نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیا کو رگید کے رکھ دیا


کر پشن ریفرنسز میں اپنے دفاع کے لئے شریف خاندان کے وکیل کے سامنے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سربراہ واجد ضیاء کے پاؤں اکھڑ گئے۔ پاناما پیپرز جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء کو جرح کے پہلے تین روز کے دوران خوب گھمایا حتیٰ کہ واجد ضیا عدالت میں جے آئی ٹی کے تعصبات اور دہرے معیار کو آشکار کر نے پر مجبور ہو گئے۔ خواجہ حارث شریفوں کے خلاف ایک انتہائی اہم گواہ کو جال میں لانے اور مختلف گواہوں کے لئے دہرے معیارات کےذریعے مطلوبہ نتائج حاصل کر نے کو بے نقاب کر نے میں کامیاب رہے۔ حتیٰ کہ وہ عدالت میں ان کا جھوٹ پکڑنے میں اس وقت کامیاب رہے جب ضیاء نے پہلے روز کہا کہ اپنی 29؍ سالہ پولیس سروس کے دوران انہوں نے کسی گواہ کو پیشگی سوالنامہ نہیں بھیجا مگر دوسرے روز جے آئی ٹی کے سربراہ نے اعتراف کیا کہ جے آئی ٹی نے متفقہ فیصلے کے تحت لندن میں جیریمی فری مین کو کوئیسٹ سالیسٹرز کے ذریعے پیشگی سوالنامہ بھجوایا۔

جےآئی ٹی کے سربراہ اور قومی احتساب بیورو کے اہم ترین گواہ واجد ضیا کی شاید یا تو تیاری مکمل نہ تھی یا وہ ایسےگواہ کی طرح جواب دیتے رہے جسے کیس کےنتائج میں خاص دلچسپی ہوتی ہے ‘یہی وجہ ہے کہ انہیں جرح کے دوران بار بار اپنی بات کی وضاحت کر نا۔ پڑی ایک موقع پر جب واجد ضیاء نے اپنے جواب کی وضاحت کر نا چاہی تو خواجہ حارث نےکہا کہ کوئی بھی گواہ جب زیادہ وضاحتیں دیتا ہے تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ اسے کیس کے نتیجے سے کوئی خاص دلچسپی ہے۔

ایون فیلڈ ریفرنس میں میاں نواز شریف کا کردار:۔

خواجہ حارث نے واجد ضیاء کو عدالت کے سامنے یہ ظاہر کر نے پر مجبور کر دیا کہ کوئی ایسے دستاویزی ثبوت موجود نہیں جن سے نواز شریف کا لندن پراپرٹیز اور برٹش ورجن آئی لینڈ میں آف شور کمپنیوں سے کوئی تعلق ثابت ہو۔ واجد ضیاء نے تصدیق کی کہ لا فرم موزیک فونسیکا کا کوئی مراسلہ یا دستاویز یہ ظاہر نہیں کر تی کہ نواز شریف کمپنیوں یا جائیدادوں کے مالک یا دوآف شور کمپنیوں کےاصل یا بینی فشل مالک تھے۔ نا توبرٹش ورجن آئی لینڈ کی ایف آئی اے اورنہ ہی اے جی نے قرار دیا کہ نواز شریف کا کسی آف شور کمپنیوں سے کوئی تعلق تھا۔ واجد ضیاء نے اس امر کا جواب بھی نفی میں دیا کہ نواز شریف آف شور کمپنیوں کے ٹرسٹی‘سیٹلر یا بینی فشری تھے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس امر کا کوئی ثبوت نہیں ملا اور نہ ہی کسی گواہ نے جےآئی ٹی کو بتایا کہ کبھی بھی نوازشریف کے نام سے ان آف شور کمپنیوں کے بیئرر سرٹیفکیٹ جاری ہوئے۔

واجد ضیاء نےایک سوال کےجواب میں بتایا کہ کسی محکمے یا رجسٹری دفاتر سمیت کسی سے بھی مراسلت میں نواز شریف کو لندن جائیدادوں کا مالک ظاہر نہیں کیا گیا‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کوئی بل نواز شریف کے نام سے جاری ہوا اورنہ ہی ان کے نام سے کوئی کر ائےکی رسید ملی ہے۔ واجدضیا نے کہا کہ جے آئی ٹی کو کوئی ایسا بینک اکائونٹ نہیں ملا جس سے یہ ثابت ہو کہ نواز شریف نے لندن پراپرٹیز کی خریداری کیلئے کوئی ادائیگی کی۔

واجد ضیاء نے جرح کے دوران یہ بھی کہا کہ کسی گواہ نے یہ نہیں کہا کہ نواز شریف گلف سٹیل کے مالک تھے یا بعد میں اس کی فروحت سے انہوں نے کوئی فائدہ حاصل کیا۔ گلف سٹیل کی فروخت سے حاصل رقم کی منتقلی کے حوالے سے واجد ضیاء نےعدالت کو بتایا کہ اس امرکا کوئی ثبوت نہیں کہ اس رقم سے نوازشریف کو فائدہ ملا حتیٰ کہ الثانی خاندان کےخطوط میں بھی یہ نہیں کہا گیا کہ نواز شریف کو واپس کی گئی رقم سےکوئی فائدہ ملا۔

خواجہ حارث

مختلف گواہوں کیلئے جےآئی ٹی کا دہرا معیار:۔

مشترکہ تحقیقاتی ٹیم( جے آئی ٹی) نے کسی قسم کی تحقیقات‘ مشاورت‘ مراسلت اور فرم سے رابطے اور خطوط سے متعلقہ دستاویزات ثبوت حاصل کئے بغیر اور یہ جانے بغیر کہ یہ خط کس نے بھیجے اور کس کی درخواست پر بھیجے گئے‘ نجی لا فرم موزیک فونسیکا کی باتوں کو درست تسلیم کر لیا‘ یہ بات احتساب عدالت میں خواجہ حارث کی جرح کے جواب میں واجد ضیاء کہنے پر مجبور ہوئے۔ تاہم قطر کے شہزادے کےخطوط کےحوالے سے یہ معیار نہ اپنایا گیا جس نے ناصرف سپریم کورٹ کو دو خطوط لکھے بلکہ جے آئی ٹی کو بھی 3 خطوط بھیجے جن میں سپریم کورٹ کو لکھے گئے خطوط کے مندرجات کی تصدیق کی گئی۔

خواجہ حارث نے واجد ضیاء سے شیخ حمدبن جاسم کی طرف سے سپریم کورٹ اور بعد ازاں جے آئی ٹی کو لکھے گئے خطوط کے بارے میں کئی سوالات کئے تو واجد ضیاء نے عدالت کو بتایا کہ قطری خط کےساتھ ٹھوس دستاویزات نہیں تھیں اس لئے جے آئی ٹی نے اسے مسترد کر دیا۔ حارث کے سوال پر ضیاء نے بتایا کہ 25 مئی 2017ء اور11 جون2017 ء اور پھر 26 جون 2017ء کو لکھے گئے اپنے 3 خطوط میں قطری شیخ نے فاضل عدالت کو قبل ازیں لکھے گئے اپنے دو خطوط کے مندرجات کی توثیق کی۔ ضیاء نے تسلیم کیا کہ جےآئی ٹی نے قطری شہزادے کو کسی قسم کا سوالنامہ بھیجنےاورقطر میں پاکستانی ہائی کمیشن کے علاوہ کسی بھی جگہ اس کا بیان قلمبند کرنے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ضیاء نےتسلیم کیا کہ قطری شہزادے کو جے آئی ٹی کی طرف سے بھیجے گئے خطوط میں آگاہ کیا گیا تھا کہ وہ بیان ریکارڈ کرائیں اور انہیں کسی اکائونٹنٹ کی معاونت حاصل کرنے کی اجاز ت نہیں ہو گی اور یہ کہ ان کا انٹرویو کئی گھنٹوں پر مشتمل بھی ہوسکتا ہے۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2