گوادر گیٹ وے یا سونے کی چڑیا


\"mujeeb\"بلوچستان جغرافیائی لحاظ سے بے حد اہمیت کا حامل ہے معدنی وسائل سے مالا مال ہونا تو جیسے سونے پر سہاگہ ہے۔ عالمی طاقتوں کو پاکستان کا یہ ممکنہ معاشی حب ہمیشہ سے آنکھوں میں کھٹکتا رہا اور اسے پسماندہ رکھنے کے لئے جو ان سے بن پڑا کیا، اس کارخیر میں ہمارے حکمرانوں نے بھی ان کا ساتھ دیا 21۔ ویں صدی میں بھی بلوچستان پتھر کے دور کا کوئی علاقہ لگتا ہے جہاں پانی ہے نہ صحت کی سہولیات ،سڑکیں ہیں نہ سکول، غربت اس حد تک ہے کہ لوگوں کے پاس دو وقت کھانے کے لئے روٹی ہے نہ پہننے کے لئے کپڑے اس کی تمام تر ذمہ داری بیرونی ایجنسیوں پر تو نہیں ڈالی جا سکتی۔

لیکن بہر حال کچھ حصہ تو ان کا بھی بنتا ہے چند سکوں کے لئے ضمیر بیچنے والوں کی کمی بلوچستان میں بھی نہیں ہے۔ ایک دھائی قبل جب گوادر پورٹ کی تعمیر اور فعال کرنے کی باتیں شروع ہوئیں تو یکدم بلوچستان میں تشدد کی لہر نے سر اٹھانا شروع کیا اور دنیا کے سامنے یہ تاثر جانے لگا کہ بلوچستان سرمایہ کاروں کے لئے انتہائی غیر محفوظ جگہ ہے جہاں کسی کی عزت جان و مال محفوظ نہیں۔ وقت کے ساتھ حالات بگڑتے گئے ہزاروں بے گناہ لوگ ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں کا نشانہ بنے اور گوادر کا معاملہ پس منظر میں جانے لگا۔ بھارت، افغانستان، ایران اور مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک کی خواہش تھی کہ گوار پورٹ کبھی نہ بنے اور اس کے لئے انہوں نے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ میں بیٹھے بکاﺅ لوگوں اور مفاد پرست سیاستدانوں کا استعمال کیا جنہوں نے گوادر پورٹ کو سنگاپور کے حوالے کرکے معاملے کو کھٹائی میں ڈال دیا۔

\"GWADAR:

گوادر کی اہمیت انتہائی زیادہ ہے بحر ہند میں سفر کے لئے آنے والے جہازوں کے لئے گوادر پورٹ گولڈن گیٹ وے ہے اگر یہ پورٹ فعال ہو جاتی ہے تو 86 کلومیٹر دور چابہار جسے پہلے بندر عباس کہا جاتا تھا کا بھٹہ ہی بیٹھ جائے گا۔ اسی طرح خلیجی ریاستوں کی بندرگاہوں کی حیثیت بھی زیرو ہو کر رہ جائے گی بھارت نے مستقبل کے معاشی خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے 1991 سے ہی چابہار میں کام شروع کر دیا تھا اور عالمی برادری کی طرف سے ایران پر لگنے والی پابندیوں کے باوجود بھارتی جہازوں کی چابہار آمد و رفت جاری رہی اور پاکستان کو غیر مستحکم اور بلوچستان کو غیر محفوظ بنانے کے لئے اس نے اپنے نیٹ ورک کو وسعت دینا شروع کی اور چابہار کو خفیہ ایجنسی (را) کا اہم مرکز بنا دیا۔ 2000ء کے بعد جب افغانستان میں طالبان کی حکومت ختم ہوئی اور اتحادی افواج نے کنٹرول سنبھالا تو بھارت کو مزید کھلی چھوٹ مل گئی اور اس نے افغانستان کی تعمیر و ترقی کی آڑ میں پاکستان کو انتشار سے دوچار کرنے کے لئے سازشوں کا جال بچھادیا۔

مختلف افغان علاقوں میں اپنے قونصلیٹ قائم کرکے سفارتی عہدوں پر (را) کے ایجنٹوں کو تعینات کر دیا جن کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ناراض نوجوانوں کو پاکستان کے خلاف مزید اکسایا جائے اور احساس محرومی کو جواز بنا کر انہیں آزادی کے لئے پرتشدد تحریک شروع کرنے کی ترغیب دی جائے (را) کے \"0China-Will-Take-Control-Of-Gwadar\"افغانستان اور ایران میں تعینات ایجنٹوں نے 2006ء کے بعد اپنے کام میں تیزی لانی شروع کی اور ہزاروں کی تعداد میں نوجوانوں کو افغانستان لے جا کر دہشت گردی کی تربیت دینے کے بعد واپس بھجوایا۔ ماضی میں (را) کے بہت سے ایجنٹ پکڑے جاتے رہے جنہوں نے چند ٹکوں کی خاطر مادر وطن کے مفادات کو بیچا۔ لیکن مارچ 2016ء میں (را) کا ایک حاضر سروس افسر ایران سے ساراوان کے راستے بلوچستان آتے ہوئے پکڑا گیا کل بھوشن یادیو نے دوران تفتیش لرزہ خیز انکشافات کئے جس نے مملکت پاکستان کے ہر محب وطن کو ہلا کر رکھ دیا۔

کل بھوشن نے بتایا کہ بھارت کو اقتصادی راہداری اور سی پیک ایک آنکھ نہیں بھاتے اور اس کو ناکام بنانے کے لئے اس نے پوری منصوبہ بندی کر رکھی ہے جس میں گوادر پورٹ بحری تنصیبات چینی انجینئرز پر حملے اور مقامی لوگوں کا قتل عام شامل ہے تاکہ بد امنی اور انتشار پیدا ہو۔

گوادر پورٹ سی پیک اور اقتصادی راہداری پر قومی نوعیت کے مباحثے سیمینار اور ورکشاپس معمول کا حصہ بنتے جا رہے ہیں اور آرمی چیف اس میں بذات خود شریک ہو کر اقتصادی راہداری کے منصوبے میں اپنی دلچسپی پہ مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں۔ دو ماہ قبل کوئٹہ میں سی پیک اور اقتصادی راہداری کے حوالے سے حکومت بلوچستان پاک فوج اور ایک این جی او کے زیر اہتمام عالمی سیمینار منعقد ہوا جس میں مندوبین نے سی پیک کے فوائد اور بلوچستان کی خوشحالی کے امکانات پر روشنی ڈالی اور اب گوادر میں بلوچستان میں امن و خوشحالی کے موضوع پر سیمینار منعقد کراکر دنیا کو باور کرادیا گیا کہ پاکستان کے ادارے اور حکومت اپنے لوگوں کی خوشحالی کے منصوبے سے پیچھے ہٹنے والی نہیں۔ اس سیمینار میں امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس، سعودی عرب، ایران، عرب امارات، افغانستان کے علاوہ متعدد ممالک کے سفارت کاروں نے خصوصی طور پر شرکت کی جہاں انہیں حکومت کی ترجیحات سے آگاہ کیا گیا۔ چین، جو اس منصوبے کا روح رواں ہے، کے سفیر نے گوادر پورٹ سی پیک اور انرجی کوریڈور سے حاصل ہونے والے مواقع اور چیلنجز پر روشنی ڈالی مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے رہنما بھی تقریب میں شریک ہوئے اور منصوبے کے حوالے سے اپنی بیش قیمت آراء پیش کیں۔

چینی حکام کے مطابق گوادر بندرگاہ پر سرگرمیوں کا آغاز رواں سال کے اختتام تک ہو جائے گا چائنا پورٹس ہولڈنگ
کمپنی کے چیئرمین ذانگ بائی زونگ کے مطابق 2017 میں گوادر پورٹ سے دس لاکھ ٹن کارگو گزرے گا اور آنے والے چند برس میں گوادر اہم تجارتی مرکز بن جائے گا جنرل راحیل شریف جو سیمینار کے مہمان خصوصی بھی تھے نے اپنے خطاب میں واضح کیا کہ دہشت گردی انتہا پسندی اور کرپشن کے گٹھ جوڑ کو ختم کردیا جائے گا۔ (را) سمیت غیر ملکی خفیہ ایجنسیاں سی پیک کے خلاف سازشیں کر رہی ہیں اور پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتی ہیں لیکن ہم سب پر واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ملک کے کسی بھی حصے میں گڑ بڑ اور رکاوٹیں پیدا کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ محاذ آرائی ترک کرکے تعاون پر توجہ مرکوز کریں۔ آرمی چیف کا یہ خطاب دشمن قوتوں کے لئے کھلا پیغام ہے کہ پاکستانی قوم اپنی ترقی اور خوشحالی کی حفاظت کرنا جانتی ہے کرپشن اور دہشت گردی کا گٹھ جوڑ ختم کرنے کا ذکر کرکے ان عناصر کو پیغام دیا گیا ہے جن کا کردار دوغلا ہے اور وہ پاکستان پرستی کا راگ الاپ کر وطن کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں لگے ہوئے ہیں آرمی چیف نے اپنے ویژن کو آگے بڑھانے کے لئے جو ٹیم بلوچستان میں منتخب کی ہے وہ احسن طریقے سے کام کر رہی ہے۔

\"0gwadar-1429074428-353-640x480\"فوج حکومت ایف سی پولیس اور لیویز ایک دوسرے کا دست و بازو بنے ہوئے ہیں وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناءاللہ زہری جن کے اپنے بیٹے، بھائی اور بھتیجے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جانوں کا نذرانہ دے چکے ہیں اس حوالے سے کسی تذبذب کا شکار نہیں ان کا موقف ہے کہ ماضی میں دہشت گردی سے آنکھیں چرائی گئی ہیں جس کی وجہ سے دہشت گردوں کے حوصلے بڑھے لیکن ان کی حکومت میں ایسا ہر گز نہیں ہوگا۔ بلوچستان پر چھائے دہشت گردی کے بادل چھٹ چکے ہیں اور خوشحالی ہمارا مستقبل ہے جسے کوئی نہیں روک سکتا۔

وزیراعلیٰ کی جانب سے سیمینار میں اعتراف کیا گیا کہ پاک فوج نے پاکستان اور بلوچستان سے دہشت گردی کا خاتمہ کیا بین الاقوامی سازشوں کو ناکام بنایا اگر پاک فوج نہ ہوتی تو ہم ان طاقتوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے وزیراعلیٰ بلوچستان مختلف مواقع پر اس بات کا دو ٹوک الفاظ میں اظہار کرچکے ہیں کہ بلوچستان کے حوالے سے فوج اور سیاسی قیادت ایک صفحے پر ہے۔ سی پیک ریکوڈک سیندک پراجیکٹس وہ منصوبے ہیں جو اپنی تکمیل پر بلوچستان کو سونے کی چڑیا بنا دیں گے آج جو لوگ کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں ان کی آنے والی نسلیں منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوں گی۔

وہ دن دور نہیں جب بلوچستان کا بچہ بچہ تعلیم یافتہ اور خوشحال ہوگا یہ سب کچھ ہوگا عزم اور ولولے کے ساتھ جو بلوچستان کی سیاسی اور فوجی قیادت میں بہت ہے۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے فوج اور ایف سی اپنی ذمہ داریاں احسن طور پر نبھا رہی ہیں۔ لیکن عوام کا معیار زندگی بہتر بنانے کے لئے حکومت کو گورننس بہتر کرنا ہوگی ترقیاتی منصوبوں کے لئے مختص رقم کا اگر پچاس فیصد بھی گراﺅنڈ پر لگ جائے تو بلوچستان کے عوام کی تقدیر بدل سکتی ہے وزیراعلیٰ کو اس جانب خصوصی توجہ مرکوز کرنا ہوگی تب ہی ایک ترقی یافتہ اور خوشحال بلوچستان وجود میں آئے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments