ملالہ! قوم کا فخر یا شرمندگی


یہاں تو چپ ہی بھلی ہے کہ انگلیاں نہ اٹھیں
کسی کے خلاف کسی کے حق میں کیا کہنا (محسن نقوی)

بات تو نقوی صاحب کی حق ہے کہ سب کچھ دیکھ کے بھی اندھے بن جاؤ کسی غلط کو غلط نہ کہو اگر جان کی امان چاہتے ہو تو۔ مگر کیا نقوی صاحب خود اس بات پہ عمل پیرا ہو سکے یقینا نہیں ہوئے ہوں گےتبھی تو جان سے گزر گئے۔ ویسے بھی اندر کی آوازیں بھلا کب خاموش رہنے دیتی ہیں خاموش تماشائی بن کے مر مر کے جینے سے بہتر ہوتا ہے بندہ حق کو ببانگ دہل کہہ ڈالے اور جان کا نذرانہ پیش کر دےاندر کی آواز جب باہر نکلتی ہے تو کوئی منصور سولی چڑھ جاتا ہے تو کوئی حسین (ع) کربل کی خاک پہ شہید ہو جاتا ہے جب اندر کی آواز شور مچاتی ہے تو کبھی زینب قصور میں ظالموں کے ظلم کو اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے بے نقاب کرواتی ہے تو کبھی پرنسپل طاہرہ قاضی سامنے آ جاتی ہے کبھی اعتزاز حسن اندر کی آواز پہ لبیک کہہ کے قربان ہو جاتا ہے تو کبھی سوات کے پہاڑوں پہ کھیلنے والی ملالہ دشمنوں پہ قہر بن جاتی ہےخیر موضوع کی طرف آتا ہوں موضوع ہے
ملالہ یوسفزئی کی اپنے وطن پاکستان آمد۔

ملالہ کے پاکستان آنے سے پہلے ملالہ کے بارے میں میرا نظریہ میرا نکتہ نظر بھی اپنے پاکستانی بھائیوں جیسا تھا جو کہ ملالہ کو ڈرامہ ڈرامہ اور صرف ڈرامہ ہی سمجھتا تھا نہ کبھی اس واقعے کو پڑھا نہ غور کیا کیونکہ
بقول فیض صاحب!
تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے۔

سو غم روزگار کی فکر نے کبھی اس موضوع کو چھیڑنے ہی نہ دیا۔ جب سے ملالہ پاکستان آئی ہیں الیکٹرونک و پرنٹ میڈیا ہو یا سوشل میڈیا ہر جگہ ملالہ زیر بحث نظر آئی ہے پرنٹ میڈیا پہ تو ہم کم ہی توجہ دیتے ہیں مگر سوشل میڈیا کے ہم ہیرو ٹھہرے
سوشل میڈیا پہ ملالہ کے حامی ( جو کہ گنتی میں ہیں) کو بھی پڑھا اور ملالہ کے ناقدین، مخالفین و حاسدین(جو 90%سے زیادہ ہیں) کی تحریریں بھی نظر سے گزریں۔

دونوں فریقین اپنی اپنی دلیلیں اتنے زور وشور سے دے رھے ہیں کہ میں خود لڑکھڑاتا ہی رہا کہ کس کشتی میں سوار ہوں کس کو سچ مانوں یا کس کو غلط کہوں۔ کبھی ملالہ کے حامی جیتتے نظر آئے تو کبھی بازی ملالہ کے مخالفین کے حق میں جاتی نظر آئی میرےایک دوست نے کہا کہ اگر کسی کے اندر کا مولانا فضل اللہ دیکھنا ہو تو اس کے سامنے ملالہ کا نام لے لو جب کہ کچھ پکے ایمان والے دوست ملالہ کے نام کو ایمان جانچنے کا آلہ و معیار بنا بیٹھے ہیں کہ جو ملالہ کی حمایت میں بولے اس کا ایمان ناقص ہے۔ ملالہ کے نام لینے سے جو میٹھی میٹھی اور انہونی سی گالیاں دوست احباب سے سننے کو مل رھی ہیں ان کے بھی کیا کہنے۔ ان تین چار دن کی انفارمیشن و تحریروں نے میری سوچوں کو تہہ بالا کر رکھا ہے ملالہ کو شرمندگی محسوس کرنے والے، ملالہ کے واقعے کو ڈرامہ کہنے والے شاید اس بات کو بھول رھے ہیں کہ ملالہ کتنے اداروں کی سیکورٹی سے گزر کرجان کنی کے عالم دیار غیر میں منتقل ہوئی تھی۔

کیا ان کا ملالہ والے واقعے کو ڈرامہ قرار دینا قومی اداروں کی کارکردگی و سلامتی پہ سوالیہ نشاں نہیں ہے؟ کیا مخالفین کی ان باتوں سے اداروں پہ شک کی خوشبو نہیں آ رھی؟ ملالہ کے بارے میں کتنی ہی فرضی باتیں جو اس کے مخالفین کر رھے ہیں کہ ملالہ نے 12 سال کی عمر میں یہ کیسے کر لیا وہ کیسے کر لیا تو عرض ہے ہماری ننھی شہزادی ارفع کریم 11 سال کی عمر میں مائیکرو سوفٹ کی فیلڈ میں ا پنا لوہا منوا چکی ہے تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہینری کا بیٹا ایڈورڈ 6 (10) سال کی عمر میں انگلینڈ کا بادشاہ بنا۔ wiladyslaw نے 10 سال کی عمر میں پولینڈ پہ حکمرانی کی۔ baldwin 4 نے 15 سال کی عمر میں یروشلم میں مرتبے پہ فائز ہوا۔ یونان میں مراد 4 بن سلطان احمد نے 11 سال کی عمر میں حکمرانی کی۔ Elagabalus روم 15 سال fulin the shunzhi emperer نے 12 سال چائنہ جبکہ مصر میں قلو پطرہ کا بھائی Theos Philopator نے چھوٹی عمر میں حکمرانی کی جبکہ ہمارے مسلمان ہیرو محمد بن قاسم نے 17 سال کی عمر سندھ فتح کر لیا جب یہ سب کچھ ملالہ سے پہلے اتنی کم عمری میں ہو چکا ہے تو ملالہ کی ڈائری لکھنے پہ قوم اتنی حیران و پریشاں کیوں ہے؟

بے شک ہم مانتے ہیں کہ ملالہ کے ساتھ کتنے ہی لوگ دہشتگردی کا شکار ہوئےوہ بھی ہمارے ہیرو ہیں ملالہ کے ساتھ زخمی بچیاں بھی قابل ستائش ہیں ہم کسی کی قربانی کو رائگاں نہیں جانے دیں گے چاہے دہشتگردی کی نظر ہونے والے اے پی ایس کے بچے ہوں یا فوج اور پولیس کے جوان و آفیسر۔ پولیس کے لوگ ہوں یا سول لوگ سب کا احسان ہے اس قوم پہ۔ اس لئے مخالفین سے گزارش ہے کی ملالہ کی قربانی کو بھی مان لیا جائے۔ مان لینے میں ہی راحت ہوتی ہے ملالہ بیچاری کی دشمنی تو گولی لگتے ہی شروع ہو گئی تھی گولی لگتے ہی جتنے منہ اتنی باتیں ہونے لگی تھیں

ملالہ یوسفزئی بیک وقت خوش قسمت اور بدقسمت ہے خوش قسمت ایسی کہ اتنی کم عمری میں کتنے ہی ایوارڈ وصول کر چکی ہے کہ دنیا انگشت بدنداں ہے جبکہ بد قسمت ایسی کہ اپنے ملالہ کی خوشیوں میں شریک ہونا پسند نہیں کر رھے بلکہ ملالہ کو ایوارڈ دینے والوں کو گالیوں سے نوازا جا رہا ہے

بزرگوں سے سنا تھا کہ اڑا ہوا پنچھی اگر واپس لوٹ آئے تو اس کیوفا کا ثبوت ہوتا ہے سو لوٹ کے آنے والے نفرتوں کے نہیں محبتوں کے مستحق ہوتے ہیں تو پھر ملالہ کے ساتھ اتنا سخت رویہ کیوں رکھا جا رہا ہے

پاکستان کے لوگ اور پھر پختون لوگ تو بڑے مہمان نواز ہوتے ہیں ملالہ کو قوم کی بیٹی نہ سہی ایک مہمان سمجھ کر ہی عزت و تکریم سے نواز دیا جائے۔ ایک نام نہاد مسلمان سمجھ کر ہی سہی کچھ بھرم تو رکھ لیا جائے کچھ تو اپنی مہمان نواز طبیعت کا ثبوت دے دیا جائے

ملالہ طالبان سے لڑ گئی طالبان سوچ کے سامنے نہیں روئی گولی کھا کے نہیں روئی۔ روئی تو کب روئی اپنوں میں آ کے روئی اپنوں کے رویوں سے دل برداشتہ ہو کر روئی۔ انسان ہر دشمن کا مقابلہ بلا خوف و خطر کر لیتا مگر مقابلہ نہیں کر پاتا تو اپنوں کا۔ اپنوں کی مخالفت انسان کو اندر سے توڑ کے رکھ دیتی ہے اپنوں کے بے رحم رویے تو روح کو گھائل کر دیتے ہیں پھر انسان تنہا ہو یا کسی ہجوم میں میڈیا کے سامنے ہو یا کہیں بھی آنکھ آنسوؤں سے بھر جاتی ہے پھر قوم اس بات کو لئے بیٹھی ہے کہ ملالہ غیروں کا سہارا کیوں لے رہی ہے جب اپنے بیگانوں کا سا سلوک کریں گے تو ایک معصوم لڑکی کس کے کندھے پہ سر رکھ کے روئے گی۔ ویسے ملالہ کو شکست گولی نہیں دے سکی تو گالی کیسے شکست دے سکے گی۔ اگر ملالہ کی شکست آپ کو تسکین پہنچاتی ہے تو اس کے لئے آپ کو بد اخلاقی و بدتمیزی جیسے ہتھیاروں کے بجائے خوش اخلاقی اور برداشت جیسے ہتھیاروں کو استعمال کرنا ہو گامیرا ایک دوست ملالہ کے حوالے سے میری بدلی ہوئی سوچ کو بغاوت کا نام دیے بیٹھا ہے خدا خیر کرے میری نظر میں ملالہ قوم کی بیٹی قوم کا فخر ہے ملالہ علم کی شمع جلانے نکلی ہے اللہ پاک حامی و مددگار ہو

اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی
ھم نے دل جلا کے سر عام رکھ دیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).