آغا حشر سے دو ملاقاتیں


تاریخیں اور سن مجھے کبھی یاد نہیں رہے، یہی وجہ ہے کہ یہ مضمون لکھتے وقت مجھے کافی الجھن ہورہی ہے۔ خدا معلوم کون سا سن تھا۔ اور میری عمر کیا تھی، لیکن صرف اتنا یاد ہے کہ بصد مشکل انٹرنس پاس کرکے اور دو دفعہ ایف۔ اے میں فیل ہونے کے بعد میری طبیعت پڑھائی سے بالکل اچاٹ ہو چکی تھی اور جوئے سے میری دلچسپی دن بدن بڑھ رہی تھی۔ کٹڑا جیمل سنگھ میں دینو یا فضلو کمہار کی دکان کے اوپر ایک بیٹھک تھی جہاں دن رات جوا ہوتا تھا۔ فلش کھیلی جاتی تھی۔ شروع شروع میں تو یہ کھیل میری سمجھ نہ آیا۔ لیکن جب آگیا تو پھر میں اسی کا ہو رہا۔ رات کو جو تھوڑی بہت سونے کی فرصت ملتی تھی۔ اس میں بھی خواب راؤنڈوں اور تریلوں ہی کے آتے تھے۔

ایک برس کے بعد جوئے سے مجھے کچھ اکتاہٹ ہونے لگی۔ طبیعت اب کوئی اور شغل چاہتی تھی۔ کیا؟ یہ مجھے معلوم نہیں تھا۔ دینو یا فضلو کمہار کی بیٹھک میں ایک روز ابراہیم نے جو کہ امرتسر میونسپلٹی میں تانگوں کا داروغہ تھا، آغا حشرکا ذکر کیا اور بتایا کہ وہ امرتسر آئے ہوئے ہیں۔ میں نے یہ سنا تو مجھے سکول کے وہ دن یاد آگئے جب تین چار پیشہ ور لفنگوں کے ساتھ مل کر ہم نے ایک ڈرامٹیک کلب کھولی تھی۔ اور آغا حشر کا ایک ڈرامہ سٹیج کرنے کا ارادہ کیا تھا یہ کلب صرف پندرہ بیس روز قائم نہ رہ سکی تھی۔ اس لئے کہ والد صاحب نے ایک روز دھاوا بول کر ہارمونیم اور طبلے سب توڑ پھوڑ دیے تھے۔ اور واضح الفاظ میں ہم کو بتا دیا تھا کہ ایسے واہیات شغل انہیں بالکل پسند نہیں۔

اس کلب کے باقیات آغا حشر کے اس ڈرامے کے چند الفاظ ہیں۔ جو میرے ذہن کے ساتھ ابھی تک چپکے ہوئے ہیں۔ ”ارتاتھ اس کے کرم ہیں۔ ‘‘ میرا خیال ہے جب داروغہ ابراہیم نے آغا حشر کا ذکر کیا تو مجھے اس وقت ڈرامے کا پورا ایک پیرا یاد تھا، چنانچہ مجھے اس خبر سے ایک گو نہ دلچسپی پیدا ہوگئی، کہ آغا حشر امرتسر میں ہے۔

آغا صاحب کا کوئی ڈرامہ دیکھنے کا مجھے اتفاق نہیں ہوا تھا۔ اس لئے کہ رات کو گھر سے باہر رہنے کی مجھے قطعاً اجازت نہیں تھی۔ ان کے ڈرامے بھی میں نے نہیں پڑھے تھے۔ اس لئے کہ مجھے مسٹریز آف کورٹ آف لنڈن اور تیرتھ رام فیروز پوری کے ترجمہ کردہ انگریزی جاسوسی ناول جیسی کتابیں پڑھنے کا شوق تھا لیکن اس کے باوجود امرتسر میں آغا صاحب کی آمد کی خبر نے مجھے کافی متاثر کیا۔

آغا صاحب کے متعلق بے شمار باتیں مشہور تھیں۔ ایک تو یہ کہ وہ کوچہ وکیلاں میں رہا کرتے تھے جوہماری گلی میں تھی، جس میں ہمارا مکان تھا۔ آغا صاحب بہت بڑے آدمی تھے۔ کشمیری تھے، یعنی میرے ہم قوم۔ اور پھر میری گلی میں وہ کبھی اپنے بچپن کے ایام گذار چکے تھے۔ ان تمام باتوں کا نفساتی اثر مجھ پر ہوا آپ اُسے بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔

داروغہ ابراہیم سے جب میں نے آغا صاحب کے متعلق کچھ اور پوچھا تو اس نے وہی باتیں بتائیں جو میں اوروں سے ہزار مرتبہ سن چکا تھا کہ وہ پرلے درجے کے عیاش ہیں۔ دن رات شراب کے نشے میں دھت رہتے ہیں۔ بے حد گندہ ذہن ہیں۔ ایسی ایسی گالیاں ایجاد کرتے ہیں کہ مغلظات میں جن کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ بڑے سے بڑے آدمی کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔ کمپنی کے فلاں فلاں سیٹھ نے جب ان سے ایک بار ڈرامے کا تقاضا کیا تو انہوں نے اس کو اتنی موٹی گالی دی جو ہمیشہ کے لئے اس کے دل میں آغا صاحب کیخلاف نفرت پیدا کرنے کے لئے کافی تھی۔ لیکن حیرت ہے کہ سیٹھ نے اُف نہ کی، اور ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا۔ ”آغا صاحب ہم آپ کے نوکر ہیں‘‘۔ بدیہہ گو تھے۔ ایک مرتبہ ریہرسل ہورہی تھی۔ گرمی کے باعث ایک ایکٹرس بار بار ماتھے پر سے انگلی کے ساتھ پسینہ پونچھ رہی تھی۔ آغا صاحب جھنجھلائے اور ایک شعر موزوں ہوگیا۔
ابرو نہ سنوار اکرو کٹ جائے گی اُنگلی
نادان ہو تلوار سے کھیلا نہیں کرتے

ریہرسل ہورہی تھی۔ لفظ”فنڈ‘‘ ایک ایکٹرس کی زبان پر نہیں چڑھتا تھا۔ آغا صاحب نے گرج کر”فنڈ‘‘ کا ایک ہم قافیہ لفظ لڑھکا دیا۔ ایکٹرس کی زبان پر فوراً” فنڈ‘‘ چڑھ گیا۔
آغا صاحب کے کان تک یہ بات پہنچی کہ حاسد یہ پروپیگنڈا کررہے ہیں کہ ہندی کے ڈرامے ان کے اپنے لکھے ہوئے نہیں کیونکہ وہ ہندی زبان سے بالکل ناواقف ہیں۔ آغا صاحب سٹیج پر ڈرامہ شروع ہونے سے پہلے آئے اور حاضرین سے کہا۔ ” میرے متعلق چند مفسدہ پردار یہ بات پھیلارہے ہیں کہ میں نے اپنے ہندی کے ڈرامے کرائے کے پنڈتوں سے لکھوائے ہیں۔ میں اب آپ کے سامنے شدھ ہندی میں تقریرکروں گا‘‘۔ چنانچہ آغا صاحب دو گھنٹے تک ہندی میں تقریر کرتے رہے جس میں ایک لفظ بھی اردو یا فارسی کا نہیں تھا۔

آغا صاحب جس ایکٹرس کی طرف نگاہ اٹھاتے تھے وہ فوراً ہی ان کے ساتھ خلوت میں چلی جاتی تھی۔
آغا صاحب منشیوں کو حکم دیتے تھے کہ”تیار ہو جاؤ۔ ‘‘ اور شراب پی کر ٹہلتے ٹہلتے بیک وقت کومیڈی اور ٹریجڈی لکھوانا شروع کردیتے تھے۔

آغا صاحب نے کبھی کسی عورت سے عشق نہیں کیا۔ لیکن مجھے داروغہ ابراہیم کی زبانی معلوم ہوا کہ یہ بات جھوٹ ہے کیونکہ وہ امرتسر کی مشہور طوائف مختار پر عاشق ہیں۔ وہی مختار جس نے” عورت کا پیار‘‘ فلم میں ہیروئن کا پارٹ ادا کیا ہے۔

مختار کو میں نے دیکھا ہوا تھا۔ ہال بازار میں انورپینٹر کی دکان پر بیٹھ کر ہم قریب قریب ہر جمعرات کی شام کو مختار عرف داری کو نئے سے نئے فیشن کے کپڑوں میں ملبوس دوسری طوائفوں کے ہمراہ” ظاہرا پیر‘‘ کی درگاہ کی طرف جاتے دیکھا کرتے تھے۔

آغا صاحب شکل و صورت کے کیسے تھے۔ یہ مجھے معلوم نہیں تھا۔ کچھ چھپی ہوئی تصویریں دیکھنے میں آئی تھیں۔ مگر ان کی چھپائی اس قدر واہیات تھی کہ صورت پہچانی ہی نہیں جاتی تھی۔ عمر کے متعلق صرف اتنا معلوم تھا کہ وہ اب ضعیف ہو چکے ہیں۔ اس زمانے میں یعنی عمر کے آخری وقت میں ان کو مختار سے کیسے عشق ہوا۔ اس پر ہم سب کو جودینو یا فضلو کمہار کی بیٹھک میں جواء کھیل رہے تھے، سخت تعجب ہوا تھا۔ مجے یاد ہے نال کے پیسے نکالتے ہو ؤد نیو یا فضلو کمہار نے گردن ہلا کر بڑے فلسفیانہ انداز میں کہا تھا۔ ” بڑھاپے کا عشق بڑا قاتل ہوتاہے۔ ‘‘
ایک بار آغا صاحب کا ذکر بیٹھک پر ہوا تو پھر قریب قریب ہرروز ان کی باتیں ہونے لگیں۔ ہم میں سے صرف داروغہ ابراہیم آغا صاحب کوذ اتی طور پر جانتا تھا۔ ایک روز اس نے کہا۔ ” کل رات ہم مختار کے کوٹھے پر تھے۔ آغا صاحب گاؤ تکیے کا سہارا لئے بیٹھے تھے ہم میں سے باری باری ہر ایک نے ان سے پر زور درخواست کی کہ وہ اپنے نئے قلمی ڈرامے” رستم و سہراب‘‘ کا کوئی قصہ سنائیں، مگر انہوں نے انکار کردیا۔ ہم سب مایوس ہوگئے۔ ایک نے مختار کی طرف اشارہ کیا۔ وہ آغا صاحب کی بغل میں بیٹھ گئی اور ان سے کہنے لگی۔ ” آغا صاحب ہمارا حکم ہے کہ آپ رستم و سہراب، سنائیں!‘‘۔ آغا صاحب مسکرائے اور بیٹھ کر رستم کا پر زور مکالمہ ادا کرنا شروع کردیا۔ اللہ اللہ کیا گرج دار آواز تھی۔ معلوم ہوتا تھا کہ پانی کا تیز دھارا پہاڑ کے پتھروں کو بہائے لئے چلا جارہا ہے۔ ‘‘

مضمون کا بقیہ حصہ پڑھنے کے لئے ”اگلا صفحہ“ پر کلک کریں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5