میرا جسم، میری مرضی… اس پر اعتراض کیا ہے؟


میرا جسم، میری مرضی۔ چار لفظوں کے اس پلے کارڈ کو اٹھانے والی نجانے کیا پیغام دے رہی تھی مگر مختلف حلقوں نے اس پر اپنے اپنے قیاس کے مطابق مطلب اخذ کیے ہیں۔ اس پلے کارڈ پر مذہبی حلقوں نے سخت تنقید کی ہے اور اس کے خلاف نہایت منظم طریقے سے سوشل میڈیا پر وڈیوز بنا کر لگائی ہیں۔ ایک وڈیو میں اسے گلوبل فیمینزم (عالمی تحریک آزادی نسواں) کا حصہ بتایا گیا ہے اوراسے مغرب کی سازش قرار دیا ہے۔ دوسری طرف یہ بھی باور کروایا گیا ہے کہ فیمینزم کو مغرب میں بھی پسند نہیں کیا جاتا۔ اس وڈیو میں برقعے والی عورتوں کو جن کی صرف آنکھیں نظر آرہی ہیں، مثالی مسلمان عورتوں کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ لبرل حلقوں نے ان چار لفظوں کا یہ مطلب اخذ کیا ہے کہ میری مرضی ، میں جیسے بھی کپڑے زیب تن کروں آپ کون ہوتے ہیں روکنے ٹوکنے والے۔

ہمارے معاشرے میں عورت کے موزوں لباس کا معیار ہر شخص کے ذہن میں مختلف ہے۔ کچھ حجاب ، دوپٹے اور پردے کو لازم نہیں سمجھتے۔ کچھ ٹوپی والے برقعے کو ہی صحیح لباس سمجھتے ہیں۔ یہ سب لوگ اپنے ان معیار کو عین اسلام سمجھتے ہیں۔ افغانستان میں طالبان کے دور میں ٹخنوں کو ننگا کرنے کو بھی قابل اعتراض سمجھا جاتا تھا۔ اُن کے دور میں ایک تصویر میں وہ ایک عورت کو جرابیں نہ پہننے کے جرم میں ٹخنوں پر کوڑے مار رہے ہیں۔

چالیس سال پہلے ایران میں اسلامی انقلاب کے بعدعورت کے سر ڈھاپنے اور چادر اوڑھنے کو لازمی قرار دیا گیا۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق اس وقت ایران میں 50 فیصد لوگ اس پابندی کے حق میں ہیں اور اتنے ہی اس کے خلاف ہیں۔ عورتوں کی اتنی شرح ، یعنی 50فیصد ، اسلامی انقلاب سے پہلے چادر نہیں پہنتی تھی۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس قانون کے نافذ ہونے کے 40 سال کے بعد بھی یہ قانون اُن عورتوں کے، جو انقلاب سے پہلے چادر نہیں پہنتی تھیں، دلوں کو بدلنے میں کامیاب نہیں ہوا۔ یہ عورتیں وقتاً فوقتاًاس پابندی کے خلاف احتجاج کرتی رہتی ہیں۔ سعودی عرب نے اب اعلان کیا ہے کہ عبایا اسلام میں لازمی نہیں ہے اور خواتین اپنی مرضی کا باحیا لباس زیب تن سکتی ہیں۔ اس فتوے کو سن کر کچھ عورتوں نے کہا ہے کہ وہ اسی طرح عبایا پہنتی رہیں گی کہ اس فتوے سے ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لہٰذا میرا جسم میری مرضی ایک ایسی حقیقت ہے جسے آپ قانون اور طاقت کے ذریعے تبدیل نہیں کر سکتے۔

اس چار لفظوں کے پلے کارڈ کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ اس دنیا میں اس عورت کا بھی اتنا حق ہے جتنا ایک مرد کا ہے۔ عورت جب گھر سے باہر نکلتی ہے ، بازار جاتی ہے، بس پر سوار ہوتی ہے یا کام پرجاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ وہ پبلک پراپرٹی بن جاتی ہے اس کو ہر اس کرنے کا حق کسی کو بھی نہیں ہے۔ اس کا ایک اور مطلب یہ ہے کہ عورت اپنی مرضی کا زندگی کا ساتھی چننے کا حق رکھتی ہے کہ اس کا جسم اس کی مرضی۔

