سعودی ولی عہد کے امریکی دورے میں اسرائیلی ایرانی معاملات


سعودی عرب میں یہ تصور فروغ پا چکا ہے کہ اگر سعودی عرب کے متعلق امریکہ میں وہی تصورات نشوونما پاتے رہے کہ جن کے مطابق سعودی عرب ایک سخت گیر ریاست ہے تو ایسی صورت میں سعودی عرب کے لئے مستقبل قریب میں پریشانیاں بہت بڑھ سکتی ہیں۔ ان پریشانیوں کو رفع کرنے کی غرض سے نوجوان سعودی ولی عہد بہت تگ و دو کر رہے ہیں کہ امریکہ کے فیصلہ ساز حلقوں میں شاہی خاندان اور بالخصوص ان کی قبولیت برقرار رہے۔ اور وہ ایک ایسے رہنماء کے طور پر سامنے آئے جو ماضی کے بادشاہوں سے مختلف ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کی غرض سے انہوں نے ویثرن 2030؁ء پیش کیا ہے کہ جس میں سعودی عرب مذہبی، سماجی اور معاشی نوعیت کی تبدیلیاں لانا ہیں۔ سعودی معیشت کو تیل کے کاروبار پر انحصار کی بجائے دیگر شعبوں کے حوالوں سے مضبوط کرنا ہے۔

اپنی ان تمام سرگرمیوں پر امریکی حمایت حاصل کرنے کی غرض سے سعودی ولی عہد تین ہفتوں کے طویل دورہ امریکہ پر ہیں۔ جس میں وہ سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ، صحافیوں، کاروباری افراد اور مذہبی طبقے سے بھی ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ سعودی عرب میں حال ہی میں انہوں نے عشروں بعد سینما کی اجازت دی ہے۔ جبکہ امریکہ کو خوش کرنے کے لئے خواتین پر سے بھی پابندیاں جیسے مخلوط اجتماعات میں جانے سے پابندی کو ماضی بنا دیا ہے۔

اس وقت ان کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ در پیش ہے کہ وہ یہ سماجی تبدیلیاں علانیہ امریکہ اور مغربی دنیا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کر رہے ہیں۔ جس کا ایک ممکنہ رد عمل یہ ہو سکتا ہے کہ سعودی عرب میں موجود وہ مذہبی عناصر جو ان تبدیلیوں کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھ رہے ہیں کوئی انتہائی قدم نہ اٹھا لیں۔ ایسی کسی صورتحال سے محفوظ رہنے کے لئے امریکہ حمایت کو اپنے لئے غیر متزلزل رکھنا ہی اس دورے کا بنیادی مقصد ہے۔ اپنے ایجنڈے پر عمل درآمد کے لئے سعودی ولی عہد امریکہ کے ممتاز کاروباری افراد سے بھی ملے۔ اگرچہ ان ملاقاتوں کی مکمل تفصیلات میڈیا کو دستیاب نہ ہو سکی۔ لیکن پھر بھی بل گیٹس، ایمزون کے سی ای او جیف بیروس ستیانہ ڈیلا جیسی قد آور کاروباری شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔ ان کی یہ ملاقاتیں جہاں پر تیل کی معیشت سے چھٹکارے کی پالیسی ہے وہیں پر امریکہ میں ہر طبقے میں دوستیاں قائم کرنے کی بھی ایک کوشش کے طور پر دیکھی جا رہی ہے۔

ویسے وائیٹ ہاؤس میں انہوں نے جیئرڈ کشر کو جو صدر ٹرمپ کے داماد اور یہودی ہے۔ کے متعلق کہا کہ وہ ان کے ساتھ ایک پارٹنر کے طور پر نہیں بلکہ ایک دوست کے طور پر مل کر کام کرتے ہیں۔ ابھی کچھ عرصے قبل کی گئی سعودی عرب میں شہزادوں کی گرفتاریوں کو بھی اکتوبر 2017؁ء میں ریاض میں جیئرڈ کشر کی سعودی ولی عہد کی ملاقات سے ہی جوڑا جاتا ہے۔ کہ اس معاملے میں جیئرڈ کشر ہی اصل منصوبہ ساز تھے۔ حالانکہ سعودی ولی عہد نے حالیہ دورہ امریکہ میں اس تاثر کی سختی سے نفی کی ہے۔ لیکن مشرق وسطیٰ کے حالات پر نظر رکھنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ ولی عہد کے لئے یہ ہرگز ممکن نہیں تھا کہ وہ اس کا اعتراف کر لیتے کہ یہ سب کچھ جیئرڈ کشر کی مشاورت سے ہوا تھا۔ بہرحال انہی تعلقات کے سبب سے ابھی حال ہی میں سعودی عرب میں ایئر انڈیا کو سعودی فضائی حدود استعمال کرتے ہوئے اسرائیل کے لئے پروازیں کرنے کی اجازت دی ہے۔ جس کو اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے نہایت دورس اثرات کا حامل قرار دیا ہے۔

