خدارا ہمیں پریشان ہو لینے دیجئے


\"malihaکچھ روز قبل ایک پرائیوٹ یونیورسٹی کی طالبہ نے جامعہ کی دیوار پر اظہار رائے کی آزادی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سینٹری نیپکنز کے استعمال کے حوالے سے پاکستان میں مروجہ مفروضوں اور رویوں کیخلاف احتجاج کی کوشش کی تھی۔ اس احتجاج کی تصاویر جب سوشل میڈیا کی زینت بنی تو بحث کے ایک طوفان نے جنم لے لیا۔ کچھ کے خیال میں یہ محض امیر طبقے کے چونچلے ہیں جہاں کی نوجوان نسل کے پاس وقت گزاری کیلئے کوئی مثبت سرگرمی نہیں تو کچھ کے نزدیک یہ خواتین میں بڑھتی ہوئی جرات کی مثال اور ایک مثبت پیش رفت ہے۔ ہم سب میں بھی ’’ آپ شرمندہ کیوں ہیں‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون پڑھنے کو ملا جس میں اس رویئے کی نفی کی گئی اور یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ نوجوانوں کی جانب سے ایسے مسائل پر آواز اٹھانے کی ضرورت ہے جن کا تعلق عام معاشرے سے ہو۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ طے کون کرے گا کہ معاشرے میں درپیش افراد کو مسائل میں سے کون سا مسئلہ ’’ عام معاشرے‘‘ کا مسئلہ ہے اور کون سا فرد کا انفرادی؟

عین ممکن ہے کہ مضمون نگار کو، شجر ممنوعہ سمجھے جانے والے زندگی کے اس پہلو کے حوالے سے انہیں انتہائی سازگار ماحول مہیا رہا ہو، لہذا ان کے نزدیک اس موضوع پر آواز اٹھانا محض وقت کا ضیاع یا پھر امیروں کے چونچلے ہوں تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ یہ عام خواتین کا مسئلہ ہی نہیں ہے۔ مانا کہ بی این یو کی دیوار پر چسپاں چند سلوگنز انتہائی احمقانہ بھی معلوم ہو رہے تھے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ معاشرے کے بہت بڑے طبقے میں خواتین کے ان تکلیف دہ ایام کے حوالے سے عجیب و غریب نظریات موجود ہیں۔ اب اسے برصغیر کے اصل باسی یعنی کہ ہندو تہذیب سے قبول کئے جانے والے اثرات کا نتیجہ قرار دیجئے یا پھر جہالت کا سبب لیکن مان لیجیئے کہ معاشرے میں آج بھی ایسے گھرانوں کی کمی نہیں جہاں خواتین کا ان مخصوص دنوں میں باورچی خانے میں داخلہ ممنوع ہوتا ہے۔ ان کے زیر استعمال رہنے والے بستر سے لے کر برتن علیحدہ ہوتے ہیں جنہیں بعد ازاں پاک کیا جاتا ہے۔ کچھ کے ہاں مہندی سے آرائش، ناخن تراشنے جیسے امور پر بھی پابندی ہوتی ہے تو کئی خواتین کو پابند بنایا جاتا ہے کہ وہ اپنے جیون ساتھی کے ہمراہ ایک بستر پر نہیں سوئیں گی۔ آسان اور مختصر الفاظ میں خواتین کے ساتھ ان چند دنوں کے اندر کم وبیش وہی سلوک ہوتا ہے جو کہ ٹریجڈی فلموں میں ٹی بی کے مرض میں مبتلا مظلوم ہیروئن کے ساتھ اس کی ظالم چچی روا رکھتی ہے یا پھر بیوگی کی چادر اوڑھ لینے اور ستی ہونے سے انکاری بیوہ کے ساتھ دکھایا جاتا ہے۔ مانا کہ پورے معاشرے میں یہ جہالت موجود نہیں لیکن یہاں بھی وہی معاملہ ہے کہ ’’ جس تن لاگے سو تن جانے‘‘۔ مختصر یہ کہ ایک جانب تو محترمہ جیسی خواتین ہیں جنہیں حیض کے مسائل پر بات کرنا اس لئے مناسب محسوس نہیں ہوتا کہ شرم و حیا ہماری معاشرتی روایات کی خوبصورتی ہے تو دوسری جانب ایسے لوگوں کی بھی کوئی کمی نہیں جو خواتین کے زیادہ شدید نوعیت کے مسائل جیسا کہ زیادتی، تیزاب گردی اور غیرت کے نام پر قتل کا تذکرہ سامنے آنے پر بھی محض اس لئے بدک جاتے ہیں کہ یہ معاشرے کی بدصورت تصویر پیش کرتے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب شرمین عبید چنائے جیسی خواتین تیزاب گردی اور غیرت کے نام پر قتل جیسے بہیمانہ سلوک کا سامنا کرنے والی خواتین کو اپنی فلموں کا موضوع بناتی ہیں تو اس پر بھی اعتراض اٹھایا جاتا ہے کہ یہ مغربی سازش کا شکار خواتین ، مخصوص ایجنڈے کے تحت پاکستان کو بدنام کرنے کیلئے مخصوص موضوعات کو ہی چنتی ہیں اور جب سینٹری نیپکن کی خریداری اور استعمال جیسے موضوعات پر آواز اٹھانے کی بات کی جاتی ہے تو اس پر وہ حلقہ اعتراض اٹھا دیتا ہے جو ہر معاملے میں قرآن و حدیث کو بیچ میں لانا نہیں بھولتا کہ یہ سراسر بے حیائی کا معاملہ ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہی مذہب جس کے حوالے سے پاکستانی خواتین کے حیض جیسے جسمانی مسئلے کو ایک خفیہ مشن کی سی شکل دے دی جاتی ہے، ان مسائل کو زیر بحث لانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا ، یہی وجہ ہے کہ مقدس کتابوں میں حیض، شوہر اور بیوی کے درمیان تعلقات سمیت تمام امور زندگی کے بارے میں مسائل کھول کھول کے بیان کئے گئے ہیں۔

