بلوچستان میں نئی حکمت عملی کا استعمال


قرآن کی آیت ہے جس کا مطلب سیدھا سادہ ہے کہ اللہ کے آگے جھکو (عبادت کرو ) اور طاغوت ( طاغوتی قوتوں ) سے اجتناب کرو (بچو )۔ قرآن کی ایک اور آیت ہے کہ: وہ (اللہ) جس کو چاہے عزت دے، جس کو چاہے ذلیل کر دے، اسی میں خیر ہے۔

مولانا امین احسن اصلاحی کے مطابق طاغوت ان تمام مقتدر افراد اور قوتوں کو کہا جاتا ہے جو انسانوں کو کسی نہ کسی طریقے سے اپنے آگے جھکنے پر مجبور یا راغب کرتی ہیں۔ ان قوتوں میں انتہائی باثروت با اثر افراد بھی ہوں گے، جاگیردار وڈیرے بھی ہوں گے، تھانیدار، پٹواری، تحصیلدار بھی ہوں گے، غنڈے اور بدمعاش بھی ہوں گے، جابر و قاہر بھی ہوں گے، حاکم و حکام بھی ہوں گے، عساکر بھی ہوں گے اور احباب اجبار بھی۔ ایسے افراد، ادارے، قوتیں کسی نہ کسی شکل میں دنیا کے ہر ملک میں موجود ہیں جن میں سے کچھ اپنے ملکوں سے ہٹ کر اپنی ”خدائی“ منوانے کا جتن کرتے ہیں اور کچھ اپنے ملکوں میں ہی طاغوت بنے بیٹھے ہوتے ہیں۔

ہمیں ان ملکوں سے کوئی غرض ہے ہی نہیں جہاں کے باسی قرآن کو الہامی کتاب نہیں مانتے اور قرآن کے کہے پر عمل کرنے کو اہمیت ہی نہیں دیتے لیکن ایسے ملکوں میں جہاں نہ صرف اکثریت مسلمانوں کی ہے بلکہ حاکم و حکام بھی مسلمان ہیں وہاں طاغوت سے بچنا ہی اہم نہیں بلکہ اس کی مخالفت میں ڈٹ جانا ہھی اہل ایمان کا شیوہ قرار پاتا ہے۔ یہ درست ہے کہ ایسا کرنے والوں کو باغی، منکر، متکبر، مجرم بلکہ غدار تک قرار دے دیا جاتا ہے، جس کے سبب لوگ مزید ڈر جاتے ہیں یوں ایسے افراد کی تعداد کم ہوتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسے جری اور با ایمان لوگوں میں بیشتر افراد کسی الوہی طاقت پر یقین رکھے بغیر طاغوت کی جانب سے طاغوتی فیصلوں کو طاغوت کی مرضی سے لوگوں پر مڑھے جانے کے مخالف ہوتے ہیں۔

ایسے لوگوں کو مسلسل نوابزادہ نصراللہ خان، جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ مقتدر قوت کے ہر عمل کی مخالفت کرتے تھے، بنے رہنے سے اغماض برتنے کی تلقین بھی کی جاتی ہے مگر وہ نہی عن المنکر پر قائم رہتے ہیں۔

میرے وطن میں ہئیت مقتدرہ کے کھیلوں سے کون شناسا نہیں ہے جو جس کو چاہے معزز بنا دے جس کو چاہے راندہ درگاہ قرار دے ڈالے، اس کی حالیہ مثال ایم کیو ایم کے الطاف حسین ہیں۔ ہئیت مقتدرہ کو سیاستدانوں سے ہمیشہ خدا واسطے کا بیر رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ بقول کسے کچھ سیاستدانوں کی ایک خاص نرسری میں پنیری لگائی جاتی ہے پھر انہیں عوام کی زمین میں پروان چڑھایا جاتا ہے۔ جب ایسے شجر کے اپنی شاخیں مضبوط ہونے لگیں اور پات زیادہ ہو جائیں تو اسے یا تو چھانگ دیا جاتا ہے یا زمین سے ہی اکھاڑ دیا جاتا ہے۔

بلوچستان ایک ایسا صوبہ ہے جہاں کہنے کو معدنیات کے ڈھیروں ڈھیر ہیں۔ رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے آبادی اگرچہ باقی صوبوں کی نسبت بہت ہی کم ہے تقریباً سوا کروڑ افراد۔ شورشوں کے حوالے سے یہ پاکستان کا واحد صوبہ ہے جہاں مقامی لوگوں نے سب سے زیادہ شورشیں کیں جو مسلح بغاوتوں میں بھی تبدیل ہوئیں جن کا بزور قوت قلع قمع کرنا پڑا تھا۔

شاید ہئیت مقتدرہ کی روش تبدیل ہو گئی ہے یا اسے تبدیل کرنی پڑی ہے کیونکہ معاملہ سی پیک کا ہے جو بھی ہو بلوچستان کی سیاست کو آگے لانے کی سعی کی جانے لگی ہے۔ ملک سے باہر بلوچوں کو متحد کرنے کی سعی میں ہئیت مقتدرہ براہ راست شریک دکھائی دیتی ہے جبکہ ملک کے اندر اس میں سیاسی قوتوں کی کشاکش کو اس تبدیلی کا انجن ظاہر کیا جا رہا ہے۔ بلوچستان میں بہت کم ووٹوں سے منتخب ہونے والے نوجوان سیاستدان کو بلوچستان کا وزیر اعلٰی بنایا جانا، سینیٹ کا چیئرمین بلوچستان کے سینیٹر کو منتخب کرایا جانا، نئی ”بلوچستان عوامی پارٹی“ کو لانچ کرنا، ماسکو میں ہمارے دوست ڈاکٹر جمعہ خان مری کو آگے کیا جانا، ان کی جانب سے ” او پی بی یو ” آؤٹ آف پاکستان بلوچ یونٹی نام کی تنظیم کا اعلان کیا جانا، جس میں بلوچ یونٹی کو بڑھانے کی غرض سے خیبر پختونخواہ کے لیے ایک پختون کو اور پنجاب کے لیے ایک پنجابی کو نجانے کیوں کو آرڈی نیٹر مقرر کیا گیا ہے، شاید سردار جمعہ خان مری کی کوئی مصلحت ہو۔

اس کے علاوہ اب بلوچستان کے ایک وزیر جام کمال نے ن لیگ سے استعفٰی دے دیا ہے اور یقیناً حکومتی پارٹی سے یہ پہلے بلوچ سیاستدان کا استعفٰی نہیں ہوگا کیونکہ یہ بھی کہا جانے لگا ہے کہ آئندہ وزیر اعظم بھی بلوچستان سے منتخب کروایا جائے گا۔ منطق یہ ہے کہ جس طرح سینیٹ میں چیئرمین بنائے جانے پر آصف علی زرداری کی پیپلز پارٹی اور عمران خان کی تحریک انصاف مان گئیں اسی طرح وزیر اعظم بھی بلوچستان سے لائے جانے پر مان جائیں گی۔ لگتا تو نہیں مگر شاید۔

بلوچستان کی اتنی کم آبادی کو بلوچستان سے حاصل ہونے والی آمدنی کے کچھ فیصد سے ہی خوشحال بنایا جا سکتا ہے البتہ اگر مقتدر قوتیں ایسا کرنا چاہیں تو۔ معتدل مزاج بلوچ سیاستدانوں کو موثر عہدے دلوائے جانے سے اگر بلوچستان کے عوام کی قسمت بدل سکتی ہے، شورشوں کا خاتمہ ہو سکتا ہے تو شاید کسی کو بھی اعتراض نہ ہو۔ پانچ سال کے لیے وزیراعظم بننے کے دیگر خواہش مند بھی صبر کر لیں لیکن ایسا کرنے سے جمہوری عمل ضرور متاثر ہوگا۔ ملک کی بڑی سیاسی قوتوں کو مصلحتاً پیچھے کیا جائے گا۔ برسراقتدار آنے والے صرف بلوچستان کے معاملات میں ہی نہیں بلکہ ملک بھر کے معاملات میں محض ”یس مین“ ہوں گے یعنی طاغوت کے آگے جھکے ہوئے۔

لیپا پوتی سے آتش فشاں کے دہانے سے اٹھتا دھواں عارضی طور پر تو دکھائی دینے سے روکا جا سکتا ہے مگر جب اندر بہت دھواں اکٹھا ہو جائے تو وہ دباؤ کی وجہ سے بالآخر لاوے کو بھی ساتھ لے کر ہی نکلے گا چنانچہ بلوچستان کو آگے کرنے میں اتنی ”پھرتیاں ” دکھانے سے اگر گریز کیا جائے تو یہ پاکستان کے سارے عوام کے لیے اچھا ہوگا۔ مگر کیا کیا جائے کہ پاکستان کی ہئیت مقتدرہ صرف اپنے مقصد اور مفاد کو ہی پیش نگاہ رکھتی ہے اور اختلاف کرنے والوں کو باغی، غدار، اچھوت سمجھتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).