ٹرانسپورٹ کاادب


گزشتہ کالموں میںاچھی خاصی جوتوں کی رسومات اورٹرانسپورٹ کی شاعری جیسی دل آویزباتیں ہورہی تھیں کہ درمیان میں عقل وشعوراورمستقبل کی سائنس وٹیکنالوجی کی باتیں چھڑ گئیں، جنہیں بجاطورپرکسی سنجیدہ وبرگذیدہ معاشرے میںاچھی نظروں سے نہیں دیکھاجاتا۔اللہ مالک ہے ، کل جوہوگادیکھاجائے گا۔جب ہم نے گزشتہ کئی صدیوں سے کوئی بات نہیں سوچی تو کون سی قیامت آگئی؟

اگرآئندہ بھی غوروفکراور آشوب آگہی جیسے موذی امراض سے بچتے رہیں گے کائنات کے نظام میںکوئی خلل نہیں پڑے گا۔فانی جہان ہے ، جب ہم نے کبھی کل کانہیں سوچاتواگلی صدی کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کیادماغ کھپانا؟

چارروزہ زندگی میںسوچ بچارکی صلیب سے چمگادڑوں کی طرح لٹکنے سے کہیں بہترہے کہ وہ ٹھٹھے مذاق ، جگت بازی، طعن وتشنیع اورنیکیاں کمانے میں گزرجائے۔عنوان بالاکی ایک ارفع سی مثال ہے ”سوچناتے جان سڑدی، ہسنا تے لوکی سڑدے‘‘سواپنی جان جلانے کی بجائے ہنس کر دشمنوں کوجلاناچاہیے یاکم از کم دوسروںکے ہنسنے اورتفریح طبع کا سامان ہی کرناچاہیے ۔

آمدم برسر مطلب!دل آویزسلسلہ کلام مذکورہ وہیں سے شروع کرتے ہیں، جہاں سے ٹوٹاتھا۔آپ کے ذوق لطیف کی تسکین کے لیے ٹرانسپورٹ کی شاعری کے مزیدکچھ نمونے پیش خدمت ہیں۔ایک بس کے پیچھے لکھے گئے اس شعرمیں جھلکتاتخلیقی رچائو اورجمالیاتی احساس ملاحظہ فرمائیے:

میں برسوں کا چرسی
اور وہ گولڈلیف سی لڑکی

ایک رکشے پر یہ شاہکار شعر ہم نے پڑھا ، جوشاعرمحترم کی اعلیٰ ظرفی کامنہ بولتاثبوت ہے۔

کیوں پریشان ہوتی ہو میرا دل توڑ کر
میں خود جا رہا ہوں تیرا شہر چھوڑ کر

ٹرانسپورٹ کا ادب تخلیق کرنا اگر دقیق فن ہے تو اس کا مطالعہ کرنا مہا دقیق۔ ایک طرف ایسی شاعری کرنے کے لیے سینہ کباب کرنا پڑتا ہے تو دوسری طرف اسے پڑھنا بھی پہاڑ جیسی حوصلہ مندی کا متقاضی ہے ۔ اس شاعری کے خالق پیشے کے اعتبار سے ڈرائیور، کلینر اور پینٹرز وغیرہ ہوتے ہیں لیکن ازروئے شوق جملہ اصناف سخن خصوصاً شاعری پر بھی مکمل دسترس رکھتے ہیں ۔

یہ تمام تخلیق کار چند سال تعلیم کے ساتھ پنجہ آزما رہنے کے بعد اسے چاروں شانے چت کر دیتے ہیں اور کسی گاڑی ، ورکشاپ یا پینٹر کی دکان پر جا بیٹھتے ہیں ، جہاں وہ اپنی روزی روٹی کمانے کے ساتھ ساتھ ادب کو سدھارنے کا کار خیر بھی سنبھال لیتے ہیں ۔ یہ حضرات بسا اوقات وقت کی کمی اور دیگر مصروفیات کی بنا پر دوسروں کے اشعار کو ہی مناسب کانٹ چھانٹ اور اصلاح کے بعد جاری فرما دیتے ہیں ۔ان کا ایک فرقہ” فرمائشی شاعر‘‘کہلاتا ہے۔ فرمائشی شاعر کی پہچان یہ ہے کہ شعر کے ساتھ جلی حروف میں لکھا ہوگا ”بہ فرمائش فلاں‘‘ مثلاً ایک ٹرک کے پیچھے ”بہ فرمائش استادفیکا ‘‘ لکھا جانے والا یہ شعر سنیے ،جس میں استاد نے شعیب بن عزیزکے ساتھ کوئی پرانا حساب برابرکیاہے :

اب کیوں شور کرتے ہو ان ویرانوں میں
اس طرح تو ہوتاہے اس طرح کی شاموں میں

شان الحق حقی کے اس شعر کی اصلاح پر تو داد کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں کہ :

تم سے الفت کے تقاضے نہ نباہے جاتے
ورنہ ہم کو بھی تمنا تھی کہ بیاہے جاتے

ایک اورٹرک پرلکھے گئے اس سرائیکی شعر کی گیرائی اورگہرائی ماپ کر دکھایئے:

ساڈا دل اے مرکز یاداں دا
تیری یاد دے ٹرک روز لاہندن

ٹرانسپورٹ کی شاعری پر مختلف آرا پائی جاتی ہیں ، کئی نقاد اسے آزاد شاعری کی ایک قسم قرار دیتے ہیں تو کئی اسے مادر پدر آزاد شاعری بھی کہتے ہیں ، جو زیادہ قرینِ انصاف ہے ۔ آپ اوزان وبحورکی قیدی ، لگی بندھی اورخشک شاعری تو روزبرداشت کرتے ہیںمگرایسی قدغنوں اورآلائشوںسے پاک ٹرانسپورٹ کی فرحت بخش شاعری آپ کو صحیح معنوں میںحیرت واستعجاب کی وادیوں میں اتاردیتی ہے ۔اس قماش کے اشعارگاڑیوںپر کچھ اس انداز سے لکھے ہوتے ہیں :

روز شام گزر جاتی ہے ، ہم تنہا رہ جاتے ہیں
اک روز ہم گزر جائیں گے ، شام تنہا رہ جائے گی

درحقیقت ٹرانسپورٹ کے اشعارمیں وزن سے زیادہ خیال کی بلندی پیش نظررکھی جاتی ہے۔اب ظاہر ہے کہ جب قاری کوخیال کی اتنی بلندی سے حیرت واستعجاب کی وادیوں میں دھکا دیاجائے گا تووہ لطف تواٹھائے گا۔ملاحظہ فرمائیے ٹرالر پر کی گئی یہ گل کاری:

اگربے وفائی ہم سے کرنی تھی، پہلے ہی بتا دیتے
دنیا بہت بڑی تھی ، کسی اور سے دل لگا لیتے

ایک ویگن پر لکھا گیا یہ شعرآپ کے دل کے تاروں کویوں چھیڑے گا، جیسے وہ بجلی کے تاروں سے ٹکراگئے ہوں:

اَکھ لڑی ڈرائیور نال
تے اڈیاں اتے رُل گئی آں

شاعری کی یہ صنف اتنی مقبول ہورہی ہے کہ اب توپرائیویٹ کاروں پر بھی پبلک ٹرانسپورٹ سے اشعار اورجملے نقل کر کے لکھے جاتے ہیں۔آپ نے کئی کاروں کے پیچھے لکھا دیکھا ہو گا ”یہ سب میری ماں کی دعاہے‘‘ حالانکہ بہت ممکن ہے کہ کارہذاایک ایسے پھیرے یا ٹھیکے میں آئی ہو، جس کی خبر ماں جی کے فرشتوں کو بھی نہ ہو۔خیر، ایک پک اپ کا یہ فن پارہ توآپ پرمسرت وانبساط کے دروازے کھول دے گاکہ:

کوئی کالا تِل ماہیا
دل اُتے دل رکھ کے، اُتوں ٹھوک دے کِل ماہیا

یہ تو یقینا آپ کے مشاہدے میں ہوگا کہ گاڑی جتنی بھی پرانی اور کچھکی ہوئی ہو گی اس پر ”اگ لاریاں، بم ڈرائیور‘‘ ضرور لکھا ہوگا، چاہے اسے دس آدمی ایک کلومیٹر تک دھکا لگا کر اسٹارٹ کرتے ہوں۔ یہ بھی آپ کے علم میں ہوگا کہ تمام ڈھارا نما اور لڑکھڑا کر چلتی ہوئی کمرشل گاڑیوں پرجلی حروف میں لکھا ہوتا ہے ”سپیڈ میری جوانی ، بریک میرا نخرہ‘‘ حالانکہ ان قبل از مسیح گاڑیوں کی سپیڈ ہوتی ہے نہ بریک ۔

ایک اور لطیفہ بھی ایسی گاڑیوں پر درج ہوتا ہے کہ ”کوئی دیکھ کرجل گیا ، کسی نے دعا دی ‘‘ حالانکہ کوئی عقل کا اندھا بھی ان پھٹیچرگاڑیوں سے جلنے کا تصور نہیں کر سکتا۔ البتہ جو بھی انہیں دیکھتا ہے، وہ دعا ضرور کرتا ہے کہ اس کے مسافر خیریت سے اپنی منزل تک پہنچ جائیں ۔ پچھلے دنوں ہم نے پطرس بخاری کی سائیکل جیسی ایک مسافر وین دیکھی جسے دیکھ کر خود کو یقین دلاناپڑتا ہے کہ وہ گاڑی ہی ہے ۔

مختلف گاڑیوں کے باڈی پارٹس جوڑ کر اسے وین کی شکل دی گئی تھی ، جو دور سے کسی درگاہ کے رنگ برنگے لیرو لیر جھنڈوں سے مزین کیکر کا درخت نظر آتی تھی ، جبکہ حرکت دینے کے لیے اس میں پیٹر انجن نصب تھا۔ وین پر ”فخر پاکستان‘‘ لکھا دیکھ پر ہم سے رہا نہ گیا اور ڈرائیور سے اس شرمناک لفظ بارے استفسار کیا تو اس نے پنجابی میں جو واہیات سا جواب دیااس کا نرم سے نرم اور شریفانہ ترجمہ یہ ہے کہ جب ہر ایرا غیرا ”محسن پاکستان ‘‘بن سکتا ہے تو میرا یہ چھکڑا ”فخر پاکستان‘‘ کیوں نہیں ہو سکتا؟

اس کا انتہائی ناقص موقف یہ تھا کہ قحط الرجال کے اس عالم میں اس کی یہ وین ہی اس ملک کا فخر ہے ،کوئی شخصیت تو ایسی رہی نہیں ، جس پر وطن کے باسی اِترا سکیں ۔

بشکریہ دنیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).