پھر یہ بھی تصور قائم کیا جا رہا ہے کہ وہ امریکہ میں یہودی مذہبی رہنماؤں سے اس لئے ملے تا کہ سعودی عرب کے پرانے تشخص کو خدا حافظ کہا جا سکے۔ وہ ربی رچرڈ جیکب پریذیڈنٹ آف دی یونین فار ریفارم جودازم، ربی اسٹیون ورنک ہیڈ آف دی یونائیٹڈ، سائنا گاگ آف کنزرویٹو جودازم، ایلن فیگن ایگزیکٹو وائس پریذیڈنٹ آف دی ارتھو ڈک یونین، امریکن اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی، دی امریکن جیوش کمیٹی اور دیگر تنظیموں سے بھی ملے۔ اسی دوران مختلف اخبارات کے نمائندوں سے ملاقات میں انہوں نے ایران کے نیوکلیئر پروگرام کے حوالے سے اپنے سخت مؤقف کو دہرایا۔ بلکہ اخبار نویسوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ انتظار کر رہے ہیں کہ گولی آپ کے سر تک پہنچ جائیں۔ لہٰذا ایران کے خلاف قدم آج ہی اٹھا لینا چاہیے۔

عالمی میڈیا میں یمن کی جنگ اور سعودی قیادت میں اتحادی افواج کی ہسپتالوں اور سکولوں پر بمباری کا بڑا چرچا ہے۔ انہوں نے اس تصور کے جواب میں یہ وضاحت کی کہ ہم انسانی حالات کو بہتر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ سے انٹرویو میں انہوں نے ایک فرقے کی حمایت کرنے کی سعودی پالیسی کو سوویت یونین کے خلاف امریکی اور اس کے حمایتیوں کی حکمت عملی قرار دیا۔ کہ وہ ہمیں کہتے تھے کہ مساجد اور مدارس پر سعودی عرب سے باہر پیسہ خرچ کرو۔ با الفاظ دیگر وہ یہ کیس پیش کر رہے تھے کہ یہ انتہا پسندانہ سوچ صرف سعودی عرب کی وجہ سے نہیں پھیلی بلکہ امریکہ کی حکمت عملی اس کے پیچھے کار فرما تھی۔ اس لئے اب صرف ہمیں مورد الزام نہ ٹھہرایا جائے اور اس صورتحال سے نکلنے میں ہماری مدد کی جائے۔ حالانکہ انہیں یہ سوچنا چاہیے کہ کہیں ایران، قطر، یمن اور اخوان المسلمین کے حوالے سے وہ ابھی بھی امریکی پالیسی ہی کو تو اختیار نہیں کر رہے کہ مستقبل قریب میں اس سے اس حد تک نقصانات بڑھ گئے کہ سعودی عرب دوبارہ حجاز نہ کہلانے لگ جائے۔

جب وہ امریکہ کے دورے پر تھے تو اس وقت غزہ میں اسرائیلی بربریت، فلسطینیوں کے لاشے زمین پر گرا رہی تھی۔ فلسطینیوں نے ان افراد کی اپنے آبائی علاقوں میں واپسی کے لئے دھرنا اور پھر مارچ کا شیڈول ترتیب دیا ہوا تھا۔ یہ شیڈول 15 مئی تک کا ہے۔ لیکن اسرائیل کی سفاکیت نے 1948؁ء سے بیدخل افراد کو اپنے گھروں کی جانب واپسی کو خون آلود کر دیا۔ اور المیہ یہ ہے کہ امریکہ نے سلامتی کونسل میں غزہ کی مخالفت میں ووٹ دیا ہے۔ یہ ہونا ہی ہے کیونکہ ہم خود باہمی جھگڑوں میں الجھے ہوئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).