ایک مولوی صاحب کا خاکہ


 جب تقسیم کے ہنگاموں سے دریا کے کنارے ہنستا بستا شاکر خان تتاری کا کوٹ اُجڑ کر، بلکہ سُکڑ کر ایک چھوٹا سا قصبہ ہی رہ گیا تو کئی لوگوں نے اس کے مضافات سے رہائش ترک کر دی۔ بستی دولت رام اس قصبے کا سب سے متاثرہ حصہ تھی۔ دادا مرحوم نے یہاں سے چند کلومیٹر مغرب کی جانب ریگستان میں آ کر سکونت اختیار کر لی جہاں کی ڈھلوان کے ساتھ بہت زرخیز زرعی زمین تھی۔ یہاں اُن کے ہمراہ ایک اور خاندان بھی آیا۔ اُس خاندان میں سالانہ شرحِ پیدائش کی شاندار صلاحیتوں نے جہاں اس ویرانے کو جلد ہی ایک بستی کی صورت دے دی تو وہاں اسی خانوادے نے گاؤں کی پہلی مسجد کی بُنیاد بھی رکھی۔ “مسجدِ شیرِ خُدا” کو ان پڑھ لوگ اپنی آسانی کے لئے اس کے بانی کے نام پر “شیرے قصائی دی مسیت” بھی کہا کرتے تھے۔ میری رسمی تعلیم کا آغاز یہیں سے ہوا۔ شیر محمد قصائی مرحوم کی تمام اولاد اُنہی کی طرح بہت خوش عقیدہ سُنی تھی اور مسجد کو آباد رکھنے میں ہمیشہ بہت مخلص رہی۔

نصف صدی کے گُذرنے میں جب یہ بستی کافی بڑا گاؤں بن گئی تو سڑک پار ایک جامع مسجد اور مدرسہ اہل سُنت قائم کیا گیا۔ شیرے قصائی والی مسجد میں پڑھنے والے بچے اُس مدرسے میں منتقل ہو گئے لیکن اس مسجد کو اس کے اولین امام صوفی احمد دین نے تاحین حیات آباد رکھا۔

مولوی عارف اللہ عارف انہی دنوں میں جامع مسجد و مدرسہ منسلکہ کے اُستاذ اور امام بن کر آئے۔ آپ کا پسِ منظر اتنا ہی معلوم ہے کہ مرحوم شیرے قصائی کے دُور پار کے رشتے داروں میں سے تھے اور کسی معمولی سے مدرسے سے فارغ التحصیل تھے۔ جوان آدمی تھے لیکن ڈاڑھی اور توند کا حجم عمر رسیدہ، جید مولویوں کا سا پایا تھا۔ بلاشبہ اس ہیئت کی وجہ سے بھی اُنہیں گاؤں میں اپنا سکہ بٹھانے میں کافی آسانی ہوئی۔ بھاری بھرکم ڈاڑھی اور توند مولوی کے معتبر ہونے کی علامت ہے اور یہ بات میں اپنے گاؤں کے لوگوں کے معیارات کو سامنے رکھ کر پوری سنجیدگی سے کہہ رہا ہوں، اس سے مقصد مولوی عارف اللہ عارف صاحب کا مضحکہ اُڑانا ہرگز نہیں۔ لاریب کہ مولوی صاحب موصوف کا احترام بلا تخصیصِ مسلک، تمام گاؤں والے کرتے تھے۔

عربی قرات خوب کرتے تھے لیکن فارسی سے کافی حد تک نابلد تھے، یا کم از کم ہمارا یہ اندازہ ہے۔ دین اور فقہہ کا مطا لعہ بنظرِ غائر کر رکھا تھا لیکن چہرے مہرے سے گاودی مُلا لگتے تھے۔ گھنی بکھری ہوئی ڈاڑھی، بڑا سا دہانہ اور چھوٹی چھوٹی آنکھیں جس کی وجہ سے سنجیدہ بزرگوں میں تو آپ روایتی ‘مولویانہ’ فیشن کی شخصیت لگتے تھے لیکن ہم نو عمر لونڈوں کے نزدیک آپ کوئی فکاہیہ کردار تھے۔ ہم نے بچوں کے ایک رسالے میں ملا نصیرالدین کے کچھ کارٹون دیکھے تھے جن کی رو سے دُنیا میں مُلا نصیرالدین کا واحد ہم شکل مولوی عارف اللہ ہی تھے۔ حقیقی زندگی میں وہ کوئی فکاہیہ کردار ہرگز نہ تھے لیکن ہنسے ہنسانے کو گناہِ کبیرہ بھی نہ سمجھتے تھے۔ اچھا اخلاق پایا تھا، اگرچہ بات کرنے کے انداز سے سنگ و خشت قسم کے عالمِ دین لگتے تھے، غُصے میں مخلف مسلک پر برستے بھی تھے لیکن تب تکفیر کا کلچر عام تھا نہ آپ اس کے قائل تھے۔

عربی ادب سے بھی دلچسپی تھی اور معلقات کی توضیح پر عبور رکھتے تھے۔ اُنہوں نے تمام مسالک اور مکاتیبِ فکر کا مطالعہ بالالتزام کیا تھا۔ مخلاف مسلک کی کتب گاؤں کے واحد کتب خانے یعنی ابا جان کے ذخیرہ کتب سے لیتے تھے اور ان پر ابا جان سے بڑے دوستانہ ماحول میں بحث و تمحیص بھی کرتے۔ آپ کے اکثر شاگرد آپ کے مُرید بھی تھے کیونکہ آپ نے تعویذ اور ‘دم درود’ کا ہُنر بھی پایا تھا۔ سر درد کا ‘دم’ ذود اثر ہوتا تھا۔

پاؤں کے تلووں کی ایک بیماری ہے چنبل، اکثر تھل باسیوں کے ننگے پاوں چلنے کی عادت کی وجہ سے لاحق ہو جاتی تھی۔ مولوی عارف اللہ عارف اس کے لئے سرسوں کے تیل پر دم پڑھ کر دیتے تھے جو کہ چہار دانگ میں مشہور تھا۔ ایک دفعہ باورچی صدیق قصائی کی دُکان کے تختے پر بیٹھے چاول تناول فرما رہے تھے جو کہ آپ کا پسندیدہ مشغلہ تھا، ایک دیہاتی سرسوں کے تیل کی بوتل لے کر آیا، “اُستاد جی،گھر میں پاوں چٹخ گیا ہے، ذرا تیل تو دم کر دیں”، دیہاتی کی استدعا پر چاول کی پلیٹ ایک طرف رکھی، تیل کی بوتل کا ڈھکن کھولا اور زیرِ لب کچھ پڑھنا شروع کردیا۔ آپ کی ڈاڑھی کافی دیر تک ہونٹوں کی خموش جنبش سے تھرتھراتی رہی، پھر آپ نے “شُوں شُوں” اور “پُھوں پُھوں” کی آواز سے بوتل میں پھونک ماری، اور ساتھ ہی “تُھوں تُھوں” کی آواز کے ساتھ تھوڑا سا لعاب شریف بھی بوتل میں تھوک دیا۔ ہم پاس بیٹھے تھے، باچھیں کھِلا کر ہنس دیئے۔ بڑے بھیا، جو اُن کے قریب تر کھڑے تھے، کہنے لگے، “اُستاد جی، پُھونک تو ٹھیک ہے، بوتل میں تھُوکتے کیوں ہیں؟” آپ نے سنجیدگی سے بھیا کی طرف دیکھا اور بڑے تقدس مآب انداز میں بولے؛ “تُھوک کی اپنی تاثیر ہوتی ہے بچے!”

دادا مرحوم جو کہ علاقے میں ایک موقر عالمِ دین اور مناظر تھے، فوت ہوئے تو ایک بڑی تعداد نے جنازے میں شرکت کی۔ جب امام باڑے میں اُن کی نمازِ جنازہ ہو چکی تو مدرسے کی جانب سے مولوی عارف اللہ عارف نے بھی نمازِ جنازہ پڑھائی اور تمام اہلِ تسنن نے ان کی اقتدا کی۔

انہی دنوں علاقے کے تتاری بلوچوں نے ہمارے بزرگوں کے ساتھ مل بیٹھ کر فیصلہ کیا کہ گاؤں میں اپنے مسلک کی مسجد بھی آباد کی جائے اور اس کے لئے ایک مولوی صاحب کا بندوبست بھی کیا جائے۔ عمل درآمد ہوا تو کسی بڑے مدرسے کے فارغ التحصیل ایک چھوٹے سے، بُوم نُما مولوی جی “ہماری” مسجد کو بھی آباد کرنے آ گئے۔

آپ کا نام تو آغا غلام الحسنین جواہری تھا لیکن بلوچوں کے لڑکوں نے کچھ اپنی آسانی کے لئے، کچھ آپ کی ہیئت کو مد نظر رکھ کر آپ کا نام مولبی چُونڈی (اُردو ترجمہ: مُلا چُٹکی) رکھ دیا۔ اب ایک بٹوارے کی سی صورتِ حال پیدا ہو گئی۔ کچھ گھرانوں کے بچوں نے مولوی عارف صاحب کا مدرسہ چھوڑ کر مُلا چُٹکی کے پاس پڑھنا شروع کر دیا۔ ہمارا ایک خوش اندام دوست جس کی گداز رانوں پر ہاتھ پھیر کر اکثر مولوی عارف اُس کے حُسن (اور حُسنِ قرات) کی داد دیتے تھے، اس بٹوارے میں مولوی عارف صاحب کے حصے میں ہی آیا جس کا ہمیں سخت غم و غُصہ تھا۔ اگرچہ مُلا چُٹکی اور مولوی عارف کے درمیان باہمی احترام اور رواداری کا تعلق قائم ہوا اور گاؤں میں کسی قسم کی تفریق کو ہوا نہ ملی، ہم اس بٹوارے پر سخت ناخوش تھے۔ ہم نے ایک دفعہ اپنے اُس دوست کو مُلا چُٹکی کے درس میں آنے کی دعوت دی تو وہ آ گیا۔ مُلا چُٹکی اُسے دیکھتے ہی حافظؔ شیرازی کے اس شعر کی مجسم تشریح بن گئے:

 بہ مکتب می رَوَد طفلِ پری ذاد

مبارک باد مرگِ نَو بہ اُستاد

اُنہوں بھی اُس پر کمال شفقت کی۔ اگلے روز ہمارے اُس دوست کی، بوجہ غیر حاضری مولوی عارف اللہ عارف نے خوب درگت بنائی۔ ہمیں پتہ چلا تو ہم نے انتقامی کارروائی کا سوچا۔ منصوبہ بن گیا۔ بڑے بھائی صاحب قبلہ جو دسویں کے طالب علم تھے اور ہماری کسی حرام توپ حرکت میں شریک یا ہمراز نہ ہوتے تھے، اس منصوبے میں رضاکارانہ طور پر ہمارے ساتھ ہو لئے۔ اُسی شام ہم چند کوئلے اُٹھائے، مسجد و مدرسہ منسلکہ کے عقب میں جا پہنچے۔ بڑے بھیا نے ٹھیکری پہرہ لگایا، میں نے محرابِ مسجد پر کوئلے سے مُلا نصیرالدین یعنی مولوی عارف اللہ عارف کا کارٹون بنایا اور اسد نے اپنی خوش خط لکھائی میں سُرخی دی “مولوی عارف اللہ ٹوکرا”۔۔۔ پھر ایک ہی اشارے سے ہم بھاگ نکلے۔

رات تو خیر سے گُذر گئی۔ جب اگلے روز ظہر کی نماز سے قبل مدرسے کے بچے حوائج ضروریہ و طہارت کے لئے عقبی ٹیلوں اور کیکر کے جھُنڈوں کی طرف گئے تو اُنہوں نے محراب پر ہمارے مزاحمتی آرٹ کا نمونہ دیکھا تو بھاگم بھاگ مولوی عارف اللہ صاحب کے پاس آئے۔

اسی شام مولوی صاحب کو اپنے ڈیرے پر بیٹھا دیکھ کر ہمارا ماتھا ٹھنکا۔ مولوی صاحب ابا حضور سے باتیں کر رہے تھے، درمیان میں تفسیر کی کوئی کتاب کُھلی تھی۔ اسی اثناء میں ہمارا بُلاوا آ گیا۔ بڑے بھائی صاحب تو فوراََ درانتی اُٹھا کر چارہ کاٹنے کے بہانے کھسک گئے، میری اور اسد کی پیشی ہوئی۔ مولوی صاحب کے لبوں پہ مسکراہٹ تھی، ابا جان کے ہونٹوں پر تند و ترش سوالات تھے۔اب کے بر عکس بچپن میں اسد کو ہمیشہ سچ بولنے کی عادت تھی، اُس نے فوراََ اقبالِ جرم کر لیا۔ چھوٹے چچا نے ہم دونوں کو گدی پر ایک ایک زناٹے دار تھپڑ رسید کیا تو مولوی عارف صاحب نے ناگواری سے اُن کا ہاتھ روک لیا اور اُنہیں سختی کرنے سے منع کیا۔ ہمیں بہت شفقت سے سمجھایا کہ مسجد کا تقدس بہت مقدم ہے، اس کی دیواروں پہ خاکے بنانا بُری بات ہے۔ پھر ابا نے ایک نوحہ خوان کو ہمارے ہمراہ بھیجا کہ مسجد اہل سُنت کی محراب کو اچھی طرح صاف کر کے ہی واپس آئیں۔ نقش گہرے تھے، بیچارہ جعفر ماچھی رات گئے تک محراب پہ سر پٹختا رہا۔

مُلا چُٹکی یہاں زیادہ عرصہ نہ رہ سکے، اور اُن کے بعد ایک دو اور مولوی بھی اس مسجد کی خدمت میں رہے لیکن مولوی عارف اللہ عارف گاؤں کے سماجی حلقے میں ایک ہر دل عزیز شخصیت کے طور پر مقبول رہے۔

یہ سال ایک کرکٹ ورلڈ کپ کے جوش و خروش کا سال تھا اور کرکٹ کا شوق اور حُبُ الوطنی ہمارے دیہات میں بھی عروج پر تھی۔ گاؤں میں مولوی عارف صاحب کے کرکٹر بننے کے شوق کا خوب شہرہ ہوا۔ مدرسے کے طلباء کو اور کیا چاہیے تھا، بڑے خوش ہوئے اور فوراََ کرکٹ ٹیم بنا لی۔ آپ کا کھیل دیکھنے لوگ بصد شوق آتے تھے اگرچہ آپ وکٹ پر ایک گیند سے زیادہ نہ ٹھہر پاتے تھے۔ کچھ معاصر مُلاوں نے اس شنیع و قبیح حرکت پر مولوی عارف صاحب کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا لیکن صدا بصحرا۔۔۔ آپ کے اچھے کرکٹر بننے کی راہ میں آپ خود ایک سدِ راہ تھے، بلکہ ایسی چٹان بن گئے تھے جو بلا شبہ بہت بھاری بھرکم تھی اور کرکٹ کے میدان میں نہ لُڑھک سکی لیکن ہم جانتے تھے کہ مولویوں میں آپ چٹان نہیں بلکہ سدِ سکندری تھے جنہوں نے نفرت اور انتہا پسندی سے مُلاوں کے لشکر یاجوج ماجوج کو روک رکھا تھا۔ اُن سے تلمذ حاصل کرنے والے اُن کے شاگرد آج کل معمولی پیشوں یا مساجد میں معمولی خدمات سے کسبِ معاش کر رہے ہیں اور آج بھی بہت روادار اور متوازن رویوں کے لوگ ہیں۔

 1998 کا سال تھا غالباَ، یا پھر 99 کا، لیکن تھا موسمِ گرما، جب ایک چلچلاتی دوپہر کو مولوی عارف اللہ عارف صاحب کسی دوسرے گاؤں سے آ رہے تھے تو راہ میں ایک گدھا گاڑی والے نے اُنہیں احتراماََ سواری کی پیشکش کی، آپ شُکریے کے ساتھ سوار ہو لئے۔ گدھا گاڑی یہاں پہنچی تو بستی کے مرکزی تراہے کی چڑھائی چڑھتے ہوئےناتواں گدھے کو کافی زور لگانا پڑ رہا تھا۔ مولوی عارف اللہ عارف ‘ریڑھی’ پر چاروں شانے چِت لیٹے تھے، بازو پھیلے ہوئے اور ٹانگیں پسارے ہوئے۔ گاڑی بان گدھے کو بے دردی سے پِیٹ رہا تھا۔ دُکانوں، چھابڑیوں اور ریڑھیوں والے متوجہ ہوئے۔ ایک قہقہہ بُلند ہوا۔ ایک ناتواں گدھے کی بے بسی اور مولوی صاحب کے لیٹنے کا انداز، نادر سا منظر تھا۔ کچھ دیر تک پھبتیاں اور جُملے داغے جاتے رہے جن میں بد تمیزی کا تو نہیں، ٹھٹھے مخول کا عنصر ضرور تھا لیکن پھر اچانک تراہے میں خاموشی چھا گئی۔ گدھا رُک گیا تھا، لوگ بھاگے چلے آئے۔ تختے پہ لیٹے مولوی عارف اللہ عارف صاحب کا جسم اس سخت گرمی میں ٹھنڈا پڑا چکا تھا۔ سب آنکھیں تر ہو گئیں، رنگین چارپائی منگوائی گئی۔ عالمِ دین اپنی آخری سواری سے اُتارے گئے اور اسی رات آہوں، سسکیوں اور آنسووں کے ساتھ، جن میں ہر مسلک والوں کے آنسو اور سسکیاں تھیں، آنسووں اور سسکیوں کا کوئی مسلک، کوئی مذہب نہیں ہوتا، مدرسے کے پہلو والے قبرستان میں دفن کر دیئے گئے۔

اُن کی وفات کے کچھ عرصہ بعد عالمی منظر نامے سے لے کر دیہات کی سطح تک سیکڑوں تبدیلیاں آئیں لیکن کچھ تبدیلیاں ایسی تھیں جو اُن کی زندگی میں ممکن نہ تھیں۔ ایک عجیب سا خواب یاد آ رہا ہے۔ دیکھتا ہوں کہ بڑے بڑے کانوں والے بونے ایک قطار میں اُتر رہے ہیں، اُن کی لمبی لمبی زبانیں ہیں۔۔۔ کون جانے اسی کی تعبیر تھی کہ گاؤں کے لوگوں میں فرقہ واریت کی پہلی بیل پُھوٹی، کچھ لڑائیاں ہوئیں، کُفر کے فتوے اور کافر کافر کے نعرے بلند ہوئے۔ ایک نوجوان نے سڑک پہ کھڑے ہو کر تبرا کر دیا۔ کہیں سے اُس پہ قتل کا فتویٰ آیا، شام کو اُسے چُھرا گھونپ دیا گیا، اگلے روز ایک کالعدم تنظیم کے سربراہ اپنی ڈبل کیبن گاڑیوں کے مسلح کاروان کے ساتھ اس چھوٹے سے گاؤں میں آئے، بھڑکاو ہوا، تلواریں سونت لی گئیں، سپیکروں پہ للکارے مارے گئے، ڈاڑھیوں کو رگیدا گیا مگر پُرانے بزرگوں نے بیچ میں پگڑیاں ڈال دیں اور خُدا جانے کیا کیا تماشے ہوئے!

اب مَیں سمجھا ہوں کہ شاید مولوی عارف اللہ عارف جیسے لوگ ہی وہ سدِ سکندری تھےجو ہر طرح کے یاجوج ماجوج کے رستے میں حائل تھے اور اگر مَیں نے یہ بات فرطِ جذبات یا زیبِ داستان کے لئے کہہ دی ہے تو یہ بات تو بالیقین کہہ سکتا ہوں کہ قُدرت کو اُن جیسے باصفا لوگوں کی زندگی میں یہ تماشے دکھانا منظور نہ تھا، بس اُن کے مرنے کا انتظار کیا گیا۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
10 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments