فتوی برائے فروخت


جو انسان بزدل اور کمزور ہو تا ہے، پستا رہتا ہے لیکن جب اسے موقع ملتا ہے تو وہ ظالم سے بھی بڑا ظالم بن جا تا ہے کیونکہ بے حسی اس کی رگ رگ میں اتر چکی ہوتی ہے۔ اس پر ایک کہانی لکھ رہی تھی کہ درمیان میں ایک نوجوان دوست کی پریشانی سے لبریز کال نے ڈسٹرب کر دیا اورعام طور پر جس چیز میں میں ہاتھ ڈالنے سے کتراتی ہوں اسی میں چھلانگ لگا نے کا سوچا۔ ایسے taboos کے خلاف میں بھی نہیں بولوں گی تو کون بولے گا؟ اس بات کا یہ مطلب نہیں کہ صرف میں ہی کوئی بہادر ہوں، اس بات کا یہ مطلب ہے کہ میں ہی وہ بے وقوف ہوں جو زندگی میں بارہا جان اور عزت کی پرواہ کئے بغیر، ایسے کئی شجر ہائے ممنوعہ کی ٹہنیوں پر پینگ ڈال چکی ہوں۔ اس لئے لوگ جب مجھے بہادر کہتے ہیں تو میں دل ہی دل میں خود کو یقین دلاتی ہوں کہ میں صرف ایک بے وقوف ہوں، جو نتائج کی پرواہ کئے بغیر، کسی بھی ناانصافی اور جھوٹ کے خلاف اٹھ کھڑی ہو تی ہوں اور بعد میں معصوم بنی سوچتی ہوں کہ یہ اتنے سارے لوگ میرے خلاف کیوں ہوگئے ہیں۔ بقول ڈاکٹر خالد سہیل، آدھے لوگ روبینہ سے شدید نفرت کرتے ہیں اور باقی آدھے اتنی ہی محبت۔ ڈاکٹر صاحب چونکہ ہمدرد انسان ہیں، اس لئے پرسنٹ ایج میں ڈنڈی مار گئے۔ میرے خیال میں یہ تناسب:10 90 ہے،کیونکہ مجھ سے نفرت کروانے والے کام زیادہ سرزد ہوجاتے ہیں اس کی وجہ بھی بڑی old fashioned ہے کہ جھوٹ اور ناانصافی مجھ سے برداشت نہیں ہوتی۔ تب میرا غصہ کالا ہو جاتا ہے۔ جو کہ بہرحال دل کالا ہونے اور لوگوں کی مصنوعی شرافت اور اخلاق سے بہت بہتر ہے۔ اس نقص کو ٹھیک کر نے کے لئے ڈاکٹرز کے پاس میرا علاج جاری ہے۔ امید ہے کہ عنقریب میں بھی upgradedہو جاؤں گی۔

خیر بات ہو رہی تھی اس فون کال کی جو اس دوست کی تھی، جسے میں نئی نسل کے ان سپوتوں میں سے سمجھتی ہوں۔ جو سچ کی کھوج میں بھی رہتے ہیں اور ناانصافی کے خلاف آواز بلند کر نے کا حوصلہ بھی رکھتے ہیں۔ جو پاکستان کے معاشرے کا وہ نایاب حصہ ہیں کہ جب ہجوم کسی کو ناجائزمار پیٹ رہا ہو تو وہ خاموش تماشائی بنے کھڑے نہیں رہ سکتے اور جو جھوٹ اور سچ ذاتی مفاد کی خاطرنہیں گھڑتے۔ بلکہ دین، ملک، خاندان کے ساتھ مخلص ہوتے ہیں۔ مگر آج اس کی آواز اجنبی لگی جس میں نہ ہنسی کی پھوار تھی نا کوئی تازگی، برسوں پرانی دوستی ہے، مگر میں نے اسے بڑی سے بڑی تکلیف میں بھی مسکراتے دیکھا ہے۔

میں نے کہا تم اتنے پریشان کیوں ہو۔ ؟ اس نے کہا ہاں روبینہ میں ایک معاملے میں ہاتھ ڈال بیٹھا ہوں اور یہ مجھ سے سنبھالا نہیں جا رہا۔ ہمارے خاندان کی ایک عورت نے کسی ایسے صاحب سے شادی کر لی تھی جن کا مذہب پر سے عقیدہ اٹھ چکا تھا۔ شادی کے بعد وہ عورت بھی اپنے شوہر کی تقلید میں ایسے ہی خیالات کی ھامل ہو گئی۔ میرے دوست کا خاندان پاکستان کے ایک بڑے شہر میں رہنے والا، پڑھے لکھے لوگوں کا خاندان ہے مگر اس وقت سب اس محاذ کا سامنا کر رہے ہیں کہ ایسی لڑکی تو بے شک بیاہ کے کسی اور ملک چلی گئی مگر اس کے بوڑھے ماں باپ اور باقی بہن بھائیوں کا پورا خاندان بائیکاٹ کر دے۔  جو یہ نہیں کرے گا، وہ بھی کافر قرار پائے گا اور اس کا بھی بائیکاٹ کر دیا جائے گا۔ ( یاد رہے لڑکی کا شادی کے بعد دوسرے ملک جانے کے بعد سے اپنے ماں باپ سے بھی رابطہ نہیں)۔ قابلِ تشویش یہ بات ہے کہ اس خاندان کے خلاف فتنہ اٹھانے والا ایک میڑک پاس بندہ ہے۔ اور اس نے مفتیوں سے کفر اور بائیکاٹ کے فتوے لے لے کر اس لڑکی اور خاندان میں ان کے حامیوں کا (جن میں میرا دوست بھی شامل ہے) ناک میں دم کر رکھا ہے۔

جہالت کا ارتکاب، چاہے ان پڑھ کریں یا پڑھے لکھے، اس میں اتنی طاقت اور کشش ہوتی ہے کہ اس سے عام لوگ یا تو متاثر ہو جاتے ہیں یا خوفزدہ ہو کر ساتھ مل جاتے ہیں۔ لہذا آدھے سے زیادہ خاندان، اس بائیکاٹ پر متفق ہے۔ یہاں تک کے میرے دوست کی بھابی جو، اس جہادی کی بہن ہیں، اپنے گھر جا بیٹھی ہیں، کہ جب تک ان کا پورا خاندان لڑکی کے گھر والوں کا بائیکاٹ نہیں کرتا، تب تک وہ اپنے بچوں سمیت اپنے مومن بھائی کے گھر ہی رہے گی اور شوہر کے گھر پر تھو کے گی بھی نہیں۔ یعنی اپنی فیملی لائف برباد ہوتی ہے تو ہو، وہ کسی ایسے گھر میں نہیں رہ سکتی جہاں ایک لاتعلق بیٹی کے بوڑھے ماں باپ کے ساتھ ہونے والی بے انصافی کے خلاف آواز اٹھ رہی ہے، اور جو گھر ان کے فتوؤں کو خاطر میں نہیں لے رہا۔ میرے دوست کو خوف یہ تھا کہ جس طرح جذباتیت کی لہر اٹھ رہی ہے اس حساب سے، ان والدین کے قتل کا فتوی نہ کوئی اٹھا کے لے آئے اور ان لوگوں کو اسلام کے نام پر مار دیا جائے۔ یہ کہتے ہو ئے اس کی آواز لرز رہی تھی اور یہ سن کر میں پوری لرز اٹھی۔ کیونکہ عام تاثر یہ ہے کہ مرتد کی سزا موت ہے۔

حامد رضا ایک پرانا،سچا دوست، اس سے جب بھی کوئی مذہبی، ادبی بات ہو تی ہے، ہمیشہ کچھ نہ کچھ سیکھنے کا موقع ہی ملتا ہے۔ اور مذہب کے معاملے میں ہم دونوں کی سوچ قدرے مشترک ہے۔ اس سے اور ایک آدھ اور معتدل، دین کی آگاہی رکھنے والے، پڑھے لکھے مسلمان دوستوں سے رائے مانگی۔ کیونکہ میرا دماغ جو انسانیت کو ہمیشہ مذہب سے آگے رکھ دیتا ہے، اور اس معاملے میں مجھ سے مذہبی بھول چوک ہو نے کا امکان بڑھ جا تا ہے تو safe sideکے لئے ان سے پوچھا۔  ان کا جواب یہی تھا کہ مرتد سے رابطہ توڑنے کا حکم نہیں۔ بلکہ رابطہ رکھنا چاہیئے تاکہ دوبارہ مائل کیا جا سکے۔ بائیکاٹ یا قتل کا کوئی حکم، قران پاک میں کہیں پر نہیں ہے۔

حامد نے مجھے لنکس بھیجے، قران پاک کی آیات بھیجیں، جن میں صاف صاف لکھا تھا کہ قران پاک انسانیت کے اوپر ایک احسان ہے، ایک انسان کو قتل کرنا، انسانیت کو قتل کر نے کے مترادف اور ایک انسان کو بچانا، پوری انسانیت کو بچانے کے مترادف ہے۔ بار بار کئی آئیتوں میں، جگہ جگہ لکھاہے کہ” اسلام جبر کا مذہب نہیں ہے”۔ اور شرک، کفر اگر ناقابلِ معافی جرم ہیں تو انکی معافی اور سزا کا حق صرف خدائے برتر کی ذات کو ہے۔ تو خدا کی جگہ سزا اور جزا کے فیصلے کر نے والے کیا خود خدا کے دائرہ اختیار میں مداخلت کر کے شرک کے مر تکب نہیں ہو رہے؟

سوچیں!! ڈاکٹر اسرار احمد جب اپنے لیکچر میں یہ کہہ رہے ہیں کہ مرتد قابلِ قتل ہے تو وہیں پر آگے چل کر خود ہی فرما رہے ہیں کہ قرانِ پاک میں ایسا کوئی حکم نہیں ہے بلکہ یہ حضرت موسی کی” تورات “سے مستعار ہے۔ تو سوچیے ایک مسلمان کے لئے قابلِ عمل قرانِ پاک ہے یا متروک مذہبی کتابیں، جن کو تازگی اور عالمگیر،آفاقی وسعت بخشنے کے لئے ہی قران کو نازل کیا گیا تھا۔ قران پاک کی توہین کرنے والے یہ نام نہا د مفتی ہیں، جو خود ساختہ فتوے گھڑتے ہیں۔ اور انسانوں میں انتشار اور بدامنی پھیلاتے ہیں۔ یہ نام نہاد فتوی فروش سزا کے مستحق ہیں۔ خدارا سوچیئے! مولوی اور اسلام کو الگ الگ کر کے سوچیں گے تو تصویر بالکل مختلف بنے گی، جس میں محبت، امن اور سچائی کے رنگ ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).