پختون قوم سکندر اعظم سے منظور پشتین تک


پختون حریت پسند قوم ہیں۔ ان سے دشمنی کی جائے تو صدیوں لڑنے کو تیار ہو جاتے ہیں، ان سے دوستی کی جائے تو جان سمیت اپنی ہر شے آپ کی نذر کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔ ان  نے مزاج کا اندازہ ایک بار بار دہرائے جانے والے قول سے کیا جا سکتا ہے جو کچھ یوں ہے کہ ”زور زبردستی سے تم مجھے جنت میں نہیں لے جا سکتے پیار محبت سے دوزخ چلا جاؤں گا“۔ تاریخ بتاتی ہے کہ طاقتوروں نے ان کے علاقے پر وقتی طور پر قبضہ تو کیا ہے لیکن ایسا اقتدار جس میں یہ خود اپنی رضا سے شامل نہ ہوں، ان کے سروں پر زیادہ عرصے قائم نہیں رہ سکتا ہے۔ سید احمد شہید جیسے نیک شخص کو انہوں نے اس زور زبردستی والے معاملے پر معاف نہیں کیا تھا۔ جب یہ دشمنی محسوس کریں اور لڑنے پر آئیں تو پھر یہ نہیں دیکھتے کہ مقابل کتنا بڑا فاتح یا کتنی بڑی سپر پاور ہے۔

سکندر اعظم دنیا کے مشہور ترین فاتحین میں سے ہے۔ جب وہ ایران، مصر، بابل اور باختر کو فتح کرنے کے بعد برصغیر میں داخل ہوا تو اس کا واسطہ پختونوں سے پڑا۔ قدیم تاریخ دان بتاتے ہیں کہ جب سکندر اعظم سوات کے راستے برصغیر آیا تو اس کا سامنا ایک ایسی قوم سے ہوا جسے مغربی تاریخ دان اساکینوئی کہتے ہیں۔ گمان ہے کہ یہ ایسپ زئی قبائل تھے۔

سکندر کے دنیا فتح کرنے والے جرنیل سوات میں مساگا کے قلعے کو فتح کرنے میں ناکام رہے تو سکندر کو فوج کی کمان خود اپنے ہاتھ میں لینے پر مجبور ہونا پڑا۔ سکندر حملہ کرتے ہوئے خود پیر پر ایک گہرا زخم کھا بیٹھا۔ روایت ہے کہ اس زخم کو دیکھ کر وہ حیران ہوا کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ وہ زیوس دیوتا کا بیٹا ہے اور فانی انسانوں جیسا نہیں ہے۔ اس جنگ میں کئی دن تک دونوں فریقین کا خوب جانی نقصان ہوا۔ جنگ کے چوتھے دن اساکینوئی کا بادشاہ اساکینوس ایک مقدونوی منجنیق سے پھینکے گئے پتھر کا نشانہ بن کر مارا گیا۔

اس کی ماں کلوئفس نے فوج کی کمان اپنے ہاتھ میں لے لی اور جیداری سے لڑی۔ شہر بھر کی عورتیں اسے دیکھ کر خود بھی میدان جنگ میں لڑنے پہنچ گئیں۔ دونوں اطراف کے بھاری جانی نقصان کے بعد سکندر اعظم نے صلح کی بات چیت شروع کی۔ معاہدے کے تحت سکندر نے قلعے کے بدلے اسکینوئی قوم کو امن سے باہر جانے کا حق دیا۔ اسکینوئی قلعہ خالی کر کے جانے لگے۔ وہ کچھ دور ہی پہنچے تھے کہ سکندر نے وعدہ خلافی کرتے ہوئے ان پر عقب سے اچانک حملہ کر دیا۔

قدیم یونانی مورخ دیودورس اس معرکے کا مفصل حال لکھتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ”اسکندر کے اس مکارانہ حملے کا اسکینوئی نے بہادری سے سامنا کیا۔ یقینی موت سامنے دیکھتے ہوئے بھی وہ دائرے کی صورت میں کھڑے ہو گئے جس کے درمیان میں انہوں نے اپنی عورتوں اور بچوں کو رکھا۔ وہ اس جیداری سے لڑے کہ سکندر کی فوج ہکا بکا رہ گئی۔ جب بہت سے مرد زخموں سے چور ہو گئے یا مارے گئے تو ان کی جگہ لینے کو ان کی عورتیں آ گئیں۔ ان میں سے کچھ اپنے زخمی مردوں کو دشمنوں سے بچانے لگیں اور کچھ اپنے گرے ہوئے مردوں کے ہتھیار اٹھا کر دشمنوں سے لڑنے لگیں۔ آخر کار وہ سب مارے گئے۔ انہوں نے موت کو بے عزتی پر ترجیح دی“۔

سکندر کو اسکینوئی پر اس قدر جھنجھلاہٹ تھی کہ اس نے نہ صرف تمام آبادی کو قتل کر دیا، بلکہ قلعے کی تمام عمارات کو زمین بوس کر دیا۔ اس وعدہ خلافی کے ذریعے حاصل ہونے والی کو سکندر اعظم کے اوپر ایک شرمناک داغ سمجھا جاتا ہے اور یہ اس کی واحد فتح ہے جو اس نے عہد شکنی اور دھوکے سے حاصل کی۔

پختونوں کی یہی کہانی ہم بعد میں بھی دیکھتے رہے ہیں۔ خواہ منگول فاتحین ہوں، مغل، برطانوی، سوویت یا امریکی، وہ قوت کے بل پر وقتی فتح حاصل کر لیتے ہیں۔ لیکن وہ اگر پختونوں کے ساتھ عزت کا برتاؤ نہ کریں تو بغاوت ہو کر رہتی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ عزت یا موت کا معاملہ آئے تو پختون زندگی کی پروا نہیں کرتے خواہ مقابل کیسا بھی طاقتور ہو۔

اس تناظر میں اگر ہم حالیہ تاریخ کو دیکھیں تو جس طرح پختون بے گھر ہو کر دربدر پھر رہے ہیں اور پھر بھی پاکستان کی محبت میں سرشار ہیں، ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیے۔ منظور پشتین کی قیادت میں پختون تحفظ موومنٹ کے مطالبات سادہ سے ہیں جو مانے جانے چاہئیں۔

وہ اپنے مقتول کا انصاف مانگ رہے ہیں کہ نقیب محسود کے قاتلوں کو حکومت سزا دے۔ جعلی پولیس مقابلے کرنے والوں کو وہ سزا دلوانا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے گھروں کے ارد گرد بارودی سرنگوں کا خاتمہ چاہتے ہیں جو کسی بھی وقت کسی بڑے یا بچے کے چیتھڑے اڑا دیتی ہیں، وہ کسی ناخوشگوار واقعے کے بعد کے کرفیو کا خاتمہ چاہتے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ ان کی تذلیل نہ کی جائے۔ لاپتہ افراد کو وہ عدالتوں میں پیش کرنے کا کہتے ہیں تاکہ وہ مجرم ہیں تو وہ ملکی قانون کے تحت سزا پائیں ورنہ گھروں کو لوٹیں۔

کیا یہ ناجائز مطالبات ہیں؟ اگر یہ مطالبات پورے نہ کیے گئے تو حالات قابو سے باہر ہو سکتے ہیں۔ پختون وہ قوم ہے جو کہتی ہے کہ ”زور زبردستی سے تم مجھے جنت میں نہیں لے جا سکتے پیار محبت سے دوزخ چلا جاؤں گا“۔ ان سے پیار محبت کا برتاؤ کر کے ان کو ان کے گھروں کی جنت میں واپس جانے کا موقعہ دیا جائے جہاں وہ عزت اور امن سے رہ سکیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar