قندوز کے معصوم بچے اور افغان جنگ


قندوز میں ایک مدرسے پر دو اپریل 2018 بروز پیر افغان حکومت کے ہیلی کاپٹروں نے بمباری کر کے درجنوں معصوم بچے مار ڈالے ہیں جو حفظ قرآن ختم کرنے کی تقریب کے سلسلے میں اکٹھے ہوئے تھے۔ بلاشبہ معصوم بچوں کا اس طرح وحشیانہ قتل ایک بھیانک جرم ہے۔ افغانوں کے لئے ہیلی کاپٹروں کی گولہ باری سے درجنوں ننھے منے معصوم بچے مار دیے جانے والا یہ دن شاید ویسا ہی غمگین ہو گا جیسا اہل پاکستان کے لئے سولہ دسمبر 2014 تھا جب تحریک طالبان پاکستان نے آرمی پبلک سکول پشاور میں ننھے بچوں کے قریب جا جا کر ان کے سروں میں گولیاں ماری تھیں۔ اسی دن ایک دوسرے واقعے میں ہلمند کے ایک سکول کی 48 بچیاں بیمار ہو کر ہسپتال پہنچ گئیں۔ حکومت اور ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ گیارہویں جماعت کی ان بچیوں کو زہر دیا گیا تھا مگر خوش قسمتی سے ان کی جان بچ گئی۔ ہم جنگ میں بچوں کو اس طرح نشانہ بنانے کی مذمت کرتے ہیں۔

مدرسے پر حملے کے اس واقعے کے بارے میں افغان حکومت کا دعوی ہے کہ ”کم از کم 59 افراد، جن میں طالبان کمانڈر شامل تھے، قندوز کے علاقے دشت ارچی کے ایک احاطے میں میٹنگ کرتے ہوئے ایک حملے میں مار ڈالے گئے ہیں“۔ چند دن پہلے 26 مارچ کو افغان وزارت دفاع نے اپنے ایک بیان میں یہ دعوی کیا تھا ”کم از کم چودہ باغی جن میں تین داعشی جنگجو شامل ہیں، جو پاکستانی شہری تھے، افغان ائیرفورس کی قندوز اور ننگرہار صوبوں کی بمباری میں مار دیے گئے ہیں“۔

قندوز تاجکستان کی سرحد سے تقریباً 50 کلومیٹر دور واقع ہے۔ یہ ایک اہم علاقہ ہے کیونکہ اطلاعات کے مطابق آج کل روس اس راستے سے طالبان کی مدد کر رہا ہے۔ روس کے دو مقاصد ہیں۔ ایک تو یہ کہ طالبان کے ذریعے داعش کا راستہ روکا جائے جو مستقبل میں اس کے لئے بڑی پریشانی کا سبب بن سکتی ہے، اور دوسرا یہ کہ امریکہ سے اس ہزیمت کا بدلہ لیا جائے جو سوویت افغان جنگ میں اسے اٹھانی پڑی تھی۔ افغان حکومت اس سپلائی روٹ کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ یوں قندوز مستقل ایک گرم محاذ بنا ہوا ہے۔

28 ستمبر 2015 کو قندوز اس وقت خبروں میں آ گیا تھا جب طالبان نے اس پر اچانک حملہ کر کے قبضہ کر لیا تھا جو کئی دن برقرار رہا۔ 3 اکتوبر 2015 کو امریکی جنگی جہازوں نے قندوز کے ایک ہسپتال پر بمباری کر کے کئی ڈاکٹر اور مریض مار ڈالے۔ یہ ہسپتال مشہور بین الاقوامی تنظیم ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز چلا رہی تھی۔ تنظیم کی جانب سے امریکی اور افغان حکام سے رابطہ کرنے کے بعد بھی یہ بمباری نصف گھنٹے تک جاری رہی۔ اس وقت بھی افغان حکومت نے یہ الزام لگایا تھا کہ ہسپتال میں دس سے پندرہ دہشت گرد پناہ لئے ہوئے تھے اس لئے بمباری کی گئی۔

قندوز کے والدین کی مصیبت یہ بھِی ہے کہ ادھر سکولوں کو طالبان نشانہ بناتے ہیں اور مدرسوں کو افغان حکومت نشانہ بنا رہی ہے۔ وہ اپنے بچے کہاں پڑھائیں؟ افغان محکمہ تعلیم کے مطابق قندوز میں سوا تین لاکھ بچے تعلیم سے محروم ہیں جن میں سوا لاکھ لڑکیاں شامل ہیں۔ اس کی وجہ سکولوں کی بندش ہے۔ 31 مارچ 2018 کی خبر کے مطابق قندوز میں سینکڑوں اساتذہ نے احتجاج کیا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ قندوز کے 500 میں سے 300 سکول طالبان نے بند کر دیے ہیں۔ ان کو چھے ماہ سے تنخواہ نہیں ملی۔ طالبان کا یہ کہنا تھا کہ بینک سے تنخواہ وصول کرنا غلط ہے اس لئے سکول بند کیے گئے ہیں۔ جبکہ بظاہر معاملہ یہ ہے کہ طالبان سرکاری سکول بند کر کے مدرسوں کو ان کی جگہ دینا چاہتے ہیں۔

یہ واضح بات ہے کہ جب جنگ چھڑتی ہے تو جنگجو بھی مارے جاتے ہیں اور شہری بھی۔ جب بم پھٹتا ہے، خواہ وہ خودکش دھماکہ ہو یا فضائی بمباری، تو بلا تخصیص سب کو مارتا ہے۔ وہ نہیں دیکھتا کہ کون بچہ ہے اور کون بڑا۔

نہ تو افغان حکومت تمام طالبان کو قتل کر سکتی ہے اور نہ طالبان افغان حکومت کو گرا سکتے ہیں۔ لڑائی ہو گی تو افغان ہی مریں گے۔ امریکہ کی براون یونیورسٹ کے مطابق اگست 2016 تک کے اعداد و شمار کے مطابق جنگ میں کل ملا کر تقریباً 7047 امریکی فوجی، اتحادی، کنٹریکٹر اور سول ملازمین مارے گئے ہیں۔ ان میں صرف 2371 امریکی فوجی شامل ہیں۔ جبکہ مارے جانے والے افغانوں کی تعداد 104395 ہے جن میں افغان طالبان، فوجی اور عوام شامل ہیں۔ گویا ہر امریکی فوجی کے بدلے 44 افغان مرتے ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں افغان بے گھر ہیں اور دوسری قوموں کی امداد پر پل رہے ہیں۔

کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ افغان آپس میں مل بیٹھ کر صلح کر لیں؟ اگر طالبان اتنے ہی مقبول ہیں تو وہ ووٹ سے اپنی حکومت بنا لیں گے۔ افغان حکومت اور امریکی تو ان کی منتیں کر رہے ہیں کہ وہ سیاسی عمل میں شامل ہوں۔ جنگ کے ذریعے امریکیوں کو نکالنے میں تو گزشتہ 17 برس سے ناکامی ہو رہی ہے، صلح کے ذریعے نکالنے پر غور کر لیں۔ جب افغان حکومت اور طالبان کی یہ خانہ جنگی ختم ہو گی تو امریکیوں کو یا تو افغانستان سے مکمل طور پر نکلنا پڑے گا یا دو چار ہزار فوجی چند اڈوں میں رکھ کر ان تک محدود رہیں گے۔ اگر طالبان افغانوں میں مقبول نہیں ہیں تو کیا وہ خود امن سے حکومت کر پائیں گے؟ اگر یہ صلح نہیں ہوتی ہے تو قندوز نہ تو پہلا واقعہ ہے اور نہ آخری ہو گا اور ہم صرف غم ہی کرتے رہیں گے۔ بندوق نے ہی فیصلہ کرنا ہے تو وہ خون بہا کر ہی فیصلہ کرتی ہے۔ جو اونٹوں سے دوستی کرتے ہیں ان کو اپنے دروازے بلند رکھنے ہی پڑتے ہیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar