ہم نے آپ کو بہت دیر برداشت کر لیا


آج کل پاکستان میں Feminism کی تیز ہوائیں چل رہی ہیں۔ ہر چند دن بعد کچھ نیا دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے۔Feminism کی ان ہواؤں کے گزشتہ سلسلے پر یکساں تعریف و تنقید ہوئی اور نہ صرف تعریف و تنقید ہوئی بلکہ اس پر وہ وہ چٹکلے چھوڑے گئے کہ مسکرائے بغیر رہا نہ گیا۔

ذاتی طور پر میں نہ Male Chauvinism کی حمایتی ہوں اور نہ ہی بے تکی، بے مقصد Feminism کی۔ میں نہ کسی ایک صنف کو مکمل طور پر ظالم سمجھتی ہوں اور نہ دوسری صنف کو مکمل طور پر مظلوم۔ بلکہ میرا یہ ماننا ہے کہ ظلم و ذیادتی کا تعلق انسان کی صنف سے نہیں، اس کی فطرت سے ہے اور ظالم کوئی بھی ہو سکتا ہے، خواہ وہ مرد ہو یا زن۔

تاہم Feminism کی حالیہ لہر میں میری نظر سے ایک ایسا پوسٹر گزرا جس نے مجھے حقیقتاً آزردہ کر دیا۔ پوسٹر پر ” ہم نے آپ کو بہت دیر برداشت کر لیا ” تحریر تھا اور اس پر صنفِ نازک کا علامتی نشان کچھ اس طرح بنایا گیا تھا کہ ہاتھ کی درمیانی انگلی تحریر کے درمیان نمایاں کی گئی تھی جو کہ یقیناً کسی بھی باشعور اور مہذب انسان کو ناگوار گزرے گی۔

مانتی ہوں کہ ہمارے معاشرے میں ایسے بہت سے حضرات ہوتے ہیں جو خود کو اعلی و ارفع سمجھتے ہیں یا خواتین کا آزادی سے باہر نکلنا اور جینا دو بھر کر دیتے ہیں لیکن کیا واقعی سب کے سب ایسے ہیں (بشمول ہمارے اپنے گھروں کے مردوں کے) کہ جن کے لیے ہم ایسے الفاظ اور gestures استعمال کریں ؟

ہاں، مجھے لگتا ہے جب میرے بڑے بھائی سڑک کراس کرتے ہوئے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے سڑک پار کرواتے ہیں۔ مجھے اچھا لگتا ہے جب وہ مجھے خود پک ڈراپ کرنے آتے ہیں تا کہ مجھے سردی گرمی میں انتظار کی کوفت نہ اٹھانی پڑے چاہے اس کے لیے انہیں خود باہر دھوپ میں گاڑی میں بیٹھ کر انتظار کرنا پڑے۔ اس سب سے قید کا نہیں، تحفظ اور خیال کا احساس ہوتا ہے۔

اب یہ نہ سوچنا شروع کر دیجیئے گا کہ گھر کے مرد تو خیال کرتے ہی ہیں جبکہ دیگر مرد اس کے الٹ ہی کرتے ہیں بس۔ ایسا بھی بالکل نہیں۔ مجھے برسوں پہلے کی ایک اے ٹی ایم پر لائن میں کھڑے لڑکے کی (جو کہ عمر اور تعلیم میں مجھ سے کم ہی دکھتا تھا) وہ بات نہیں بھولتی جب اس نے مجھے اپنی باری پر اے ٹی ایم استعمال کرنے کو جانے کا کہا۔ اس سے پیچھے کھڑے لڑکے نے اعتراض کیا (کیونکہ میرا نمبر اس دوسرے لڑکے کے بھی بعد تھا) تو اس نے میری واپسی پر اسے بھیج دیا اور خود مزید انتظار گوارا کر لیا۔ مجھے یو فون کے سروس سینڑ پر بائیو میٹرک تصدیق کروانے کو کھڑے وہ تمام حضرات بھی نہیں بھولتے جنہیں کسٹمر سروس آفیسر نے یہ کہہ کر انتظار کروایا کہ لیڈیز صرف یہی دو ہیں انہیں پہلے فارغ کر دیتے ہیں اور ان میں سے کسی ایک نے اف تک نہیں کی تھی۔ مجھے ایک شاپنگ مال میں چیک آؤٹ کی لائن میں کھڑے وہ انکل بھی نہیں بھولتے کہ جنہوں نے مجھے یہ نہیں بتایا تھا کہ لائن وہاں سے نہیں شروع ہوتی تھی جہاں سے میں سمجھ کر ان سے آگے کھڑی ہو گئی تھی بلکہ لائن بہت پیچھے سے شروع ہو رہی تھی۔ مجھے ایک ڈاکٹر کے پاس بیٹھے وہ مرد مریض نہیں بھولتے جنہیں ڈاکٹر نے کہا تھا کہ پہلے اس واحد بچی کو چیک کر لوں پھر آپ لوگوں کو چیک کروں گا اور ان میں سے کسی نے احتجاج نہیں کیا تھا۔ یہ لسٹ یہیں ختم نہیں ہوتی لیکن طویل قصہ مختصر، جتنی بار ہم ناروا سلوک کرنے والے مردوں کا ذکر کرتے ہیں، کیا اتنی ہی بار اچھا سلوک کرنے والوں کا کرتے ہیں، کیا ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں، کیا ان کے لیے آسانی کی دعا کرتے ہیں؟

اور اگر آپ یہ کہنے لگیں کہ یہ ایک بہت ترقی یافتہ شہر کے بہت پڑھے لکھے باشعور مردوں کے رویے ہیں تو تسلی رکھیے کہ دور دراز کے دیہاتوں کے کم پڑھے لکھے مرد اپنے گھر کی عورتوں کو بہرحال آپ کی Feminism کے قریب بھی نہیں بھٹکنے دیں گے کجا کہ انہیں اتنی آزادی دیں کہ وہ بھی “آپ کی طرح کے پوسٹرز” اٹھا کر دیگر خواتین کو “اپنے حقوق کا شعور” دینے سڑکوں پر آ سکیں۔ اور اہم بات، عزت صرف عورت کی نہیں ہوتی، عزت مرد کی بھی ہوتی ہے اور عزت پانے کے لیے عزت دینا بھی پڑتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).