شفیق ، سوات ویڈیو اور صحافتی اقدار


\"faizullahگزشتہ دنوں دو اہم خبریں آئیں اور گزر گئیں۔ پہلی کراچی میں ٹریفک اہل کاروں کے ہاتھوں پٹتے ایک شہری شفیق کی ویڈیو تھی جس نے خاصا رش لیا اور دوسری سوات میں کوڑے لگنے والی ویڈیو کے جعلی ہونے کی بابت سپریم کورٹ کا فیصلہ تھا۔ یاد رہے کہ ماضی میں کوڑوں والی ویڈیو نے بھی ریکارڈ توڑ پذیرائی حاصل کی تھی۔

شفیق کی ویڈیو دن بھر چلتی رھی، میڈیا پروگرام کرتا رہا اور اس واقعے کا مختلف پہلوں سے جائزہ لیا گیا۔ رات گئے معاملے نے رخ بدلا اور پولیس کی جانب سے سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج لیک کی گئی جس سے پتہ چلا کہ جھگڑے کی ابتد شہری نے کی، البتہ کسر پولیس والوں نے پوری کردی۔ لیکن قصور بہر حال شہری کا ہی تھا اس میں شک نہیں کہ پولیس والے عوام کو بے جا تنگ بھی کرتے ہیں لیکن اس معاملے میں سچائی یہی تھی کہ شفیق نے زیادتی کی تھی۔ یہاں ایک اور دلچسپ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا اس واقعے پہ جھاگ اڑاتے اینکرز نے تحقیق کرنا کیوں گوارا نہ کیا، حالانکہ سب جانتے ہیں کہ اس علاقے میں خفیہ کیمروں کی بھرمار ہے ؟ کیا اس سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکتا کہ ہر ایسا معاملہ جو میڈیا پیش کرتا ہے اس کے حقائق مسخ کئِے جاتے ہیں ؟ ہمیشہ کسی بھی واقعے کو اپنے مقاصد کے لئیے استعمال کیا جاتا ہے اور پوری تصویر سامنے نہیں آنے دی جاتی ہے۔ جیسا کہ شفیق کے واقعے سے پتہ چلا ہے جس میں بظاہر جس میں ٹریفک اہلکار ظالم اور شفیق مظلوم ثابت ہوا تھا۔ یہ معاملہ یونہی رہنا تھا لیکن پولیس والوں کی قسمت اچھی تھی سو ان کی جان بخشی ہوئی۔ یہ بات بلا تردد کہی جاسکتی ہے کہ میڈیا اگر بدنیت نہیں تو جلد باز ضرور ہے اور بہت سے چینلز بہر حال مخصوص ایجنڈے کی تکمیل میں مصروف ہوتے ہیں۔ اصولاً اس جیسے واقعات پہ میڈیا کو معافی بھی اتنی ہی زور و شور سے مانگنی چاہیِے جس طرح سے پولیس والوں کی بے عزتی کی گئی۔ مگر کیا کیجئے کہ فی الحال اخلاقیات کا یہ اعلی پیمانہ اس طرح سے ہماری صحافت کا لازمی حصہ نہیں بن سکا ہے۔
اب آتے ہیں سوات ویڈیو کی طرف۔

قریباً چھ برس پہلے یہ ویڈیو ایک خود کش بمبار کی طرح چینلز پہ نمودار ہوئی۔ اس ابلاغی دھماکے کے اثرات ابھی تک محسوس کئے جاسکتے ہیں۔ یہ ویڈیو ان ابتدائی اقدامات میں سے ایک تھی جس کے زریعے اسلامی قوانین اسلامی سزاﺅں اور اسلام پسندوں کو کارنر کرنے کی کوشش کی گئی۔ سوال یہ نہیں کہ ایسے اقدامات تو ہوتے رہتے ہیں اور اگر یہ جعلی تھی تو کیا ہوا۔ بات تو یہ ہے کہ حدود اللہ پہ تنقید کیوں کی گئی ؟ معاملے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر کسی گروہ کو ان سزاﺅں کے نفاذ کی اجازت نہیں دی جاسکتی تو کسی پارلیمان ریاست یا جمہوریت کے لئے بھی جائز نہیں کہ ایسی ویڈیوز کی آڑ میں اسلامی قانون کو مطعون ٹھہرائے۔ اس ویڈیو کو لے کر ہزاروں گھنٹوں کے پروگرام ہوئے، لاتعداد کالمز لکھے گئے، بے شمار خبریں نشر ہوئیں۔ اچھی بات ہے کہ آپ کا میڈیا ہے، آپ کا اختیار ہے۔ لیکن جناب یہ سوال تو پھر بھی بنتا ہی ہے نہ کہ کونسی صحافت ؟ کیسی اقدار ؟ کیسا اصول ؟ اسلامی چھوڑئیے لبرل اقدار کیا کہتی ہیں؟ کیا کسی ویڈیو کولے کر ایک مذہب پہ دل کھول کر تنقید کی جائے ؟ اسلام کے خلاف دلوں کا بغض طالبان مولویوں اور اسلام پسندوں کے نام پر نکالا جائے ؟ اور پھر یہ سب جعلی ہونے پہ آدھی پونی تو چھوڑیے، ایک حصہ مٰعذرت بھی نہ ہو ؟ افسوس ہے جناب بہت افسوس ہے۔ مان لیجئے کہ آپ کے اندر بھی ایک ’دہشت گرد اور انتہا پسند‘چھپا بیٹھا ہے جو تب حرکت میں آتا ہے جب معاملہ اسلام کا ہو۔ امید تو نہیں ہے لیکن مطالبے میں حرج نہیں کہ بھوسے میں سے سوئی برآمد کرنے والے ادارے اس ویڈیو کے ماسٹر مائنڈ کو بھی سامنے لائیں تاکہ پتہ چل سکے کہ اس سازش کا محرک کون تھا۔

یقینا بہت سے لوگ اسے ’دجالی میڈیا‘ کی کارستانی کہہ کر لعنت ملامت کریں گے اور آگے بڑھ جائیں گے۔لیکن یہ معاملے حل کب سے ہوگیا؟ آگے بڑھیے، اپنا لائسنس لیجیے، اپنا میڈیا لائیے اور اسلام کی دعوت اور متوازن تجزیے اور خبریں لوگوں کے سامنے پیش کیجئے تاکہ اسلام کا اصلی رخ سب کے سامنے آسکے۔

چلتے چلتے انتہا پسند لبرلز کی خدمت میں عرض ہے جناب یہ ’ اسلام ‘ نام کا دین اور اس کے پیروکار بڑے ہی سخت جان ہیں جو سب کچھ بھگت کر بھی میدان میں موجود ہیں۔ اگر یہ بدھ مت جیسا کوئی مذہب ہوتا تو سوات جیسی ایک ویڈیو بھی اس کا کام تمام کرنے کے لئے کافی سے بھی زیادہ تھی۔ لیکن کیا کیجیے کہ یہ انسانیت کے لئے آخری الہامی دین ہے جسے کم از کم آپ جیسے تو پھونکوں سے نہیں بجھا سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments