے کر نوبل امن انعام تک سب ملالہ کی جھولی میں ڈال دیے گئے، ملالہ فنڈ قائم ہوا تو اربوں ڈالر کی امداد فراہم کی گئی۔ پھر اسرائیلی لابی کی مدد سے ملالہ سے I Am Malala کے عنوان سے ایک متنازعہ کتاب لکھوائی گئی، 276صفحات پر مشتمل اس کتاب میں مسلمانوں اور پاکستان پر وہ الزامات لگائے گئے جو مغرب ہمیشہ پاکستان پر لگاتا آیا ہے، ملعون سلمان رشدی کی تعریف میں ملالہ اپنی کتاب کے صفحہ نمبر تیس پر لکھتی ہے۔ ’پاکستان میں اس کتاب کے خلاف مضامین سب سے پہلے ایک ایسے مولوی نے لکھنا شروع کیے جو ایجنسیوں کے بہت نزدیک تھا، تاریخ کا یہ بدترین جھوٹ اسے کس نے لکھنے پر مجبور کیا کہ سلمان رشدی(ملعون) کو آزادی اظہار کے تحت پورا حق حاصل تھا، یہی نہیں بلکہ آقائے نامدارؐ کی شان میں گستاخانہ لہجہ، ملکی سکیورٹی ایجنسیوں کے خلاف لغویات، داڑھی کے بار ے میں قابل اعتراض جملے اور پاک فوج کی کردار کشی ملالہ کی اس کتاب کا خاصہ ہے۔

اب جبکہ ملالہ مغرب کے ہاتھوں میں کھلونا بن چکی ہے تو اسے پاکستان کا دورہ کرایا جا رہا ہے، مغرب نواز حالیہ حکومت جسے اپنے سافٹ امیج کی پڑی ہوئی ہے، ملالہ کو اتنا پروٹوکول دے رہی ہے کہ آنے والے وقتوں میں ملالہ کو معین قریشی اور شوکت عزیز کی طرح پاکستان پر مسلط کرنے کا قومی امکان ہے۔ لیکن پاک فوج اس سارے کھیل سے واقف ہے۔ آج کا سچ نہایت کڑوا تھا۔ یہ سچ لکھنا بہت مشکل تھا لیکن ناچیز جانتا ہے کہ سچ کے لئے لب کھولنے کی کڑی سزا ہے، یہ گستاخی ناچیز نے کر دی ہے اور یہ تو اس قوم کا طرہ امتیاز ہے کہ کوئی سچ بولے تو اس کی زبان پر دہکتے انگارے رکھ دیے جائیں، اسے پابند سلاسل کر دیا جائے، اس کے لبوں پر قفل لگا دیے جائیں، اسے جہنم واصل کر دیا جائے اور ناچیز اس ردعمل کے لئے بے باکی سے تیار ہے۔

 فاروقی صاحب روزنامہ نئی بات میں کالم نگاری کے علاوہ نیو ٹی وی کے مقبول پروگرام حرف راز میں اوریا مقبول جان صاحب کے ساتھ اینکر کے طور پر قوم کی راہنمائی کرتے ہیں۔
بشکریہ روزنامہ نئی بات۔ 30 مارچ 2018۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).