اب کیوں لبرلوں سے منت و فریاد کرتے ہیں؟


قندوز کے واقعے نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ نسیم حجازی کے فیس بکی مریدین افغان حکومت کی بجائے پاکستانی لبرلوں کو اس بمباری کا ذمہ دار سمجھتے ہیں اور اسی بنیاد پر بے حال ہو ہو کر لبرلوں سے فریادیں کر رہے ہیں۔ بچارے ہر لبرل کی وال پر جا جا کر کمنٹ کاپی پیسٹ کر کے اس سے پوچھ رہے ہیں کہ اس نے قندوز کی بمباری پر اب تک کیا ایکشن لیا ہے۔ غالباً ان فیس بکی جانبازوں کو یقین ہے کہ پاکستانی لبرل نہ صرف افغان حکومت چلا رہے ہیں بلکہ افغان فوج کی کمان بھی ان کے پاس ہے۔ اسی سے اندازہ کر لیں کہ ان معصوموں کا حالات حاضرہ اور تاریخ کا علم کتنا وسیع ہے۔ ان کو اتنا شدید صدمہ ہے کہ ہوش کھو کر بجائے اپنی وال پر افغان حکومت کی مذمت کرنے کے بجائے وہ لبرل تلاش کر کر کے ان سے مذمت کرنے کی درخواستیں کر رہے ہیں۔

ہمارا مشاہدہ ہے کہ عام طور پر ان میں سے کوئی ایک شخص خوب غور و فکر کرنے اور اپنے چند سو ساتھیوں سے مشورہ کرنے کے بعد دو چار جملے لکھ لیتا ہے جس میں لبرلز کو کسی دور دیس کے معاملے پر غیرت دلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مثلاً برما کے انتہا پسند بدھ (یعنی برما کے ملا) وغیرہ اگر روہنگیا پر ظلم کریں تو پاکستانی لبرلوں کو اس برمی ملائیت پر غیرت دلائی جاتی ہے۔ اب چونکہ یہ چند سو افراد کی اجتماعی کاوش ہوتی ہے اس وجہ سے وہ سب بجا طور پر اسے اپنی تخلیق سمجھتے ہیں اور دھڑا دھڑا ہر جگہ اسے کاپی پیسٹ کرنے لگ جاتے ہیں۔ اس طرح سے کاپی پیسٹ کرنے کی ہمیں تو یہی توجیہہ سمجھ آتی ہے، ورنہ بھلا کوئی بندہ دماغی طور پر اتنا بھی فارغ ہو سکتا ہے کہ کسی واقعے پر ایک دو جملے خود سے سوچ کر نہ لکھ سکے اور اپنے جذبات کی ترجمانی کے لئے کسی دوسرے کا محتاج ہو؟ ایسا تو کوئی بہت ہی غبی شخص کرے گا، نارمل دماغ والا آدمی تو ایسا نہیں ہو سکتا۔

ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ان نسیم حجازوی مریدین کی نظر میں لبرل کون ہوتا ہے۔ بظاہر تو جو شخص مولوی نہ ہو اسے یہ لبرل سمجھتے ہیں۔ اسی وجہ سے جب انہوں نے لبرلوں کے انسانیت پر ظلم و ستم کا ذکر کرنا ہو تو اکثر یہ بتاتے پائے جاتے ہیں کہ سٹالن، ہٹلر، ماؤ زے تنگ اور چنگیز خان جیسے لبرلز نے کتنے کروڑ انسان بے رحمی سے مار ڈالے ہیں۔

ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر افغانستان، عراق، شام وغیرہ میں روس امریکہ وغیرہ کی بمباری سے معصوم انسان مارے جاتے ہیں تو اس وقت پاکستانی لبرلز کو کیوں مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ ہماری رائے میں اس کی وجہ ان بچارے نسیم حجازوی مریدین کا احساس جرم ہے۔ پاکستانی لبرل نہایت شریر لوگ ہیں۔ ملک میں دہشت گردی کے بے تحاشا واقعات ہوتے ہیں، مجال ہے کہ کسی واقعے کا ذمہ دار کوئی لبرل نکل آئے۔ ہر ایک کے بارے میں پتہ چلتا ہے کہ نسیم حجازوی مریدین کا کوئی ہیرو اس میں ملوث ہے۔ نتیجہ یہ کہ اپنا احساس جرم کم کرنے کو یہ مریدین یہ نتیجہ نکال لیتے ہیں کہ پاکستانی لبرل نہ صرف افغان حکومت پر قابض ہیں بلکہ ان کی حکومت امریکہ، روس، شام، ایران، فرانس اور ایسے دیگر طاقتور ممالک پر بھی ہے اور ان تمام ممالک کی فوجی کارروائیوں کی ذمہ داری پاکستانی لبرلز پر عائد ہوتی ہے۔

دلچسپ چیز یہ ہے کہ جب افغانستان میں ان نسیم حجازوی مجاہدین کے حکومت سے برسرپیکار ہیرو کوئی دہشت گردی کرتے ہیں اور اس بم دھماکے میں ہر عمر، جنس اور فکر کے عام شہری مرتے ہیں تو اسے جنگ آزادی قرار دیا جاتا ہے لیکن جب افغانستان کی حکومت اتنی ہی بے دردی سے ایسے ہی بے گناہ عوام کا قتل عام کرے تو پھر فیس بک کی گلی گلی جا کر مذمت کی پکار بلند کرنے کی منتیں کی جاتی ہیں۔ ایک ہی جیسا ظلم کرنے پر دونوں کو ظالم کہنا چاہیے یا صرف ایک کو؟ جیسے طالبان پاکستانی حکومت کی مدد سے ہتھیار کے زور پر افغانستان پر قابض ہوئے تھے، ویسے ہی اب موجودہ افغان حکومت امریکہ اور پاکستان کی مدد سے افغانستان کے اقتدار پر قابض ہوئی تھی لیکن اس کے بعد اس نے انتخابات کروا کر افغان عوام سے اپنی حکومت کو برحق ثابت کروایا تھا۔ کیا اس خانہ جنگی میں افغان عوام کی منتخب کردہ حکومت کو حق پر سمجھا جانا چاہیے یا اس کے باغیوں کو؟

ایک محترم اسی لئے قندوز کے مدرسے پر افغان حکومت کی بمباری پر کچھ یوں شکوہ کناں ہیں:
کوئی لبرلز کو بتائے کہ قندوز میں 100 سے زیادہ معصوم ”مشال خان“ اور ”ملالائیں“ وحشتناک طریقے سے موت کے گھاٹ اتار دیے گئے ہیں۔
اس کے بعد وہ لبرلز سے فریاد کرتے ہیں:
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے؟
منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے؟

اجی حضت، یہ حشر اٹھانے بٹھانے کی ذمہ داری تو نسیم حجازی کے مریدین نے اپنے کاندھوں پر اٹھا رکھی ہے۔ بچارے پاکستانی لبرل اس پر کیا کریں؟ لبرل تو کہتے ہیں کہ جنگیں مت کرو۔ وہ تو بم کی ہمیشہ ہی مذمت کرتے ہیں خواہ وہ افغان حکومت چلائے یا طالبان۔ آپ ہی نیل کے ساحل سے تابخاک کاشغر بشمول بحر ظلمات گھوڑے دوڑانے کا شوق رکھتے ہیں۔ اب آپ جنگ کریں گے تو اپنے پیارے مریں گے بھی لٹیں گے بھی۔ شمالی اتحاد میں رحم دل اور شفیق پاکستانی لبرل نہیں بیٹھے ہیں بلکہ ادھر دیگر افغان نسلوں سمیت وہ ازبک بھی ہیں جن کے متعلق مثل مشہور ہے کہ جہاں افغان کا قہر ختم ہوتا ہے، ادھر ازبک کا رحم شروع ہوتا ہے۔ آپ کو تو ازبکوں کی فطرت کا بخوبی علم ہونا چاہیے تھا۔ آخر پینتیس چالیس سال سے بہت سے ازبک آپ کی صفوں میں شامل ہو کر جنگ کرتے رہے ہیں اور پاکستانی فوجیوں کے سر کاٹ کر ان سے فٹ بال کھیلتے رہے ہیں۔ اب بدقسمتی سے آپ کو بھی شمالی اتحاد کے ازبک بمباروں کی شکل میں دشمن نصیب ہو گئے ہیں تو کیوں رو رو کر لبرلوں سے منت و فریاد کرتے ہیں۔ آپ کو افغان معصوموں کے مرنے پر واقعی دکھ ہے تو امن کی بات کریں، اور افغان عوام کو اپنا حکمران منتخب کرنے کا حق دینے کی بات کریں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar