سستی اور معیاری ادویات: خیبر پختونخوا بمقابلہ پنجاب


2013 کے الیکشن کے فوراً بعد سے لے کر اب تک پنجاب اور خیبر پختونخوا کے مختلف منصوبوں کا موازنہ سیاسی فوائد کے حصول کی خاطر نہایت بے دردی سے جاری ہے۔ میٹرو بس کی قیمتوں، پولیس کے موازنے، وزراے اعلی ہاؤسز میں بسکٹوں کے خرچے وغیرہ سے ہوتے ہوئے یہ موازنہ ادویات کی قیمتوں تک آ پہنچا ہے۔

گزشتہ دنوں خیبر پختونخوا کے شعبہ صحت کے حکّام نے یہ دعویٰ کیا کہ انہوں نے پنجاب کے مقابلے میں 50 فیصد کم نرخ پر ادویات خریدی ہیں۔ عمران خان نے شفقت محمود کے ساتھ مل کر ایک دھواں دارپریس کانفرنس کر کے نیب سے اس سلسلے میں شہباز شریف کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا مطالبہ کیا اورقیمتوں کے موازنے کا ایک لسٹ میڈیا کے حوالے کیا۔ جس کے جواب میں پنجاب کے حکّام بھی خاموش نہ رہ سکے اور جوابی پریس کانفرنس کرتے ہوئے ایک اور لسٹ میدان میں لے آئے۔ اگلے دن خیبر پختونخوا کے صحت حکّام نے 95 ادویات کی ایک اور لسٹ سوشل میڈیا اور اخبارات کی نذر کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ انہوں نے میڈیسن کی خریداری میں پنجاب کے مقابلے میں ڈیڑھ ارب روپے کی بچت کی ہے۔ لیکن ادویات کی قیمتوں کا موازنہ کرنے کے لئے پہلے ادویات سے متعلق بنیادی چیزیں سمجھنا نہایت ضروری ہیں۔

کسی بھی نئی دوائی پر تحقیق کے پہلے مرحلے سے لے کر مارکیٹ میں لانچ ہونے تک اوسطاً بارہ سال کا طویل عرصہ لگتا ہے۔ اور اس پر اوسطاً ڈھائی ارب ڈالر کا خرچہ آتا ہے۔ لیبارٹری میں 10 ہزار مرکّبات کی ٹیسٹنگ سے شروع ہونے والا عمل صرف ایک دوائی کے مارکیٹ تک پہنچنے پر ختم ہوتا ہے۔ یہ ساری محنت اور پیسہ وہی کمپنی برداشت کرتی ہے جو یہ تحقیق کرتی ہے۔ اس کمپنی کے مستقبل کا دارومدار اس نئی دوائی (ریسرچ برانڈ) پر ہوتا ہے اسی لئے یہ نئی دوائی 20 سال تک (پیٹنٹ دورانیہ) کوئی اور کمپنی بغیر اجازت نہیں بنا سکتی۔ چونکہ کمپنیاں اپنا پیٹنٹ مارکیٹ میں لانے سے کئی سال پہلے رجسٹر کرتی ہیں اس لئے یہ دورانیہ اکثر سات سے بارہ سال تک محدود ہو جاتا ہے۔

اس دوائی سے ہونے والی آمدنی کمپنی کے لئے منافع اور نئی تحقیق کے لئے بجٹ فراہم کرتی ہے۔ پیٹنٹ کا دورانیہ ختم ہوتے ہی دوسری کمپنیاں (بالخصوص چھوٹی، مقامی اور تحقیق نہ کرنے والی کمپنیاں) یہ دوائی بنانے لگتی ہیں جس کو جینیرک (Generic) کہا جاتا ہے۔ قانونی طور پر جینیرک کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی افادیت، منفی اثرات، استعمال، فرماکوکنیٹکس (Pharmacokinetics) اور فارمکودینامک (Pharmacodynamics) میں ریسرچ برانڈ سے کم نہ ہو لیکن بدقسمتی سے یہ سارے پیمانے ماپنے کے لئے درکار سہولیات اور تحقیقی ماحول پاکستان کی تقریباً تمام مقامی کمپنیوں (ایک آدھ کو چھوڑ کر) کے پاس دستیاب نہیں ہیں۔

اس کے علاوہ ان میں سے اکثر کمپنیوں کے پاس اس دوائی سے متعلق اتنا تجربہ بھی نہیں ہوتا جتنا اس دوائی پر پچھلے 30 سال سے تحقیق کرنے والی بین الاقوامی کمپنیوں کے پاس ہوتا ہے۔ اس لئے ضروری نہیں ہے کہ اس دوائی کا معیاروہی ہو تو ریسرچ برانڈ کا ہوتا ہے۔ اسی بنیاد پر ان کمپنیوں اوراچھی شہرت کی حامل کمپنیوں کے ادویات کی قیمتوں میں نمایاں فرق ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہیے۔ اس لئے ان کی قیمتوں کا موازنہ تکنیکی طور پر غلط اورشدید نا انصافی ہے۔ اور اس کیمثال آپ یوں ہی سمجھ لیں جیسے کوئی اپنی مہران گاڑی کی قیمت کا موازنہ آپ کی بی ایم ڈبلیو (BMW)کی قیمت سے کرے اور یہ بھی کہے کہ چلتی تو دونوں ہی ہیں۔

چوںکہ صوبائی حکومتوں کو اپنے سارے ہسپتالوں کے ادویات کی ضروریات پوری کرنے کے لئے بہت بڑی مقدار میں ادویات خریدنی ہوتی ہیں اس لئے ساری کمپنیاں (بالخصوص مقامی کمپنیاں) پورا زور لگاتی ہیں کہ ان کے کچھ نہ کچھ ادویات بھی اس لسٹ میں شامل ہو جائیں خواہ اس کے لئے ان کو اپنی قیمتیں ناقابل یقین حد تک (no profit no loss) کیوں نا گرانی پڑیں کیونکہ اس سے نہ صرف ان کی دوائیاں ایک ساتھ بڑی مقدار میں فروخت ہوجاتی ہیں بلکہ ان کے غیر معروف پروڈکٹس اور کمپنی کا نام ہر تحصیل اور گاؤں کے کونے کونے تک پہنچ جاتا ہے جس سے باقی سیلز بھی بڑھ جاتی ہیں اور مارکیٹنگ کی مد میں ایک بہت بڑی رقم بھی بچ جاتی ہے۔ پاکستان کی میڈیسن مارکیٹ میں کچھ ایسی بھی کمپنیاں ہیں جو صرف پروموشنل پروڈکٹس (جن کو بازاری زبان میں بے جا طور پر OTC ادویات یا net products بھی کہا جاتا ہے) بیچتی ہیں۔ یہ وہ ادویات ہیں جن پر قیمت تو تین یا چار سو لکھی ہوتی ہے لیکن مارکیٹ میں 10 یا 15 روپے میں دستیاب ہوتی ہیں۔ ایسی ادویات کے معیار کے حوالے سے شکوک و شبہات کا پایا جانا ایک یقینی امر ہے۔

ادویات کی خریداری میں سب سے پہلی اور اہم چیز ان کی کوالٹی (یعنی افادیت اور مضراثرات سے محفوظ ہونا) ہے۔ دوسری اہم چیز ان کا کم قیمت ہونا ہے تا کہ حکومت اپنے بجٹ میں رہتے ہوئے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ادویات کی فراہمی یقینی بناسکے۔ اس مرحلے پر متعلقہ حکّام کی آزمائش ہی یہی ہوتی ہے کہ وہ کم قیمت پر بہترین کوالٹی کی میڈیسن (cost effective medicine) خرید کر عوام کو فراہم کریں۔ اور یہ اہتمام جان بچا نے والی ادویات (life saving medicine) میں انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ صرف کم قیمت ہونا کسی بھی طور سے ٹارگٹ نہی ہونا چاہیے۔ اس کی بہترین مثال 2012 میں پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیولوجی (PIC) میں ہونے والے دردناک واقعہ (جس میں 120 لوگ جان سے گئےتھے) ہے جس کی ذمہ داری ایک مقامی کمپنی کی دوا (Isotab) پر ڈالی گئی تھی جوکہ مفت فراہم کی گئی تھی۔

اب اپنے اصل مقصد یعنی پنجاب اور خیبر پختونخوا کے خریدی گئی ادویات کی قیمتوں کی طرف آتے ہیں۔ اس سلسلے میں سارے ڈیٹا تک راقم کی رسائی نہ ہونے کی وجہ سے صرف انہی لسٹوں پر انحصار کرنا پڑے گا جو ان صوبوں نے جاری کی ہیں۔ دونوں لسٹوں کو اگر درست مان کر مجموعی جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ جہاں جہاں موازنہ ممکن ہے وہاں پہ پنجاب کو کم قیمتیں ملی ہیں اور یہ بات قابل فہم بھی ہے کیونکہ بڑا صوبہ ہونے کی وجہ سے ان کی کھپت زیادہ ہے اورکمپنیاں ان چیزوں کو ذہن میں رکھ کر قیمتیں آفر کرتی ہیں۔ اگر کوالٹی کی بات کی جائے تو اس میں بھی پنجاب کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے کیونکہ مجموعی طور پر وہ 46 فیصد دوائیاں ملٹی نیشنل کمپنیوں سے خرید رہا ہے جبکہ خیبر پختونخوا صرف 9 فیصد ادویات ملٹی نیشنل کمپنیوں سے خریدے گا۔

اگرصرف پنجاب کی فراہم کردہ 38 دوائیوں کے لسٹ پر نظر دوڑائی جائے تو اس میں 20 ادویات ایسی ہیں جو دونوں صوبوں نے ایک ہی کمپنی یا سپلائر سے خریدی ہیں۔ ان سب میں پنجاب کو خیبر پختونخوا کی نسبت کم قیمتیں ملی ہیں۔ ان میں ملٹی نیشنل کمپنیوں سے پنجاب 16 اور خیبر پختونخوا 9 دوائیاں خرید رہا ہے۔ باقی ماندہ پروڈکٹس کی چونکہ کمپنیاں اور برانڈز مختلف ہیں اس لئے ان کی قیمتوں کا براہ راست موازنہ ممکن نہیں ہے۔ دونوں صوبوں نے جو دوائیاں مقامی کمپنیوں سے خریدی ہیں ان کی IMS رینکنگ اچھی ہے اور تقریباً ملتی جلتی ہے۔

اب اگر خیبر پختونخوا کی جاری کردہ 95 ادویات کے لسٹ پر نظر ڈالی جائے تو اس میں ایسی کوئی ایک دوائی بھی نہیں ہے جس میں دونوں صوبوں نے ایک ہی برانڈ خریدا ہو۔ جیسے پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ مختلف کمپنیوں سے خریدی گئی ادویات کا براہ راست موازنہ ممکن نہیں ہے لیکن یہاں ایک بات ضرور عیاں ہوتی ہے کہ ان 95 ادویات میں صرف 3 ادویات ایسی ہیں جوخیبر پختونخوا ملٹی نیشنل کمپنیوں سے خریدے گی اس کے مقابلے میں پنجاب کی 45 ادویات ایسی ہیں جوملٹی نیشنل کمپنیوں سے خریدی جائیں گی۔

اسی طرح خیبر پختونخواصرف ایک دوائی ایسی کمپنی سے خریدے گی جو گلوبل رینکنگ میں دنیا کی 50 بہترین کمپنیوں میں آتی ہوں جبکہ پنجاب ان 50 بہترین کمپنیوں سے 35 دوائیاں خریدے گا۔ اسی طرح مقامی کمپنیاں جن سے پختونخوا خریداری کرے گی میں صرف 26 ادویات کی کمپنیاں IMS رینکنگ کے مطابق سو بہترین کمپنیوں میں شمار ہوتی ہیں جبکہ پنجاب کی ایک آدھ کے علاوہ تقریباً ساری کمپنیاں سو بہترین کمپنیوں کی لسٹ میں موجود ہیں۔ ان 95 ادویات میں پنجاب کوئی بھی OTC دوائی نہیں خرید رہا جبکہ خیبر پختونخوا کئی ایک ایسی کمپنیوں سے دوائی خریدے گا جو پروموشنل بزنس کرتی ہیں یا کرتی آئی ہیں۔

مضمون کا بقیہ حصہ پڑھنے کے لئے “اگلا صفحہ” پر کلک کریں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2