میری آنکھیں میری مرضی، اس کے ہاتھ اس کی مرضی


جب اس نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا، اس کی عمر بائیس سال تھی۔ وہ فطرتاً حساس واقع ہوا تھا لیکن اب اس نے اپنی یہ حساسیت کہیں دور جا پھینکی تھی۔ اس میں ہونے والی اس بڑی تبدیلی کی وجہ وہ دھوکہ تھا جو اسے اپنے پہلے پیار کے نتیجے میں ملا تھا۔

اس لڑکی سے اس کا رابطہ فیس بک کے ذریعے ہوا تھا۔ کسی گروپ کی پوسٹ پر اس کا کمنٹ دیکھا تو رپلائی کیے بنا نہ رہ سکا۔ آگے سے اس لڑکی کا جو جواب آیا تو یہ بے اختیار ہنس پڑا۔ فوراً اس کے نام پر کلک کیا۔ اس لڑکی کی پروفائل اسے کافی دلچسپ لگی۔ کچھ سوچ کر اس نے میسج آپشن پر کلک کیا اور ’ہائی ڈئیر‘ ٹائپ کر کے سینڈ کا بٹن دبا دیا۔ چند ہی سیکنڈ گزرے ہوں گے کہ میسج کی گھنٹی بجی جسے سن کر اس کا دل خوشی سے ناچنے لگا۔

ہائے ہیلو سے شروع ہونے والی گفتگو کب رات دن چلنے والی چیٹنگ میں تبدیل ہوئی، پتہ ہی نہ لگا۔ ڈرتے ڈرتے پہلی ڈیٹ بھی کر لی جس کے بعد مزید کا حوصلہ ہوا۔ اب دونوں ہفتے میں ایک بار ضرور ملتے تھے۔ ان کی زندگی ایسی ہی ہنستی مسکراتی جاری رہتی اگر لڑکی کا بھائی اپنی بہن کو فون پر کھلکھلاتے ہوئے گفتگو کرتے نہ دیکھ لیتا۔ اپنی بہن کو کسی اجنبی سے فون پر بات کرتا دیکھ کر اس کا خون کھول اٹھا تھا، بہن کے ہاتھ سے موبائل لے کر پھینکا اور زور سے اس کے منہ پر تھپڑ مارا۔ اب اس لڑکی کا گھر سے نکلنا منع تھا، دو ماہ بعد اس کی اپنے چچا کے بیٹے سے شادی بھی کروا دی گئی۔

اب وہ لڑکا دنیا سے بددل ہو گیا تھا۔ اسے لگتا تھا کہ اگر اس کی محبوبہ چاہتی تو وہ اس رشتے سے کسی نہ کسی طرح انکار کر سکتی تھی مگر اس نے ایسا نہیں کیا۔ اب وہ تھوڑا سا لفنٹر ہو گیا تھا۔ یونیورسٹی میں لڑکیوں کو دیکھنا اپنا حق سمجھتا تھا، پاس سے گزرتے ہوئے دھیمی آواز میں ماشاءاللہ بھی کہہ دیتا تھا، گھر جاتے ہوئے کسی گلی میں کوئی لڑکی اکیلی جاتی نظر آتی تو اس کے پاس جا کر بائیک کی رفتار دھیمی کرتا اور اس کی رانوں پر ہاتھ پھیرتا ہوا زن سے بائیک بھگا لے جاتا۔

وہ کہا کرتا تھا کہ یہ عورتیں اسی لیے باہر نکلتی ہیں کہ انہیں چھیڑا جائے۔ دیکھو تو یہ کپڑے کیسے پہنتی ہیں، زیادہ ہی شریف ہیں تو برقع پہن کر نکلا کریں لیکن اب تو ان کا بھی کوئی اعتبار نہیں۔ آدھی رات کے بعد کبھی باہر نکلو تو یہ برقع والیاں گاڑیوں کو رکنے کا اشارہ کر رہی ہوتی ہیں۔

وہ اپنے آُپ کو فخریہ ’تاڑو‘ کہا کرتا تھا۔ دوستوں کے ساتھ باہر جاتا تو آس پاس سے گزرنے والی ہر لڑکی کے ساتھ اس کی گردن بھی مڑ جاتی اور تب تک سیدھی نہ ہوتی جب تک لڑکی آنکھ سے اوجھل نہ ہو جاتی۔ اس کے دوست بالخصوص لڑکیاں اس کی اس عادت سے چڑتی تھیں لیکن وہ ہمیشہ مذاق میں کہا کرتا تھا کہ بھائی ان کا جسم ان کی مرضی تو میری آنکھیں میری مرضی۔

اس کے گھر کی ایک روایت تھی، وہ لوگ ہر سال جنوری میں مری کی سیر کو جایا کرتے تھے۔ اس سال ان کا ارادہ ذرا جلدی جانے کا ہو گیا۔ ابھی دسمبر ہی تھا پر سنا تھا مری میں بہت برفباری ہو رہی ہے۔ برفباری کا دیوانہ پورا گھر سامان پیک کر مری پہنچ گیا۔ ایک ہفتے کے بعد جب وہ یونیورسٹی پہنچا تو کافی پرجوش تھا۔ دوستوں کو اپنی مری یاترا کے قصے سنا رہا تھا۔ مال روڈ کا ذکر آیا تو کہنے لگا، ”ارے بھائی! مال روڈ کا تو حال ہی نہ پوچھو۔ اتنا رش تھا وہاں کہ کیا بتاؤں۔ اوپر سے دو بہنیں اور امی بھی ساتھ تھیں۔ ہم بھائیوں نے کیا کیا کہ ایک ان کے آگے چلنے لگا، دو پیچھے، ایک دائیں اور ایک بائیں۔ وہاں تو پتہ نہیں کیسے کیسے لونڈے لپاڑے آئے ہوتے ہیں۔ ہمیں دیکھ کر بہنوں سے دور دور رہے ورنہ تمہیں تو پتہ ہی ہے آج کل کے حالات کا۔ بھائی کہہ رہے تھے یہ اچھا طریقہ ہے، اب سے پر عوامی جگہ ہم اپنی بہنوں کو ایسے ہی گھیرے میں لے کر چلا کریں گے۔ “

اتنے میں اسے ڈیپارٹمنٹ کے گیٹ سے ایک لڑکی اندر آتی دکھائی دی، لڑکی نے جدید انداز میں سلا ہوا کرتا اور پاجامہ پہنا ہوا تھا۔ جیسے ہی لڑکی اس کے پاس سے گزری اس نے دھیمی آواز میں کہا، ماشاءاللہ۔ لڑکی رک گئی، وہ حیران ہوا۔ عموماً لڑکیاں اس کے کمنٹس سن کر اگنور کر دیتی تھیں۔ یہ کیوں رک گئی تھی؟

اب لڑکی اس کے سامنے آن کھڑی ہوئی تھی۔ اس کا دایاں ہاتھ اٹھا اور زور سے اس کے گال پر پڑا۔ آس پاس کے سب لوگ انہیں دیکھنے لگے۔ ابھی وہ سمجھنے کی کوشش ہی کر رہا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے کہ لڑکی نے ایک اور تھپڑ اس کے گال پر جڑ دیا۔

ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر دور سے یہ منطر دیکھ رہے تھے، وہ بھاگتے ہوئے وہاں پہنچے۔ لڑکی نے انہیں بتایا کہ یہ لڑکا ہر لڑکی کو دیکھ کر کمنٹس کرتا ہے اور پچھلے دنوں اس نے ڈیپارٹمنٹ کی ایک لڑکی کو نامناسب انداز میں چھیڑا بھی تھا۔ ڈائریکٹر نے فوری طور پر اس کی ریجسٹریشن کینسل کی اور اسے ڈیپارٹمنٹ سے نکلوا دیا۔ تب سے وہ لڑکا یونیورسٹی کے گیٹ کے باہر ایک پوسٹر لے کر کھڑا ہوتا ہے جس پر موٹے حروف میں لکھا ہوتا ہے، میری آنکھیں میری مرضی، اس کے ہاتھ اس کی مرضی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).