گرینڈ ریٹرن مارچ اور اسرائیلی بربریت


تحریک آزادی فلسطین ایک نئے فیز میں میں داخل ہو چکی ہے یہ تو کسی صورت بھی نہیں کہا جا سکتا کے یہ فیصلہ کن موڑ ہے مگر اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ستر سال سے جاری اس تحریک کو اسرائیل اپنے تمام تر وسائل کے باوجود آج تک دبا نہیں پایا۔

فلسطین کی ستر سالہ تاریخ میں مغربی کنارہ ہو یا غزہ آزادی کے لئے کیے جانے والے ہر احتجاج کا جواب صرف گولی ہی ہوتا ہے اور فلسطینی یہ بات جانتے ہوئے بھی ہر بار ایک نئے جوش اور ولولے کے ساتھ تیار ہو کر اپنے گھروں سے احتجاج کے نکلتے ہیں۔

اسی طرح کا ایک تازہ واقعہ جمعہ کے روز پیش آیا جب غزہ (پورے عرب کا واحد شہر جہاں کے حکمرانوں پر اسرائیل کی مرضی نہیں چلتی ) ایک بار پھر خون میں نہلا دیا گیا۔ قابض اسرائیلی فوج نے غزہ کی اسرائیل کے ساتھ ملحقہ مشرقی سرحد پر پر امن مظاہرین پر اندھا دھند ڈائریکٹ گولیاں برسا کر انٹرنشنل میڈیا کے مطابق تقریباً 17 نوجوانوں جن میں بچے بھی شامل ہیں کو شہید کر دیا اور 1500 کے قریب عورتیں بچے بوڑھے اور مرد زخمی کر دیے۔

یہ تعداد مغربی اور امریکی میڈیا میں رپورٹ ہوئی جب کے الجزیرہ سمیت دیگر عرب اور فلسطینی اخبارات تیس سے چالیس تک کی تعداد رپورٹ کر رہے ہیں۔ جو کے زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے سچی معلوم ہوتی ہے۔ زخمیوں کی حالت بھی تشویشناک ہے یہاں یہ بیان کر دینا ضروری ہے کہ غزہ میں گولی سے زخمی ہونے والا انسان ساٹھ فیصد جان کی بازی پہلے ہی ہار چکا ہوتا ہے کیوں کے 11 سالہ جابرانہ محاصرے کی وجہ سے غزہ کا کوئی بھی ہسپتال اس قابل نہیں کہ اس طرح کے زخمیوں کا علاج کیا جا سکے نہ تو مناسب دوائیں
ہیں نہ ہی آپریشن کے مناسب انتظامات۔

1948 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد اقوام متحدہ کے مطابق تقریباً، 75500 فلسطینیوں کو ایک ہی جھٹکے میں اپنے آبائی علاقوں سے زبردستی بیدخل کر دیا گیا تھا جب کے فساد کے ان حالات سے متاثر ہو کر تقریباً 2 لکھ فلسطینیوں نے اپنے علاقوں سے ہجرت کی۔

جمعہ والا احتجاج بھی اسی تناظر میں تھا جس کو گرینڈ ریٹرن مارچ کا نام دیا گیا تھا۔ یہ مارچ کسی بھی طرح سے اسرائیل کی طرف چڑھائی نہیں تھی بلکہ غزہ میں قائم حماس کے حکومتی حکام نے مظاہرین کو پر امن رہنے کی تلقین پہلے سے ہی کی ہوئی تھی۔ مارچ کا اصل مقصد اسرائیلی سرحد سے دور ایک خاص مقام پر جمع ہو کر اسرائیل اور دنیا کو یہ یہ باور کرانا تھا کہ فلسطینی آج بھی اپنے علاقوں میں واپسی کہ اپنے قدیمی اور پیدائشی حق کو بھولے نہیں۔

ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اسرائیل نے اپنی سابقہ روایات پر عمل کرتے ہوئے پر امن شہریوں پر طاقت کا بے دریغ اور ظالمانہ استعمال کیا۔ اسرائیلی حکومت نے سو سے زائد نشانہ بازوں کو غزہ کی مشرقی سرحد پر دیکھتے ہی گولی مار دینے کے احکامات ساتھ تعینات کر دیا تھا۔ ظالم اسرائیلی حکومت اور فوج نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ نہتے غیر مسلح نوجوانوں بچوں عورتوں بوڑھوں پر توپ خانے اور ٹینکوں سے بھی گولے داغے۔

ہفتے کی شام اٹالین صحافی “ماریہ پاریستو “ جو کہ غزہ میں رپورٹنگ کا وسیح تجربہ رکھنے کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر آزاد فلسطین اور بائیکاٹ اسرائیل موومنٹ کی نہایت ایکٹو کارکن ہیں، سے تازہ صورتحال پر بات ہوئی جن کے مطابق مارچ کے شرکاہ کے مطالبات عالمی قوانین کے مطابق جائز تھے وہ اپنے گھروں کو واپس جانے کے اپنے حق کے لئے پر امن طور پر جمع ہوئے تھے
مارچ کے شرکاہ پر طاقت کا استعمال عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ مارچ کے منتظمین نے غزہ میں اقوام متحدہ کے مبصر کی توسط سے یہ ضمانت دے دی تھی کے مظاہرین سرحدی باڑ کے نزدیک نہیں جائیں گے اور اسرائیلی حکومت نے اس پر رضا مندی بھی ظاہر کر دی تھی پھر اس طرح کی حرکت پیغام ہے کہ اسرائیل مشرق وسطیٰ میں امن نہیں چاہتا۔ غزہ میں مقیم فلسطینی صحافی حسن شہاب کے مطابق اسرائیلی فوج کی طرف سے فائرنگ بلاجواز تھی مظاہرین سرحدی باڑ سے بہت پیچھے ایک کھلے گراؤنڈ میں جمع تھے۔ مظاہرین اس حد تک باڑ سے دور تھے کے اسرائیلی فوج نے سنائپر گنوں اور توپ خانے کا استعمال کیا یہنی نارمل گولی کی رینج وہاں تک نہیں تھی۔ گولیوں سے شہید اور زخمی ہونے والوں کو جب میڈیکل ٹیمیں ریسکیو کرنے پہنچی تو اسرائیلی فوج نے ان پر بھی شدید شیلنگ اور فائرنگ کی جس سے دو سو کے قریب پیرا میڈیکس کے لوگ زخمی ہو گئے۔

دنیا کے تمام بڑے اخبارات نے اسرائیلی ایکشن کو نہتے مظاہرین پر بربریت کہا۔ دوسری طرف اسرائیلی فوج اور حکومت اپنے اس عمل پر ذرا بھی شرمندہ نہیں بلکہ اسرائیلی فوج کے ٹویٹر اکاوئنٹ سے واقعہ کو بہادری کہا گیا۔ گو کے سوشل میڈیا پر سخت رد عمل کے بعد اس ٹویٹ کو ڈیلیٹ کر دیا گیا مگر اس سے اسرائیل کے عزائم واضح ہو گئے۔ پوری دنیا میں عوام کی طرف سے اس واقعہ کی مذمت کی جا رہی ہے۔ گزشتہ روز یورپ اور امریکہ میں اسرائیلی بربریت کے خلاف بڑے مظاہرے کیے گئے مگر اقتدار کے ایوانوں میں پہلے کی طرح پھر خاموشی ہی ہے۔

دنیا کی سیاست میں یہ واقعہ حالات کو کس طرف لے کر جاتا ہے میں نہیں جانتا مگر جتنا میں غزہ کے لوگوں کو جانتا ہوں اس کو سامنے رکھ کر میں اتنا ضرور کہ سکتا ہوں کے غزہ کے مکین اس واقعہ کے بعد مزید سخت ہو کر آزادی کی جنگ لڑیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).