اردو ادب میں کتا شناسی کی روایت


ہمارے عوا م کتا شناسی کے ضمن میں جس قدر پھسڈی واقع ہوئے ہیں اور کتا اور کتے کی ذات پہچاننے میں جس قدر مدت صرف کرتے ہیں، اس سے مایوس ہو کر ہم نے اردو ادب میں کتا شناسی کی روایت پر تحقیق کا ڈول ڈالا ہے۔ بس ارادہ کرنے کی دیر تھی کہ اردو کے اداب عالیہ سے کتوں کے بارے میں حوالے اور اقتباس اس طرح اڑتے ہو ئے سامنے آئے کہ ہم بے ساختہ پکار اٹھے :

المدد شوق کہ بس آ پہنچے
سامنے کوچہ رسوائی ہے

28ستمبر دنیا بھر میں سگ گزیدن سے آگہی کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ رات دوستوں سے گفت گو جاری تھی تو ہمارے ایک مہربان نے باقاعدہ کئی اشعار کی تضمینِ سگ سنائی اور محفل گویا لوٹ ہی لی۔ اسی عالم استغراق میں ہمیں یہ دون کی سوجھی کہ بھئی اب کے اس امر کا جائزہ لیا جائے کہ اردو ادب میں کتا شناسی کے امکانات کس حد تک موجود ہیں۔ ویسے تو دنیا بھر کے ادب میں کتوں پر سیر حاصل ادب تخلیق کیا گیا ہے لیکن اردو کی چند کلیوں پر قناعت کرنے کا مقصد ہمارے کالم کی تنگ دامانی کو سمجھیے اور تھوڑے لکھے کو بہت جانیے۔

قصہ چہار درویش کے خواجہ صاحب سگ پرست کو یاد کرتے ہیں۔ ایک دن بادشاہ اپنے لعل و جواہر کی تعریفیں درباریوں کے منہ سے سن سن کر میاں مٹھو بن رہے تھے کہ ایک وزیر کی مداخلت سے مزا کرکرا ہو گیا، وزیر نے کیا کہا، بادشاہ کی زبانی سنیے، ”خداوند! ایک ادنیٰ سوداگر (یہی سوداگر خواجہ سگ پرست کہلائے) نیشاپور میں ہے۔ اس نے بارہ دانے لعل کے، ہر ایک سات سات مثقال کا ہے، پٹے میں نصب کر کے کتے کے گلے میں ڈال رکھے ہیں۔ مجھے سنتے ہی غصہ چڑھ آیا۔ اور کھسیانے ہو کر فرمایا کہ اس وزیر کی گردن مار دو۔ “ اب وزیر صاحب تو قید ہو گئے، ان کی صاحب زادی پانچ پیراگراف کے بعد سوداگر بچے کا روپ دھار کر اس کتے کی تلاش میں نکلتی ہے اور آخر کار اول الذکر کو ثانی الذکر نظر آ جاتا ہے۔ منظر کشی دیکھیے،

“اتفاقاً ایک طرف جو دیکھا تو ایک دکان ہے اس میں دو پنجرے آہنی لٹکے ہیں اور ان دونوں میں دو آدمی قید ہیں۔ ان کی مجنون کی سی صورت ہو رہی ہے، کہ چرم و استخوان باقی ہے، اور سر کے بال اور ناخن بڑھ گئے ہیں، سر اوندھائے بیٹھے ہیں۔ اور وہ حبشی بد ہیئت مسلح دونوں طرف کھڑے ہیں۔ سوداگر بچے کو اچنبھا آیا۔ لاحول پڑھ کر دوسری طرف جو دیکھا تو ایک دکان میں غالیچے بچھے ہیں۔ ان پر ایک چوکی ہاتھی دانت کی، اس پر گدیلا مخمل کا پڑا ہوا، ایک کتا جواہر کا پٹا گلے میں اور سونے کی زنجیر سے بندھا ہوا بیٹھا ہے، اور دو غلام امرد خوب صورت اس کی خدمت کر رہے ہیں۔ ایک تو مور چھل جڑاو¿ دستے کا لیے جھلتا ہے اور دوسرا مال تار کشی کا ہاتھ میں لے کر منہ اور پاو¿ں اس کا پونچھ رہا ہے۔ سوداگر بچے نے خوب غور کر کر جو دیکھا تو پٹے میں کتے کے بارہوں لعل کے جیسے سنے تھے موجود ہیں۔ شکر خدا کیا اور فکر میں گیا کہ کس صورت سے ان لعلوں کو بادشاہ کے پاس لے جاو¿ں اور دکھا کر اپنے باپ کو چھڑاو¿ں؟ یہ تو اس حیرانی میں تھا اور تمام خلقت چوک اور رستے کی اس کا حسن و جمال دیکھ کر حیران تھی اور ہکا بکا ہو رہی تھی۔ سب آدمی آپس میں یہ چرچا کرتے تھے کہ آج تک اس صورت و شبیہ کا انسان نظر نہیں آیا۔ اس خواجہ نے بھی دیکھا۔ ایک غلام کو بھیجا کہ تو جا کر بہ منت اس سوداگر بچے کو میرے پاس بلا لا۔ “

بات آگے بڑھاتے ہیں، متقدمین میں سرسید نے اپنے مضمون بحث و تکرار کا آغاز ہی کتوں سے کیا اور کچھ یوں کیا؛

“جب کتے آپس میں مل کر بیٹھتے ہیں تو پہلے تیوری چڑھا کر ایک دوسرے کو بری نگاہ سے آنکھیں بدل بدل کر دیکھنا شروع کرتے ہیں۔ پھر تھوڑی تھوڑی گونجیلی آواز ان کے نتھنوں سے نکلنے لگتی ہے۔ پھر تھوڑا سا جبڑا کھلتا ہے اور دانت دکھلائی دینے لگتے ہیں اور حلق سے آواز نکلنی شروع ہوتی ہے۔ پھر باچھیں چر کر کانوں سے جا لگتی ہیں اور ناک سمٹ کر ماتھے پر چڑھ جاتی ہے۔ ڈاڑھوں تک دانت باہر نکل آتے ہیں۔ منہ سے جھاگ نکل پڑتے ہیں اور عف کی آواز کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے چمٹ جاتے ہیں۔ اس کا ہاتھ اس کے گلے میں اور اس کی ٹانگ اس کی کمر میں۔ اس کا کان اس کے منہ میں اور اس کا ٹینٹوا اس کے جبڑے میں۔ اس نے اس کو کاٹا اور اس نے اس کو پچھاڑ کر بھنبھوڑا۔ جو کمزور ہوا دم دبا کر بھاگ نکلا۔ “

ہمیں اس ضمن میں یہ بھی شکایت معلوم ہوئی کہ اردو ادب میں کتوں کو ہمیشہ منفی کردار میں ہی پیش کیا گیا ہے۔ یا بہت کہہ لیجیے تو ہنسی مذاق دل لگی میں کتے در آئے۔ حالاں کہ پنجابی میں تو بلھے شاہ یہاں تک کہہ گئے کہ ” کتے تیتھوں اتے“ اور عربی میں خدا ہمیں خود سورہ کہف سے سبق دیتا ہے کہ اچھے لوگوں کی صحبت کا اثر ہمیشہ اچھا ہی ہو گا بھلے وہ مخلوق ایسی ہی کیوں نہ ہو جسے آپ اسفل اور ارذل جانتے ہیں۔ ابن کثیر فرماتے ہیں ”ان کا کتا بھی اس برکت میں شامل ہوا اس حالت میں انہیں جونیند آئی اس کتے کوبھی اسی طرح نیندحاصل ہوئی اوراچھے لوگوں کی صحبت کا یہی فائدہ ہے، جس کی بناپراس کتے کا بھی ان لوگوں ساتھ ذکراور شان ومقام ہوا۔ “

ابن انشا کہ فکاہیہ نثر میں بھی گویا سہل ممتنع کے بانی تھے اردو کی آخری کتاب میں کیا فرماتے ہیں؛

”ایک کتا لیلیٰ کا بھی تھا لوگ لیلیٰ تک پہنچنے کے لئے اس پیار کرتے تھے اس کی خوشامد کرتے تھے جس طرح صاحب سیکرٹری یا چپڑاسی کی کرنی پڑتی ہے۔ “ گویا یہاں بھی ہمارا بے زبان دوست منفی تاثرات کے ساتھ پیش ہوا۔

فیض صاحب کی شاعری میں بھی موصوف ہمہ صفت نظر آئے تو ہم نے سوچا اس کا ایک ٹکڑا بھی تبرکاً آپ کی نظر کر دیں۔ ” نہ آرام شب کو/ نہ راحت سویرے/غلاظت میں گھر/ نالیوں میں بسیرے/ جو بگڑیں تو اِک دوسرے سے لڑا دو/ ذرا ایک روٹی کا ٹکڑا دِکھا دو/ یہ ہرایک کی ٹھوکریں کھانے والے/یہ فاقوں سے اکتا کے مر جانے والے“ (”کتے“، نقش فریادی) جمیل جالبی اس نظم کے بارے میں لکھتے ہیں: ”فیض کی نظم ”کتے“ اردو ادب میں ایک نیا اضافہ ہے۔ اردو میں بہت کم نظمیں ایسی ہیں جو اس نوعیت اور صنف میں ملتی ہیں اور جو ہیں وہ اتنی خوش اسلوبی سے نہیں لکھی گئیں۔ ”کتے“ نیم سیاسی تمثیلچہ کی مثال ہے جس میں مضمون و معانی کے خزانے بکھرے پڑے ہیں۔ سوبرس کی ہندوستانی زندگی کے اخلاق و کردار، تہذیب و تمدن، ذہنی رجحان، پستی و ذلت اور احساسِ کمتری کو اس نظم میں اتنے مختصر اور اس قدر جامع الفاظ میں سمو دیا ہے کہ نظم ایک معجزہ سی معلوم ہونے لگی ہے۔ “ چلیے کہیں تو الفت ہائے سگاں کے مظاہر نظر آئے۔ اور ”یہ فاقوں سے اکتا کے مر جانے والے“ کی بلاغت کا تو بھئی جواب ہی نہیں۔ میر حسن دہلوی یاد آ گئے، وہ کیا بھلا سا مصرعہ تھا مثنوی میں، ”کڑے سے کڑے کو بجاتی چلی“۔

سگ شناسی کے سمندروں میں تھوڑی اور شناوری کی تو ایک ہم عصر نجیم شاہ یہ حکایت بیان کرتے نظر آئے، آپ بھی سنیے؛

“ایک کسان نے ایک گدھا اور کتّا دونوں پال رکھے تھے۔ ایک بوجھ ڈھونے کے کام آتا، دوسرا گھر کی رکھوالی کرتا۔ دونوں کو اپنی اپنی حد میں رہ کر کردار ادا کرنے کی تربیت دی گئی تھی۔ ایک دن گھر میں ایک چور داخل ہو گیا۔ فرض کتے کا تھا کہ ٓواز سن کر بھونکنا شروع کر دے مگر وہ آرام سے سویا رہا۔ گدھے نے کتے کو جگا کر اسے فرائض سے آگاہ کرنا ضروری سمجھا اور بتایا کہ گھر میں چور گھس آیا ہے۔ کتے نے ایک آنکھ کھول کر کہا میرا گلا خراب ہے اور مست ہو کر دوبارہ سو گیا۔ گدھے کو اپنے باپ کی نصیحت یاد آ گئی اور اپنے مالک سے وفاداری نبھانے کی خاطر اس نے زور سے آوازیں نکالنا شروع کر دیں (کیوں کہ اس وقت کتا اپنے کتے پن کا مظاہرہ کر رہا تھا)۔ چور گدھے کی آواز سے گھبرا کر بھاگ گیا لیکن مالک اس بے وقت کی راگنی سے پریشان ہو کر اٹھ بیٹھا اور گدھے سے کہا او بیوقوف گدھے! سونے کیوں نہیں دے رہا۔ گدھے نے سینہ تان کر کہا، حضور گھر میں چور آ گیا تھا اس لئے میں نے آپ کو خبردار کرنا ضروری سمجھا۔