دلچسپ بات یہ ہےکہ ہمارے معاشرے کی غیرت اُس وقت جاگتی ہے جب اُنہیں لگے کہ عورت اپنے معاملات کا اختیار اپنے پاس رکھنے لگی ہے اور جب وہ اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھاتی ہے۔ ہماری دینی اور ملی حمیت اُس وقت نہیں جاگتی جب اس معاشرے میں غریب عورت کے حقوق پامال ہو رہے ہوتے ہیں۔ ہمیں چادر، پردہ ، چاردیواری اُس وقت یاد نہیں آتے جب عورت دوسرے کے گھروں میں جھاڑو دینے اور برتن مانجھنے پر مجبور ہوتی ہے۔ اور جب وہ کھیتوں میں کام کرتی ہے اور سڑکوں پر روڑی کوٹتی ہے اور جب وہ گلی کے کوڑے میں سے کھانا تلاش کر رہی ہوتی ہے۔ ہم عورت کو اسلامی فرائض اُس وقت یاد کرواتے ہیں جب وہ اپنے جسم پر اپنا کنٹرول رکھنے کا اعلان کرتی ہے۔ ہمیں عورت کے حقوق اُس وقت یاد نہیں آتے جب عورت کو مرضی کرنے سے غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے۔ جب چھوٹی بچیوں کو پیسوں کے عوض بوڑھے آدمیوں سے بیاہ دیا جاتا ہے۔

آخر کیا وجہ ہے کہ عورت کے میرا جسم ، میری مرضی کہنے پر ایک منظم مہم چلائی جاتی ہے۔ اسے پابندیوں میں رکھنے کی بات کی جاتی ہے۔ اسے گھر میں نظر بند کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کی وجہ سمجھنے کے لیے اُس ذہنی کیفیت کا سمجھنا ضروری ہے جس میں مولوی حضرات رہ رہے ہیں اور ہمارے مردوں کو رکھنا چاہتے ہیں۔

چھوٹے چھوٹے گاوں کی مسجدوں سے لے کر یو ٹیوب وڈیو پر بڑے بڑے علما کے خطبے سن لیں۔ ڈاکٹر اسرار احمد سے لے کر مولانا طارق جمیل تک کے خطبات سنیں۔ ایک آئیڈیل عورت، حور کے حصول کی اہمیت بیان کی جاتی ہے۔ اس کے لیے اچھے اعمال کریں۔ عبادات کریں۔ مذہبی تاریخ میں لونڈی کا ذکر بھی بہت سوں کا پسندیدہ موضوع ہے۔ حور اور لونڈی میں ایک قدر مشترک ہے، ان دونوں عورتوں کی اپنی کوئی مرضی نہیں ہوتی۔ ان کا جسم آپ کی ملکیت ہے۔

حور کے جسم کے ایک ایک حصے کو نہایت وضا حت سے بیان کیا جاتا ہے۔ اس کے مرمریں جسم اور خوبصورت آنکھوںکے تذکرے ہوتے ہیں۔ کچھ تو اس احوال میں اتنے آگے بڑھ جاتے ہیں کہ اس کو لکھنا بھی اخلاق باختگی ہو گی۔ کچھ تو صاف صاف زمینی عورت سے نفرت کا اظہار کرتے ہوئے اسے میلی کچیلی عورت قرار دے کر نظر انداز کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ اور صرف حوروں کے حصول کو ہی مدِ نظر رکھنے کی تاکید کرتےہیں۔ مولانا طارق جمیل ایک جگہ حور کے قد کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ اتنی لمبی ہو گی کہ اس تک پہنچنے کے لیے سیڑھی استعمال کرنا پڑے گی۔

 غرضیکہ یہ لوگ اس طرح کی ذہنی دنیا میں رہ رہے ہیں جہاں عورت ان کی ملکیت ہے اور اُس کی کوئی مرضی نہیں ہے۔ اسی لیے اُن کو یہ چار لفظ ،میرا جسم میری مرضی ایک اجنبی تصور معلوم دیتا ہے اور ایک بیرونی سازش لگتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ چاہیں تو انہیں کتابوں میں سے جہاں وہ حوروں کے تذکرے تلاش کرتے ہیں، زمینی عورت کے حقوق بھی ڈھونڈ سکتے ہیں۔ وہ انہیں کتابوں سے زمینی عورت کے ساتھ خوش رہنے کی باتیں بھی تلاش کر سکتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ایسا کرنے کے بعد جب وہ غورو فکر کریں گے تو ایک منظم مہم چلائیں گے جس سے اس پوسٹر سے مکمل اتفاق کرتے ہوئے یہ بتایا جائے گا، عورت کا جسم، عورت کی مرضی۔

ڈاکٹر غزالہ قاضی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر غزالہ قاضی

Dr. Ghazala Kazi practices Occupational Medicine (work related injuries and illnesses) in USA. She also has a master’s degree in Epidemiology and Preventive Medicine.

dr-ghazala-kazi has 35 posts and counting.See all posts by dr-ghazala-kazi