اقلیت نے خاکروبی کیسے اختیار کی؟



( پاکستان میں سات عشرے پہلے کی نسبت مسلح افواج سے لے کر سول سرکاری ملازمتوں، نجی کاروبار، تعلیم، صحت اور خدمات کے شعبوں میں مذہبی اقلیتوں کے لیے مواقع بڑھے ہیں۔ پھر بھی اقلیتی اکثریت کو طرح طرح کے ظاہری و پوشیدہ تعصبات، امتیازات اور جبر کی مختلف شکلوں کا سامنا ہے۔ اس تناظر میں ریسرچ اسکالر آصف عقیل کے مقالے ” بعد از تقسیم نقلِ مکانی اور پنجابی مسیحوں کی غیرقانونی آبادیاں ” کے فرائڈے ٹائمز میں شایع ہونے والے اقتباسات کو آج کے کالم کا موضوع بنایا گیا ہے تاکہ اردو قارئین بھی تصویر کے تاریخی رخ سے آگاہ ہوسکیں )۔

گذشتہ برس حکومتِ خیبر پختون خواہ، گزرے جون میں لاہور کے لیڈی ویلنگڈن اسپتال اور اٹھارہ ستمبر کو منڈی بہاؤ الدین کے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر اسپتال نے سینٹری ورکرز کی آسامیوں کے لیے شایع اشتہار میں وضاحت کی کہ صرف غیر مسلم اقلیتی امیدوار اپلائی کریں۔ سترہ ستمبر کو پنجاب کارڈیالوجی اسپتال لاہور نے بھی ایسا ہی اشتہار دیا مگر میڈیا میں تنقید کے بعد اٹھائیس ستمبر کو دوبارہ شایع ہونے والے اشتہار میں کارڈیالوجی اسپتال نے یہ ترمیم کی کہ ان آسامیوں کے لیے بلا امتیاز درخواست دی جا سکتی ہے۔

مسیحی اقلیت کا پاکستانی آبادی میں تناسب ڈیڑھ فیصد بتایا جاتا ہے لیکن ورلڈ واچ مانیٹر کے مطابق خاکروبی اور صفائی کے شعبے میں اسی فیصد کارکنوں کا تعلق اقلیتی ( زیادہ تر مسیحی ) طبقات سے ہے۔ ( اسلام آباد کی کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے تمام ڈیڑھ ہزار صفائی کارکن مسیحی ہیں)۔
برِ صغیر میں تاریخی اعتبار سے ہر طرح کا فضلہ ٹھکانے لگانے، کھیت مزدوری اور جلاد گیری کا کام پست سمجھا جاتا ہے اور ادنی ذاتوں سے توقع کی جاتی تھی اور ہے کہ یہ کام نسل در نسل سنبھالیں۔ انیس سو اکتیس میں بھگت سنگھ کو جس ماہر نے پھانسی دی اس کے بیٹے تارا مسیح نے انیس سو اناسی میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی اور تارا مسیح کابھتیجا صابر مسیح آج یہی خدمات انجام دے رہا ہے۔

انٹرنیشنل دلت سولیڈیرٹی نیٹ ورک کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً چھبیس کروڑ سے زائد افراد ادنی پیشوں سے جبراً منسلک رہنے پر مجبور ہیں۔ ان میں سے بیشتر جنوبی ایشیا میں نسلی امتیاز و ذات پات کے نظام میں جکڑے ہوئے ہیں۔ پاکستانی پنجاب میں پچاس لاکھ سے زائد افراد بھٹہ مزدور کہے جاتے ہیں اور اکثریت مسیحوں کی ہے۔ برِ صغیر میں آنے والے مسلمانوں کے بنیادی عقائد بھلے مقامی آبادی سے بھلے کتنے ہی الگ تھے لیکن انھوں نے پاک اور پلید ذاتوں اور پیشوں کا سبق برہمن سماج سے لیا۔ افغانوں، ترکوں، ایرانیوں اور عرب مسلمانوں نے خود کو اشراف اور مقامی نو مسلم طبقات کو اجلاف ( کمتر ذات ) جانا۔ مسلمانوں کے لیے حاصل کردہ علیحدہ مملکت بھی اس ذہنی تفریق سے چھٹکارا نہ پا سکی۔

گورڈن کالج راولپنڈی میں شعبہِ تاریخ کے سابق استاد سلامت اختر بتاتے ہیں کہ جب آل پاکستان کالج ٹیچرز ایسوسی ایشن کے صدر کی حیثیت سے انیس سو اسی میں ان کی ملاقات اسلام آباد میں سیکریٹری تعلیم سے ہوئی تو انھیں میرے نام سے میرے پس منظر کا اندازہ نہ ہوسکا۔ چنانچہ سیکریٹری صاحب نے باتوں باتوں میں کہا کہ مسیحی اقلیت میں حصولِ تعلیم کا رجحان جس طرح بڑھ رہا ہے اگر یہ ایسے ہی رہا تو چند برس بعد کچرا اٹھانے اور سڑکیں صاف کرنے کے لیے ایک کرسچن بھی نہیں ملے گا۔

تقسیم سے پہلے پنجاب کے علاوہ کراچی اور سندھ کے دیگر شہروں میں صفائی کے کام نچلی ذات کے ہندو کرتے تھے۔ جب سندھ سے ہندو بڑی تعداد میں جانے لگے تو ایوب کھوڑو کی صوبائی حکومت کو یہ عارضی حکم جاری کرنا پڑا کہ ” لازمی خدمات ” انجام دینے والے بغیر این او سی نقلِ مکانی نہیں کر سکتے۔

پنجاب میں صفائی ستھرائی کے کام سے روائیتی جبر کے سبب منسلک نچلی ہندو ذاتوں کی مائیگریشن کے بعد صفائی کے کام میں کرسچن اقلیتوں کو ہنگامی بنیاد پر کھپانے کا کام شروع ہوا۔

اٹھارہ سو پچپن کی مردم شماری کے مطابق پنجاب میں ایک بھی مقامی مسیحی نہیں تھا۔ لیکن اٹھارہ سو ستاون کی جنگِ آزادی میں مقامیوں کی ناکامی کے بعد یورپی عیسائی مبلغوں نے پنجاب کی نچلی ذاتوں میں بالخصوص تبلیغ کا کام تیز کردیا جس کے سبب اٹھارہ سو اکیاسی تک مقامی مسیحی آبادی تین ہزار نو سو بارہ تک پہنچ گئی۔ ان میں سے بیشتر چھوت چھات کے قدیم جبر سے تنگ آ کر مسیحی ہوئے ( مگر مذہبی حیثیت کی تبدیلی بھی سماجی حیثیت نہ بدل پائی )۔

انیس سو اکتالیس کے متحدہ پنجاب میں مسیحی آبادی پانچ لاکھ سے تجاوز کرگئی۔ اکثریت دیہی علاقوں میں بسنے کے باوجود بے زمین ہی رہی اور اس کا معاشی و سماجی تکیہ بڑے سکھ جاگیرداروں پر رہا۔ جب پارٹیشن کا وقت آیا تو مسیحی اکثریت مغربی پنجاب میں آباد تھی۔ مشرقی پنجاب کے اضلاع میں لگ بھگ اکسٹھ ہزار مسیحی موجود تھے۔ چنانچہ متحدہ پنجاب اسمبلی کے اسپیکر ایس پی سنگھا نے جون انیس سو سینتالیس میں ریڈکلف ایوارڈ کے سامنے مسیحی اقلیت کی نمایندگی کرتے ہوئے پاکستان کا انتخاب کیا۔

مورخ عائشہ جلال لکھتی ہیں کہ چھوت چھاتی نظام سے گزرنے کے بعد پنجابی مسلمان اکثریتی ثقافت کے درمیان رہنے کے عادی مسیحوں نے پاکستان میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔ ایس پی سنگھا ایسے دیہات بخوبی جانتے تھے جہاں کوئی مسیحی قبرستان نہیں تھا اور وہ ہر کنوئیں سے پانی بھرنے کا اجازت بھی نہیں تھی۔

ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ انھی ایس پی سنگھا نے پاکستان بننے کے پانچ ماہ بعد (بیس جنوری انیس سو اڑتالیس) اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے شکوہ کیا کہ ہندو دلتوں کی مائیگریشن کے بعد نئے ملک میں مسیحوں سے جبراً صفائی کا کام لیا جارہا ہے۔ اس ضمن میں مار پیٹ اور ہلاکتوں کے بھی واقعات سامنے آئے ہیں۔ انھوں نے اس جانب بھی توجہ دلائی کہ سکھ زمینداروں کی روانگی کے بعد دیہاتوں کی سطح پر تقریباً دو لاکھ بے زمین مسیحی چھت اور روزگار سے محروم ہوچکے ہیں لہذا ریاستِ پاکستان ان پر بھی توجہ دے۔

اپریل انیس سو باون میں رکنِ پنجاب اسمبلی سی ای گبن کے بقول بے گھروں کی تعداد دو سے بڑھ کے تین لاکھ تک پہنچ گئی۔ سکھ زمینداروں کی متروک زمین سرحد پار سے آنے والے مہاجرین کو الاٹ ہوئی اور ان زمینوں پر عرصے سے رہنے والے مسیحوں کو بے دخل کرنے کا عمل شروع ہوا۔ ایس پی سنگھا نے اسمبلی فلور پر انکشاف کیا کہ وزیرِ بحالیات و خزانہ نے ہر بے چھت مسیحی خاندان کو تین سے چار ایکڑ زمین الاٹمنٹ کی منظوری دی مگر یہ فائل پنجاب سیکرٹیریٹ سے حکم نامے سمیت غائب ہے۔ گورنر پنجاب سر فرانسس مودی نے کئی بار اس فائل کے بارے میں استفسار کیا مگر انھیں بھی گول مول جواب ملا۔ بقول سنگھا کسی ظالم نے خوب کہا کہ اب یہ فائل اس دن دریافت ہو گی جس دن سب زمینیں الاٹ ہو چکی ہوں گی۔

چنانچہ ان بے زمین مسیحوں کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہ بچا کہ وہ شہروں کی طرف مراجعت کرجائیں اور سرکاری زمینوں پر غیرقانونی کچی آبادیاں بنا کے رہیں اور صفائی کا کام ہاتھ میں لے کر اپنا اور بچوں کا پیٹ پالیں اور اس کام کو نسل در نسل منتقل کرتے چلے جائیں۔ اور پھر اتنے برس میں اسلام آباد کی فرانسس کالونی سے لاہور کی جوزف کالونی اور یوحنا آباد سے کراچی کی عیسی نگری تک بیسیوں مسیحی بستیاں وجود میں آگئیں (ان میں جانے آج تیسری نسل آباد ہے کہ چوتھی)۔

دو ہزار آٹھ میں اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے جنیوا جائزہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی مندوب نے نہایت اعتماد سے کہا،
”پاکستان ایک مسلمان اکثریتی ملک ہے جہاں دلت طبقے جیسا کوئی تصور نہیں۔ اس طرح کے تعصبات سے پاکستان آزاد ہے اور رواجی بنیاد پر یہاں نسل و ذات کی بنا پر کوئی تفریق نہیں برتی جاتی‘‘۔
منگل 27 اکتوبر 2015


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).