پندرہ ۔ بارہ ۔ چوراسی کی کہانی


”میں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز 1944ء میں کراچی پورٹ ٹرسٹ میں جونیئر ODC کی بحیثیت سے کیا اور 40 سال بعد پندرہ ۔ بارہ ۔ چوراسی کو سینئر ODC کی حیثیت سے کے پی ٹی سے ریٹائر ہوا۔ چالیس سال کی نوکری کے دوران صرف ایک بار لیبریونین کے لیڈر ہونے کی وجہ سے 42 دن کی ہڑتال کی۔ 42 دن کی ہڑتال کے علاوہ میں نے ان 40 برس میں کبھی کوئی چھٹی نہیں کی۔ اتوار کی بھی چھٹی نہیں کی کہ کچھ رقم اوور ٹائم کی مد میں مل جائے اور میرے گھر کے اخراجات پورے ہوسکیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ 40 سال کس طرح گزر گئے۔“ یہ اباجی کی زندگی کی کہانی کا سب سے زیادہ دہرایا جانے ولا باب ہے جو وہ ہر جانے ان جانے کو سناتے اور گھر والوں نے تو یہ بیان اتنی بار سنا تھا کہ بچے بچے کو ازبر ہوگیا تھا۔ افتخار بھائی کے دوست جب کبھی ملنے آتے تو بھائی جان مذاق میں کہتے، ” ابا جی! خدا کے لیے میرے دوستوں کو ایف ایس ینگ سے لے کر کابراجی اور 15دسمبر 1984ءتک کی کہانی مت سنائیے گا، وہ پہلے کئی بار سن چکے ہیں“۔

ابا جی بہت اچھے قصہ گو تھے۔ ہر واقعہ پوری جزیات کے ساتھ ایسے دلچسپ انداز میں سناتے کہ سننے والوں کی توجہ آخر تک قائم رہتی۔ اچھے اور برے وقتوں کے ساتھیوں کے حالات بیان کرتے تھے اورہمیشہ سچے اور بہادر لوگوں کی قدر کرتے تھے۔ ایف ایس ینگ پاکستان بننے سے پہلے ان کے افسر رہے ہوں گے وہ ہمیشہ ایف ایس ینگ کا موجودہ افسروں سے تقابل کرتے اور کہتے تھے ایف ایس ینگ ہمیشہ اپنے ماتحتوں کا خیال رکھتے تھے، ان کے ساتھ شفقت اور عزت سے پیش آتے تھے۔ اس طرح پارسی برادری سے تعلق رکھنے والے کابراجی پاکستان بننے کے بعد ان کے TM رہے تھے وہ کابراجی کی تعریف کرتے۔ اباجی بتاتے تھے کابراجی عموماً راتوں کو پورٹ پر تمام کاموں کی خود نگرانی کرتے تھے۔ رات کے وقت لالٹین کی روشنی میں پورٹ پر آنے والے کارگو کی انٹری کرنا کلرکوں کے روز کا کام تھا، ایسے میں کابرا جی بھی اپنی ٹارچ لیے عملے کے اندراج کی پڑتال کرتے نظر آتے۔ کلرکوں کے ساتھ بیٹھ کرچائے پیتے اور ان کے مسائل حل کرنے میں ان کی مدد کرتے۔ اباجی بتاتے کہ وہ عام خلاصیوں اور کلرکوں سے نہایت شائستگی کے ساتھ بات کرتے اور انسان کی حیثیت سے ان کو پورا احترام دیتے۔ کے پی ٹی کے اپنے ان دو افسروں کا وہ بعد میں آنے والے افسران سے ان کا موازنہ کرتے اورکہتے کہ آج کل کے افسران میں تہذیب اور دوسروں کا احترام باقی نہیں رہا۔ وہ کام کرنے والے ایماندار لوگوں کی قدرنہیں کرتے۔ ابا جی کا لحن بہت اچھا تھا، ہر روز صبح فجرکی نماز کے بعد وہ بلند آواز سے ترجمے کے ساتھ قرآن پاک کی تلاوت کرتے جو گھر والوں کے علاوہ پڑوس کے لوگوں کو بھی سنائی دیتی۔ اس کے بعد وہ اسی خوش الحانی سے قصہ چاردرویش کے دو تین صفحے پڑھتے۔ سردیوں میں ہماری آنکھیں اباجی کی تلاوت اور قصہ چاردرویش کی آواز سے کھلتی تھی۔ انہیں اردو اور فارسی کے بہت سے اشعار اور کہاوتیں یاد تھی اور موقع محل کے مناسبت سے وہ انہیں اپنی گفتگو یا قصہ گوئی میں استعمال کرتے تھے۔ اس دور کا کئی بار سنا ہوا یہ شعر مجھے بچپن سے ازبرہے :

آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں

سامان سو برس کا، پل کی خبر نہیں

 لیکن ٹھہریے! آگے بڑھنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ کیمبل پور (اب اٹک) کا بانکا پٹھان کراچی کیسے پہنچا اور کے پی ٹی میں کیسے ملازم ہوگیا؟ اباجی کی پیدائش کیمبل پور میں ہمارے آبائی گاﺅں میں ہوئی، وہ سب بہن بھائیوں میں سب سے زیادہ پڑھے لکھے، یعنی چھ جماعت پاس تھے۔

بر صغیر کی تقسیم سے کئی سال پہلے غالباً 1940ء میں وہ روز گار کی تلاش میں کراچی آئے ۔ یہاں انہیں انڈین پولیس میں حوالدار کی ملازمت مل گئی، لیکن کچھ عرصے بعد انہوں نے حوالداری سے استعفیٰ دیدیا کہ پولیس لوگوں پر جائز و ناجائز تشدد کرتی ہے، لہٰذا یہ نوکری حرام ہے ۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ اس زمانے میں ایک ابھرتا ہوا ادارہ تھا، اباجی نے کچھ عرصے ڈیلی ویجز پر کام کیا۔ ان کی محنت کی عادت اور ایمانداری کی وجہ سے انہیں ادارے میں مستقل ملازمت دیدی گئی اور رہنے کے لیے کیماڑی میں ایک کوارٹر بھی مل گیا۔

 یہ آزادی کی تحریک کا زمانہ تھا، جس کے نتیجے میں ملک تقسیم ہوگیا دنیا کے نقشے پر ’پاکستان‘ کے نام سے ایک نئے ملک کا اضافہ ہوگیا۔ تقسیم کے نتیجے میں ہونے والی ہجرت دونوں ملکوں کی تاریخ کا ہولناک خونیں باب ہے۔ اباجی اس دور کے واقعات و سناتے تھے اور نہایت دکھ کے ساتھ بتلاتے تھے کس طرح قتل و غارت گری ہوئی، سرحد کے اُس پار جس طرح مسلمانوں کو مارا گیا، سرحد کے اِس پار کراچی میں ہندوﺅں کو بے رحمی سے مارا گیا، ان کی جائدادوں پر قبضے کیے گئے اور ان کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔ تقسیم سے پہلے کراچی میں بڑی تعداد میں ہندو آباد تھے، کیماڑی میں بہت سے ہندوﺅں سے اباجی کی دوستیاں تھیں۔ کراچی کی تجارت اور کاروبار پر ان کا بہت اثر تھا اور وہ دولت مندوں میں شمار ہوتے تھے۔ آزادی کی اس تحریک اور ملک کی تقسیم کی وجہ سے ان پر اچانک ایسی افتاد پڑی کہ انہیں اپنی جان اور عزت کے لالے پڑ گئے ۔ مصیبت کے اس وقت میں اباجی نے کئی ہندو خاندانوں کی مقدور بھر مدد کی ۔کئی لوگوں کو پناہ دی اورانڈیا جانے میں ان کا ساتھ دیا۔

ایک ہندو سیٹھ ابا جی کا قریبی دوست تھا، اس نے کیماڑی میں ایک بڑا دھرم شالہ (سرائے جہاں مسافروں کو کسی معاوضے کے بغیر رہائش اور کھانا دیا جاتا ہے) بنایا تھا جس کے احاطے میں ایک مندر اورپندرہ بیس کمرے تھے۔ انڈیا نقل مکانی کرتے وقت اس نے دھرم شالے کی چابیاں ابا کے حوالے کیں کہ اب یہ دھرم شالہ اور اس میں موجود تمام سامان تمھارا ہے، یہ جائیداد تمھارے کام آئی گی ۔ ابا جی نے اس سے کہا بھائی میں اس عمارت اور سامان کا کیا کروں گا، مجھے کے پی ٹی کی طرف سے رہائشی کوارٹر ملا ہوا ہے جو میرے لیے کافی ہے۔ اس پر وہ سیٹھ خوب ہنسا اور کہا خان صاحب اس عمارت کا اپنے کوارٹر سے موزانہ کر رہے ہیں، وہ سرکاری کوارٹر ہے جس میں دو کمرے ہیں اور اس میں پندرہ گھر وں پر مشتمل پورا کمپاﺅنڈ ہے تم یہاں آ جاﺅ، یہ جگہ تمیں مستقبل میں بہت فائدہ دے گی۔ یہ کہہ کر اس نے تمام دھرم شالے کی چابیاں ابا جان کے حوالے کر دی۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3