مسئلہ یہ نہیں کہ سینٹری نیپکنز کے استعمال و خریداری میں خواتین کو آزادی حاصل ہونی چاہئے یا نہیں، مسئلہ یہ ہے کہ بحیثیت پاکستانی قوم ہماری عادت بن چکی ہے کہ ہمیں معاشرے میں تبدیلی کیلئے بلند ہونے والی ہر آواز پر اعتراض اٹھانے کی عادت ہوچکی ہے۔ اسی لئے ہمیں ملالہ یوسف زئی بھی بری لگتی ہے، شرمین عبید چنائے بھی مغرب کی ایجنٹ دکھائی دیتی ہے اور سینٹری نیپکنز کا تذکرہ کرنے والی طالبہ بھی ناقابل برداشت محسوس ہوتی ہے۔ خدارا ان آوازوں کو بلند ہونے دیجئے کہ یہی معاشرے میں زندگی کی علامت ہیں۔ خدارا ہمیں سینٹری نیپکن جیسے ’’ معمولی ‘‘ مسئلے پر آواز اٹھا لینے دیجئے، ہمیں پریشان ہو لینے دیجئے۔

ملیحہ ہاشمی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ملیحہ ہاشمی

ملیحہ ہاشمی ایک ہاؤس وائف ہیں جو کل وقتی صحافتی ذمہ داریوں کی منزل سے گزرنے کر بعد اب جزوقتی صحافت سے وابستہ ہیں۔ خارجی حالات پر جو محسوس کرتی ہیں اسے سامنے لانے پر خود کو مجبور سمجھتی ہیں، اس لئے گاہے گاہے لکھنے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

maliha-hashmi has 21 posts and counting.See all posts by maliha-hashmi

Subscribe
Notify of
guest
19 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments