ہم صرف جانور ہی ذبح نہیں کرتے


 \"yousafاُس وقت میری قوت سماعت چند ساعتوں کے لئے گویا تھم سی گئی جب ایک عمر رسیدہ اجنبی خاتون اور اُس کی جوان سال بیٹی اچانک مجھ سے یوں چمٹ گئیں جیسے اِس ملن میں صدیاں حائل رہی ہوں۔ میں اِس کیفیت کو بالکل نہ سمجھ سکا اور ششدر اور جامد سا اُس کچے مکان کے صحن میں اُن بچوں کو گھورتا رہا جو نہ تو اپنے بدن کے اعضا کو ڈھانپ رہے تھے اور نہ گرمی کی تپش سے اُن کے ننگے پاﺅں سُن ہو رہے تھے۔ یکایک اُس ماں بیٹی کی آہیں اور سسکیاں میرے گالوں کو بھگوتے ہوئے مجھے وقت حاضر میں کھنچ لائیں۔

ونڈالہ دیال شاہ ،تحصیل فیروز والہ ضلع شیخوپورہ کا چھوٹا سا قصبہ ہے جس کے کھیت اور چھوٹے کچے مکان آپس میں یوں گڈمڈ ہیں گویا قدرت اور انسانی آبادی اپنی موج میں ہمکنار ہو رہے ہوں۔ متعدد راہگیروں سے راہنمائی لیتے اور اپنے اندازے لگاتے ہم نذیر مسیح کا گھر تلاش کر رہے تھے، مگر نذیر کا نام سنتے ہی ہر کسی کا سر’ ناں‘ اور قدم پیچھے کو ہٹتے نظر آئے۔ اچانک قریب قریب تعمیر کئے گئے چار گرجاگھروں کی چھتوں پر چار صلیبیں نظر آئیں مگر وہ بھی مکینوں کے چہروں کی مانند اُداس اورکسی سوچ کی دیوی کی طرح گم سم تھیں۔ ان صلیبوں پر بیٹھے کوے بھی گویا کسی ماتم کا حصہ تھے۔ ایک خاتون ہماری رہنمائی کو آگے بڑھی اور ہم زیر تعمیر مکانوں کی اُڑتی بکھرتی ریت، جانوروں کے فضلات، گندگی سے اُبلتی نالیوں اور آوارہ مزاج کتوں کی گھورتی آنکھوں اور اُن کی غر غراہٹ کاسامنا کرتے ایک تنگ سی گلی کی نکڑ پر واقع ایک بوسیدہ مکان میں داخل ہوئے جہاں چند روز قبل موت اپنا رقص اور قیامت اپنا جلوہ دکھا چکی تھی۔اس قیامت کے آثار اب بھی مکینوں کے چہروں، گھر کے درو دیوار، محلے بھر میں چھائی خاموشی اور بچوں کی آنکھوں میں جھلکتے خوف سے نمایاں تھے۔

کہنے کو تو یہ انسانوں کی بستی ہے مگر کچھ لوگوں کے لئے انسانوں کو ذبح کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کام ہے۔ ایسا ہی ایک کمال پانچ اپریل 2016 کی شام ڈھلتے سورج کے ساتھ اُس وقت ہوا جب مبینہ طور پر دو قصابوں نے نذیر مسیح کو اُس کے گھر قریب تیز دھار آلے سے ذبح کر ڈالا۔ پیشہ ور قصابوں نے یہ کمال اس مہارت سے کیا کہ نذیر مسیح کا چہرہ مکمل طور پر مسخ ہو چکا تھا۔

نذیر مسیح کا دایاں بازو کئی برس قبل اپنے کام کی ادائیگی میں گھاس کاٹتے ہوئے ٹوکے کی زد میں آ کر کٹ چکا تھا۔ یوں ایک بازو سے محروم 55 سالہ اَن پڑھ نذیر کرائے پر گھر لینے دینے اور تعمیراتی کاموں میں اپنی خدمات پیش کر کے کمیشن سے حاصل کی گئی معمولی آمدنی سے گھر کا بار اُٹھائے تھا۔ خاندان میں دیگر ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ اُسے ابھی اپنی نیم معذور جواں سال بیٹی کا مستقبل بھی سنوارنا تھا۔

تھانہ فیروز والا میں درج کی گئی ایف آئی آر نمبر 343/16 کے مطابق مقتول کے ورثا نے حیدر قصاب اور ناظر قصاب کو ذمہ دار قرار دیا ہے البتہ تادمِ تحریر پولیس نے حسبِ معمول نہ تو کسی شخص کو گرفتار کیا ہے اور نہ ہی کوئی قابلِ ذکر کارروائی کی گئی ہے۔ خاندانی ذرائع قتل کی اس واردات کی بظاہر نامعلوم وجوہات پر حیرت زدہ ہیں۔ وہ نہ تو کیس کی پیروی کرنے کے لئے مالی سکت رکھتے ہیں اور نہ ہی اتنی جرات کہ کسی مسلمان کے خلاف انصاف اور قانون کی عملداری کے لئے آواز اُٹھا سکیں۔ نذیر کی بیٹی خلاﺅں میں اپنے ہی سوالوں کے جواب تلاش کرتے ہوئے کبھی اپنے ابو کو گھر بھر میں تلاش کرتی ہے اور کبھی آس پڑوس میں اپنے باپ کا اتہ پتہ پوچھنے چل پڑتی ہے۔ نذیر کی ’نئی نویلی‘ پچاس سالہ بیوہ نذیر کے ٹکڑے دیکھنے کے باوجود خود کو بیوہ کہلانے سے بھی انکاری اور انسان کو اشرف المخلوقات سمجھنے سے بھی منکر ۔

اس دوران کچھ خواتین گلی میں ادھ کھلے دروازوں سے باہر جھانک رہی تھیں اور کچھ چہرہ چھپائے، دانتوں میں ڈوپٹے دبائے اداسی اور خاموشی سے سر جھکائے خیالوں اور وسوسوں کے جال بن رہی تھیں کہ یکایک نذیر کی بیٹی کی آہوں اور بین نے ماتمی خاموشی کا سکوت توڑ ڈالا۔ وہ ایک ہی سانس میں چیخنے لگی” یہ لوگ بیٹیوں کا سا دل کیوں نہیں رکھتے؟ کیا اِن کی اپنی بیٹیاں نہیں؟ یہ بیٹی کا درد کیوں نہیں سمجھتے؟ کیا ان کے سینے میں دل نہیں؟ کسی بیٹی سے اس کا باپ چھیننا….“ اس سے آگے وہ کچھ نہ کہہ پائی اور اُس کی آنکھوں سے آنسوﺅں کی وہ دھارا رواں ہوئی کہ وہاں موجود کوئی بھی خود پر قابو نہ رکھ سکا۔

ہم عدم برداشت کی اس حد کو چھونے لگیں گے کہ انسان اور حیوان میں فرق نہ کر سکیں یا دوسرے لفظوں میں انسان ہی حیوان بن جائیں تو ایسا کبھی سوچا بھی نہ تھا اور نہ ہی اب یقین آتا ہے۔ کیا ہماری تعلیم و تربیت میں کمی ہے یا مذہبی تعلیمات سے روگردانی؟ ہم فلسفہ محبت، برداشت اور رواداری کو سمجھنے اور عمل میں لانے میں کیوں قاصر ہیں؟ ضروری ہے کہ سماج میں رائج تشدد پسندانہ رویوں کے خاتمے اور قانون و انصاف کی عملداری کے لیے آواز اُٹھائی جائے۔

پاس کھڑی ایک خاتون نے کسی نامعلوم شخص کا بیان دہراتے ہوئے کہا کہ وہ لوگ نذیر مسیح کو ذبح کرنے کے بعد برچھیاں لہراتے یہ کہتے رہے کہ ہم صرف جانور ہی ذبح نہیں کرتے ۔ ایسی للکار قانون نافذ کرنیوالے اداروں اور انصاف کے ایوانوں کی نہ صرف ناکامی ہے بلکہ ان کے منھ پر اُلٹے ہاتھ کا طمانچہ بھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments