رقاصہ، پروہت اور موہنجو داڑو کی تباہی


ہڑپہ تہذیب کا عظیم مرکز موہنجو داڑو ایک حیرت انگیز جگہ ہے۔ ادھر صاف پانی کی سپلائی اور گندے پانی کے نکاس کا انتظام، پختہ گلیاں، عوامی عمارات وغیرہ ایسے ہیں کہ ہمارے بیشتر شہریوں کو وہ پانچ ہزار سال بعد بھی نصیب نہیں ہو پائے ہیں۔ تجارت اس کی ادھر عرب اور عراق تک تھی۔ اس شہر کی تباہی کی وجوہات نامعلوم ہیں۔ پہلے یہ نظریہ تھا کہ آریاؤں نے حملہ کر کے سب کو مار ڈالا، پھر نیا نظریہ آیا کہ موسمی حالات تبدیل ہونے کے سبب وہ علاقہ بارشوں سے محروم ہو گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کھانے کو کم ہو گیا اور کھانے والے زیادہ ہو گئے۔ بستی اجڑ گئی۔ اس تہذیب کی تحریر ابھی تک نہیں پڑھی جا سکی ہے۔ اس لئے یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے کہ ادھر کیا ہوا تھا۔ آثار کو دیکھ کر ہی اندازے لگانے پڑیں گے۔

وہاں سے جو آثار ملے ہیں، ان میں سب سے زیادہ اہم دو ہیں۔ ایک مرد کا مجسمہ جو پریسٹ کنگ یعنی پروہت بادشاہ کے نام سے مشہور ہوا۔ ایک ہٹے کٹے سے باریش بزرگ ہیں، خواہ انہیں پریسٹ کہیں، پروہت کہیں، پنڈت کہیں یا ہماری روایات کے مطابق مولوی۔ ان کی آنکھیں نیم وا ہیں، چہرہ کچھ اوپر اٹھا ہوا، اس پر تاثر ایسا جیسے کسی سے خفا ہوں۔

دوسری ایک سوکھی سڑی سی حسینہ۔ آج کل کی سپر ماڈلز جیسی دبلی پتلی، مگر ان کے برخلاف نسوانیت سے بھرپور۔ اس نے کمر پر ایک ہاتھ ٹیکا ہوا ہے اور ایک ٹانگ خم کھائی ہوئی ہے۔ اس انداز کی وجہ سے وہ رقاصہ کہلائی۔ ڈانسنگ گرل آف انڈس ویلی۔ وادی سندھ کی رقاصہ۔ اس کے چہرے کے تاثرات بھی دلچسپ ہیں۔ جیسے ابھی ابھی کسی سے لڑی ہو اور کہہ رہی ہو کہ میں تمہاری پروا نہیں کرتی۔

ان دو کے علاوہ کچھ مہریں دستیاب ہوئی ہیں جن پر مختلف جانور اور دیگر نقش و نگار بنے ہوئے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس علاقے میں اس زمانے میں بھی انسانوں کے ساتھ ساتھ جانور اور درندے بھی رہتے تھے۔

موہنجو داڑو ایک پرشکوہ شہر ہے۔ ویسے تو ہم اپنے آثار قدیمہ اور ماضی سے نفرت کرتے ہیں اور ان کا نام و نشان مٹانے میں کوشاں رہتے ہیں مگر پھر بھی جو کچھ بچ گیا ہے وہ حیران کن ہے۔ ایسی بہترین پلاننگ سے بسی ہوئی بستی تو ہمارے عوام کی غالب اکثریت کو آج بھی نصیب نہیں ہوتی ہے۔ پکی اینٹوں سے بنا ہوا شہر، صاف ستھری گلیاں، اشنان کو مرکزی تالاب۔ اناج ذخیرہ کرنے کو غلہ خانہ۔ تعمیر ایسی اعلی کہ پانچ ہزار برس بعد بھی قائم ہے۔ لیکن ایک حیرت انگیز چیز یہ ہے کہ شہر میں محل کی موجودگی کے آثار نہیں ملے۔ خدا جانے ادھر بادشاہ بھی ہوتا تھا یا نہیں۔ کچھ ماہرین کہتے ہیں کہ جس عمارت کو غلہ خانہ کہا جاتا ہے وہ اصل میں ایک بڑا عوامی ہال تھا۔ یعنی اسمبلی ہال ٹائپ چیز۔ محل نہیں ہے تو اس کا یہی مطلب ہے کہ وہاں اشرافیہ کا غلبہ نہیں ہو گا۔ شہری مل جل کر نظام چلاتے ہوں گے۔

شہر کی سب سے نمایاں چیز اس کا تالاب ہے۔ پختہ اینٹوں سے بنا ہوا، انتالیس فٹ لمبا، تیئس فٹ چوڑا اور آٹھ فٹ گہرا۔ اس شہر کے لوگوں کو صفائی کا جنون تھا۔ ہر گھر میں بھی صاف پانی کے لئے کنواں اور نہانے کے لئے غسل خانہ بنا ہوتا تھا۔ گندے پانی کے نکاس کے لئے پختہ نالیاں بنائی گئی تھیں۔

تالاب کے دوسری طرف ہی ایک وسیع عمارت ہے جس کے اٹھہتر کمرے ہیں۔ اس کا مقصد نامعلوم ہے مگر یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ ادھر کسی اہم شخصیت کی رہائش بھی تھی۔ اسے ”پروہتوں کا کالج“ کا نام دیا گیا ہے۔

تجارتی قافلے اس کے دور کے دیسوں کو جاتے تھے۔ بابل مصر اور نہ جانے کہاں کہاں سے موہنجوداڑو کی مہریں اور آثار ملے ہیں۔ یعنی یہ بہترین معیشت کا حامل خوب امیر شہر ہو گا۔ دریائے سندھ کے کنارے آباد تھا۔ اناج کی بھی کمی نہ ہو گی اور فصلیں خوب اچھی ہوتی ہوں گی۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں بھی یہ دنیا بھر کے ترقی یافتہ ترین علاقوں میں سے تھا۔ بلکہ اس کی ڈیزائن کردہ بیل گاڑیاں تو ہمارے ہاں آج بھی چل رہی ہیں۔ پھر کیا وجہ ہوئی کہ یہ تباہ و برباد ہوا؟

پرانے زمانے میں یہ خیال تھا کہ اسے آریاؤں کے حملے نے تباہ کیا۔ وہ وسط ایشیا سے اپنے گھوڑوں پر بیٹھ کر دگڑ دگڑ کرتے آئے۔ ہڑپہ تہذیب کے باسی امن پسند لوگ تھے، ان کا مقابلہ نہ کر سکے اور مارے گئے۔ ہڑپہ کی اینٹیں تو ہم نے اکھاڑ کر ریلوے لائن بنا لی، مگر موہنجوداڑو میں ایسے آثار نہیں ملے کہ ادھر کوئی قتل عام ہوا ہو اور بیرونی حملہ آور نے اس کی اینٹ سے اینٹ بجائی ہو۔

پھر ایک جدید تھیوری آئی کہ موسمی تغیرات نے بارش کو سندھ سے پنجاب منتقل کر دیا۔ موہنجو داڑو کے ارد گرد فصلیں کم ہوئیں تو اتنی بڑی آبادی کا بوجھ اٹھانا مشکل ہو گیا۔ رفتہ رفتہ موہنجو داڑو اجڑ گیا۔ بس کھنڈر ہی بچا ہے۔

ہماری رائے میں یہ دونوں نظریات غلط ہیں۔ موہنجو داڑو کی تباہی کا اصل سبب وہی دو مجسمے ہیں جن کا شروع میں ذکر کیا تھا۔ آثار بتاتے ہیں کہ موہنجوداڑو پیار محبت کرنے والوں کا شہر ہو گا۔ زندگی سے محبت کرنے والے ادھر رہتے ہوں گے۔ وہ محنت کر کے صنعت و تجارت میں کمال کرتے ہوں گے، ناچتے گاتے ہوں گے، آرٹ کے شاہکار بناتے ہوں گے، دنیا کو جنت بناتے ہوں گے۔

پھر یوں ہو گا کہ زندگی کی ہر خوبصورتی پر ناک بھوں چڑھانے والے پروہت بادشاہ کے ساتھی جیت گئے ہوں گے۔ انہوں نے اتنا طاقتور گروہ بنا لیا ہو گا کہ زندگی سے محبت کرنے والے ان کے آگے بے بس ہو گئے ہوں گے۔ رقاصہ اب پروہت بادشاہ کے آگے تن کر کھڑی نہ ہو سکتی ہو گی۔

رقاصہ اس تنگ نظر پروہت سے ہار گئی۔ خوش رنگ مقامی تہذیب نے سخت گیر ملائیت سے شکست کھائی۔ جہاں ہن برستا تھا وہاں خون برسنے لگا۔ سب آپس میں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوئے۔ اس قیاس کو اس بات سے تقویت ملتی ہے کہ موہنجو داڑو سے ملنے والے تمام مجسمے ٹوٹے ہوئے ہیں۔ یہ پتھر کے بنے ہوئے مجسمے ہیں جو بیٹھے ہوئے مردوں کے ہیں۔ یونیورسٹی آف وسکانسن سے تعلق رکھنے والے ماہر آثار قدیمہ جوناتھن کینویر کہتے ہیں کہ موہنجوداڑو کے ”بالکل آخری وقت میں جو بھی آیا وہ واضح طور پر ان لوگوں کو ناپسند کرتا تھا جو اپنی (تہذیب کی) اور اپنے بزرگوں کی نمائندگی کرتے تھے“۔

جب انسانوں کو خود اپنی تہذیب اور اپنی روایات سے ہی نفرت ہو جائے تو پھر مضبوط قلعہ بندیاں کسی کام نہیں آتیں۔ جب بھائی بھائی سے لڑنے لگے، جب فضا میں رقص و نغمے کی بجائے تنگ نظری چھا جائے، تو دولت سے لدے اور خوشیوں بھرے وطن کی بجائے موہنجو داڑو وجود میں آتا ہے۔ موہنجو داڑو۔ مردوں کا ٹیلہ۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar