ملالہ مرجانی


پچھلے برس ملالہ یوسف زئی ایک انیس برس کی پٹھان پاکستانی لڑکی، سرکونہایت پینڈو انداز میں دوپٹے سے ڈھانپے ہوئے جب یو این او کی خصوصی دعوت پر جنرل اسمبلی کے ہال میں داخل ہوئی تو دنیا بھر کے سفارتی نمائندے سو سے زیادہ ملکوں کے سفارتکار اس کے استقبال کے لیے کھڑے ہو کر دیر تک تالیاں بجاتے رہے۔ میں نے اس منظر کوٹیلی ویژن پر دیکھا کہ ملالہ کیسے ایک پُرسکون اعتماد کے ساتھ ڈائس پر پہنچتی ہے اور پھر فی البدیہہ ایک ایسی تقریر کرتی ہے جس کے بارے میں اخباروں نے لکھا کہ اسے دنیا بھر کے بچوں کے نصابوں میں شامل ہونا چاہیے۔

اس سے پیشتر صرف یہ مشال اوبامہ تھی جس کی ایک تقریر کو تاریخی قرار دے کر امریکہ کے بچوں کے نصابوں میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا، دنیا بھر کے نہیں۔ یاد رہے کہ یہ فورم ہے جہاں ہمارے نا اہل ہو چکے میاں صاحب چوری چھپے پرچیاں پڑھ پڑھ کر بمشکل تقریر کرتے تھے۔ ملالہ کی اس تقریر کو میری بیٹی ڈاکٹر عینی نے بتایا کہ پاکستانی ڈاکٹروں نے ریکارڈ کیا اور اپنے امریکی کولیگز کو اس کی کاپیاں روانہ کیں کہ آپ ہمیں دہشت گرد کہتے ہو، ذرا دیکھو ایک پاکستانی لڑکی یو این او میں کیسی موثر تقریر کرتی ہے۔

مجھے یو این او کے ایک پاکستانی سفارتکار نے بتایا کہ ملالہ کی تقریر کے بعد ہم بہت فخر سے یو این کی راہداریوں میں چلے اور یاد رہے وہ کبھی بھی اپنی تقریرمیں اپنے خون کے پیاسے طالبان کوبرا بھلا نہیں کہتی، البتہ کبھی کبھی وہ تذکرہ کرتی ہے کہ پاکستانی ڈاکٹروں نے دراصل پورے نو گھنٹے اس کے دماغ کا آپریشن کر کے اس کی زندگی بچائی اور اسے انگلینڈ علاج کے لیے بھیجنے کا فیصلہ ان کے خاندان نے نہیں، حکومت پاکستان نے کیا تھا۔

وہ جہاں بھی جاتی ہے اسے ایک وی آئی پی پروٹوکول دیا جاتا ہے۔ صرف یورپ میں نہیں بلکہ افریقہ کے ملکوں میں بھی۔ بوکو حرام والے ”اسلامی‘‘ ملکوں نے جب سینکڑوں بچیوں کو اغوا کر کے انہیں اپنا غلام بنایا، نکاح زبردستی کر کے بچے پیداکیے تو کیا پاکستان میں کسی بھی مذہبی یا سیاسی جماعت نے کچھ احتجاج کیا۔ اس لیے کہ بوکوحرام نائیجیریا کے طالبان تھے اور طالبان جہاں کہیں کے ہوں ہم ان کے لیے اپنے دل میں ایک نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ البتہ ملالہ نے ان بچیوں کی آزادی کی تحریک چلائی۔ کیا کوئی جانتا ہے کہ اسرائیل کے گھیرے میں آیا ہوا علاقہ غزہ ایسا ہے جہاں ملالہ یوسف زئی کی کوششوں سے لڑکیوں کا ایک بہت بڑا سکول قائم ہو چکا ہے۔

ویسے آج ہی خبر آئی ہے کہ اسرائیلیوں نے سولہ فلسطینی نوجوانوں کو ہلاک کرڈالا ہے۔ یہ وہ مکھیاں ہیں جنہیں اسرائیلی مارتے ہی رہتے ہیں اور آپ دیکھئے گا کہ ہماری وزارت خارجہ جو سعودی عرب پر فائرکیے گئے میزائل پر، جس کی زد میں نہ کوئی آیا نہ کوئی جان سے گیا، یکدم مشتعل ہو جاتی ہے۔ آپ دیکھئے گا کہ سولہ فلسطینیوں کی ہلاکت پر یہ وزارت کچھ نہ کہے گی کہ یہ تو خون خاک نشین تھا رزق خاک ہوا۔

آپ کو یاد ہو گا جب ملالہ یوسف زئی پر طالبان نے جو یقیناًبہت بہادر لوگ ہیں حملہ کیا تھا، ایسے شجاع تھے کہ ایک بچی سے ڈر گئے تھے تو ہم میں سے کچھ ایسے محب الوطن صحافی حضرات تھے جنہوں نے حلفیہ بیان دیے تھے کہ یہ تو ایک ڈرامہ تھا۔ بھلا کیسے ہوسکتا ہے کہ گولی دماغ کے پاس سے گزر جائے اور وہ پھر بھی زندہ بچ جائے۔ اسے ایسے ایسے غلیظ ناموں سے پکارا گیا۔ یہاں تک اسے ڈالر ملالہ اور فاحشہ ملالہ بھی کہا گیا۔ ان سب کو صرف ایک قلق تھا کہ آخر وہ مر کیوں نہ گئی۔ مر جاتی تو وہ مطمئن ہو جاتے۔

آج جب وہ اپنے گھر لوٹی ہے ساڑھے پانچ برس کی جلاوطنی کے بعد تو آج بھی وہاں ایک مرے ہوئے سانپ کی مانند بل کھاتے تڑپتے ہیں۔ کبھی غور کیجئے وہ ملالہ جو ایک ڈرامہ تھی اس کی ایک آنکھ ٹیڑھی ہو چکی ہے، ہونٹ سکڑ گئے ہیں اور ایک کان بیکار ہو چکا ہے، اس لیے کہ اس پر تو کبھی حملہ ہوا ہی نہیں۔ یہ سب تو طاغوتی اور یہودی سازشوں کے نتیجے ہیں۔ ایک اور موقع پر جب پاکستان کی یو این او میں سفیر ملیحہ لودھی نے ملالہ کو خصوصی طور پر مدعو کیا تو میری پوتی مشال اس کا استقبال کرنے والوں میں شامل تھی۔ مشال نے مجھے کچھ تصویریں بھیجیں جن میں وہ ملالہ سے باتیں کر رہی ہے اور مشال کا کہنا تھا کہ دادا میں اپنی ہم جماعت امریکی لڑکیوں کو کہتی ہوں کہ ذرا دیکھو ہمارے پاکستان کی لڑکیاں ایسی ہوتی ہیں۔

ملالہ لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے دنیا کا سب سے بڑا سمبل بن چکی ہے۔ یورپ اور امریکہ کی لائبریریوں میں جہاں دنیا بھر کے ادیبوں اور سائنس دانوں کی تصویریں آویزاں ہوتی ہیں، وہ اس دوپٹے والی دیہاتن کی تصویر بھی دکھائی دے سکتی ہے۔ میں نے اسے یو این او کے علاوہ کینیڈا کی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے دیکھا اور سنا اور وہاں بھی لوگ اس کے استقبال میں کھڑے ہو گئے اور اسے کینیڈا کی اعزازی شہریت عطا کی گئی۔ میں نے اسے صدر اوبامہ اور ملکہ الزبتھ کے ساتھ اس اعتماد سے گفتگو کرتے دیکھا جیسے وہ ان کی پھپھی لگتی ہو۔ پرنس فلپ تو اس کے مزاج سے لطف اندوز ہوتے قہقہے لگا رہے تھے۔

نوبل امن انعام کو وصول کرتے ہوئے اس کی تقریر نے نہ صرف سویڈن کے بادشاہ بلکہ دنیا بھر سے آئے ہوئے ادیبوں اور سائنسدانوں کو موہ لیا۔ اسے اگر نوبل انعام سے نوازا گیا تو یہ بھی ایک سازش تھی۔ اس سے پیشتر ڈاکٹر عبدالسلام کا نوبل انعام تو بہرحال ایک بین الاقوامی سازش تھی۔ میں اپنے کسی کالم میں اقرار کر چکا ہوں کہ پاکستان بھر میں اگر کوئی شخص نوبل انعام کا حقدار تھا تو وہ بابا ایدھی تھا۔ ہزاروں ملالائیں بھی اس کی ہمسری نہیں کرسکتیں لیکن اسے کیوں یہ انعام نہ ملا۔ یہ آپ کی حکومتیں تھیں جو چاہتی ہی نہ تھیں کہ بابا ایدھی یہ انعام حاصل کر کے ان سب لیڈران کرام، زرداری، نوازشریف پر حاوی ہو جائے (اگرچہ نوبل کے بغیر بھی وہ حاوی ہو چکا ہے)۔ سب سے بڑا مسخرہ پن تو پیپلزپارٹی نے کیا جس نے سالک جیسے مسخرے کو سرکاری طور پر نوبل انعام کے لیے نامزد کیا۔ اگر ملالہ کو مغرب نے نوازا اور اسے نوبل انعام مل گیا تو اس میں ملالہ کا کیا قصور۔

جس طور ملالہ بین الاقوامی اداروں کی سٹیج پرکھڑے ہو کر پراعتماد اور موثر تقریریں کرتی ہے، شاید کسی اور انیس برس کی لڑکی نے کی ہوں اور اس کا ایک سبب ہے۔ وہ ایک پٹھان لڑکی ہے۔ میری بیگم میمونہ کا مشاہدہ ہے کہ جونہی آپ اٹک کے پار جاتے ہیں، سوات یا پشاور جاتے ہیں تو وہاں کے لوگ، دکاندار اور راہ چلتے لوگ آپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے ہیں اور ان آنکھوں میں میل نہیں ہوتی جبکہ ادھر پنجاب میں لوگ آنکھیں چراتے بات کرتے ہیں کہ ان کی آنکھوں میں کچھ کچھ ہوتا ہے۔ مجھے بہت برس پیشتر پشاور کے خیبر میڈیکل کالج میں مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کیا گیا اور وہاں جو خواتین میرا گھیراؤ کرتی تھیں وہ سب بلاجھجک میری آنکھوں میں بے دریغ تکتی مجھ سے باتیں کرتی تھیں صرف اس لیے کہ ان کے معاشرے میں عورت ایک پرتقدس تکریم ہے، وہ تصور نہیں کرسکتیں کہ کوئی مرد ان کی جانب بری نظر سے دیکھے گا۔ یہ ایک پٹھان معاشرے کی خصلت ہے۔

ملالہ یوسف زئی میں اعتماد اور وقار سے بادشاہوں، ملکاؤں اور دنیا بھر کے لوگوں سے بات کرتی ہے وہ اس پٹھان معاشرے کا عطیہ ہے۔ ویسے یہ بھی ایک عطیہ خداوندی ہے کہ کچھ لوگوں کو، بے شک ان کی اوقات نہ ہو وہ غیر معمولی نہ ہوں، ایک کرشمہ عطا کردیا جاتا ہے۔ لوگ ان کی محبت میں بے وجہ مبتلا ہو جاتے ہیں۔ جیسے فضل محمود، جیسے شاہد آفریدی اور پھر عمران خان۔ اگر سیاست کی جانب نظر کریں تو ذوالفقار علی بھٹو اور اب پھر عمران خان۔ اس طور ملالہ یوسف زئی کو یہ کرشمہ عطا کردیا گیا ہے۔

اور آخر میں آپ کی تفریح طبع کے لیے ملالہ کے بارے میں ایک تازہ ترین تحقیق کا تذکرہ کرتا جاتا ہوں۔ جو ایک معاصر اخبار میں شائع ہوئی ہے کہ ”ملالہ یوسف زئی ہرگز پٹھان نہیں، وہ ایک کاکیشیائی باشندہ ہے جس کے آباؤ اجداد پولینڈ میں پائے جاتے ہیں۔ اس کا اصل نام جین ہے اور وہ 1997ء میں ہنگری میں پیدا ہوئی تھی اور اس کے عیسائی ماں باپ اسے ضیاء الدین کو گفٹ کے طور پر دے گئے تھے۔ یعنی وہ مشہور مصورہ امرتا شیر گل کی مانند ہنگری میں پیدا ہوئی تھی۔ علاوہ ازیں تحقیق سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ اس پر حملہ کرنے والے معصوم بے چارے طالبان تو نہ تھے بلکہ ان کا تعلق اٹلی سے تھا اور یہ بلیک واٹرز کی کارروائی تھی۔ ‘‘

میں بہت دنوں سے رنجیدہ تھا کہ اس صدی کا ایک بہت بڑا سائنسدان اور محقق سٹیفن ہاکنگ مر گیا ہے تو اس جینئس کا خلا کیسے پورا ہو گا تو مجھے ملالہ کے بارے میں یہ ”حقائق‘‘ پڑھ کر بے حد مسرت ہوئی کہ اللہ کے فضل سے ہمارے درمیان ابھی تک ایسے محقق اور سائنسدان موجود ہیں جنہوں نے ناقابل تردید ثبوت پیش کردیئے ہیں کہ ملالہ کے ماں باپ پولینڈ کے تھے وہ ہنگری میں پیدا ہوئی اور اس پر حملہ آور لوگ اٹلی کے رہنے والے تھے۔ ملالہ یوسف زئی تم میری ایسی بیٹی ہو جو اگرچہ میرے گھر میں پیدا نہ ہوئی پر مجھے خواہش ہے کہ اگر عینی کے علاوہ میری کوئی بیٹی ہوتی تو تم جیسی ہوتی۔ میں تمہیں اپنے گھر اپنے پاکستان میں خوش آمدید کہتا ہوں کہ
آواز سگاں کم نہ کند رزق گدارا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مستنصر حسین تارڑ

بشکریہ: روزنامہ 92 نیوز

mustansar-hussain-tarar has 181 posts and counting.See all posts by mustansar-hussain-tarar