مالک نے موٹا سا ڈنڈا پکڑ کر گدھے کی پٹائی شروع کر دی کہ یہ تیری ذمہ داری نہیں ہے۔ کتا چونکہ آرام سے سویا ہوا ہے اس کا مطلب ہے کہ چور نہیں آیا اور تو جھوٹ بھول کر میری ہمدردیاں حاصل کرنے کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔ کتا بڑے مزے سے کانی آنکھ کے ساتھ مالک کے ڈنڈے سے گدھے کی مرمت دیکھتا رہا۔ جب مالک چلا گیا اور گدھا رو رہا تھا تو کتے نے اس سے کہا ”آج کل کا انسان بہت بے رحم ہے اس کی انتہاپسندی میں اتنی وفاداری ٹھیک نہیں۔ تم سارا دن بوجھ اٹھاتے ہو اور رات کو پٹائی ہوتی ہے جب کہ میں صرف مالک کے آگے دم ہلاتا ہوں، مالک مجھے موتی موتی کہہ کر پکارتا ہے تمہیں گدھا گدھا کہتا ہے۔ تم ہمیشہ گدھے پن کا مظاہرہ کرتے ہو کبھی کتا پن بھی دکھا دیا کرو۔ “ حالاں کہ یہ حکایت کتوں کے باب میں ایک اور بدعنوانی ہے لیکن چلیے، کوئی سبق تو دیتی ہے اور بھئی اصلاحی تحاریر تو من حیث القوم ہم سب کی جان ہیں۔

اب ایک نظر پطرس بخاری صاحب کے فرمودات عالیہ در باب سگاں پر کیجیے کہ اس کے بغیر تو بات آگے نہیں بڑھنے کی۔

“خدا نے ہر قوم میں نیک افراد بھی پیداکیے ہیں۔ کتے اس کے کلیے سے مستثنیٰٰ نہیں۔ آپ نے خدا ترس کتا بھی ضرور دیکھا ہوگا، اس کے جسم میں تپّسیا کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں، جب چلتا ہے تو اس مسکینی اور عجز سے گویا بارگناہ کا احساس آنکھ نہیں اٹھانے دیتا۔ دم اکثر پیٹ کے ساتھ لگی ہوتی ہے۔ سڑک کے بیچوں بیچ غوروفکر کے لئے لیٹ جاتا ہے اور آنکھیں بندکرلیتا ہے۔ شکل بالکل فلاسفروں کی سی اور شجرہ دیوجانس کلبی سے ملتا ہے۔ کسی گاڑی والے نے متواتر بگل بجایا، گاڑی کے مختلف حصوں کو کھٹکھٹایا، لوگوں سے کہلوایا، خود دس بارہ دفعہ آوازیں دیں تو آپ نے سرکو وہیں زمین پر رکھے سرخ مخمور آنکھوں کو کھولا۔ صورت حال کو ایک نظر دیکھا، اور پھر آنکھیں بند کرلیں۔ کسی نے ایک چابک لگا دیاتو آپ نہایت اطمینان کے ساتھ وہاں سے اٹھ کر ایک گز پرے لے جالیٹے اور خیالات کے سلسلے کو جہاں سے وہ ٹوٹ گیا تھا وہیں سے پھر شروع کردیا۔ کسی بائیسکل والے نے گھنٹی بجائی، تو لیٹے لیٹے ہی سمجھ گئے کہ بائیسکل ہے۔ ایسی چھچھوری چیزوں کے لئے وہ راستہ چھوڑ دینا فقیری کی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ “

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain