خواجہ سگ پرست


میں نے یوپی کا شہر گورکھپور نہیں دیکھا، ضرورت بھی نہیں پڑی۔ فراق گورکھپوری صاحب، مجنوں گورکھپوری صاحب اور پھر شمشاد نبی ساقی فاروقی سے مل لیا، ان صاحبان کا لکھا ہوا پڑھتا رہتا ہوں۔ ۔ ۔ یوں سمجھئے شہر گورکھپور میں جتنا کچھ دیکھنے اور جاننے لائق ہوگا، حسین اور دل آویز ہوگا، تقریباً سبھی دیکھ لیا۔ شہروں میں اور ہوتا بھی کیا ہے؟

جی ہاں! ساقی گورکھپور میں پیدا ہوا تھا۔ ڈھاکے میں اس نے ابتدائی تعلیم حاصل کی، کراچی یونیورسٹی سے بی اے کیا۔ ایم اے انگریزی میں پڑھ رہا تھا تو لندن روانہ ہوگیا اور لندن یونیورسٹی میں انگریزی ادب میں داخلے کی کوششیں کرنے لگا۔ یونیورسٹی والوں نے کہا، ”یہاں تمھیں بی اے دوبارہ کرنا پڑے گا۔ “

ساقی نے کہا ”کرلوں گا۔ “
وہ بولے۔ ”ٹھیک ہے مگر انگریزی کے ساتھ یونانی اور لاطینی دونوں زبانیں پڑھنا ہوں گی تب کہیں جاکر بیچلر آف آرٹس کی سند ملے گی۔“

ساقی نے کہا ”یہ کیا سفلہ پن ہے؟ یونانی تو میں پڑھ لوں گا، ارسطو صاحب کی زبان ہے۔ ۔ ۔ اور سکندرِ اعظم کی بھی مگر لاطینی سے مجھے اصولی اختلاف ہے۔ “
انھوں نے پوچھا ”لاطینی سے کیا اختلاف ہے؟ “
ساقی نے کہا ”ہے بس کچھ۔ آپ کو کیا بتاؤں؟ “
انھوں نے کہا ”پھر بھی، کچھ تو کہیے؟ “

ساقی بولا ”چلیے یہی سمجھ لیجیے کہ امپیریل روما میں انسانوں کو غلام بنانے کا رواج تھا اور وہ اپنے غلاموں کو شہری رتبہ نہیں دیتے تھے تو اس بات پر میں بہت خفا ہوں، سمجھے آپ؟ میں لاطینی نہیں پڑھوں گا۔ “

لندن یونیورسٹی والوں نے کہا ”پھر تو ہم آپ کو داخلہ نہیں دیں گے۔ “
ساقی نے کہا ”داخلہ لے بھی کون رہا ہے؟ میں اپنے اصولوں پر سودے بازی نہیں کرسکتا۔ “ اور بات وہی ختم ہوگئی۔ چنانچہ ساقی فاروقی نے آگے جو کچھ پڑھا وہ اداروں وغیرہ کی دھونس دھڑی سے باہر رہ کر ہی پڑھا۔

ساقی فاروقی نے عمرِ عزیز کا بڑا حصہ گورکھپور، ڈھاکے، کراچی اور لندن میں گزارا ہے۔ وہ آسٹریا کے شہر وی آنا جاکے کئی کئی دن رہ پڑتا ہے کیونکہ وی آنا میں اس کا سسرال ہے اور اس کے سسر ہیں جو ہٹلر کے زمانے میں نازی تحریک میں شامل تھے۔

میں نے ساقی کو کراچی اور لندن میں اس کے دونوں گھروں میں دیکھا ہے۔ کراچی والے گھر میں دوسرے اہلِ خانہ کے برخلاف وہ ایسے رہتا تھا جیسے لوگ ہوٹلوں میں رہتے ہیں۔ کتابیں تک ”تھپّیاں“ بنا کر رکھتا تھا، گویا ادھر کوچ کا حکم ملا، ادھر بقچوں میں بھر کے روانہ ہوجائے گا۔ اس کے برعکس اپنے لندن والے گھر میں ساقی ٹھیک ٹھاک جم کے اور اپنی جڑیںوڑیں پھیلا کے بیٹھا ہے۔ اس حد تک کہ اس نے اپنے مرحوم کچھوے اور آنجہانی کتے ”کامریڈ“ کے مرقد بھی گھر کے عقبی لان میں بنا رکھے ہیں جس کی زیارت وہ ہر آتے جاتے کو کراتا ہے۔

میں اور برادرم جمال احسانی نے ”کامریڈ“ کتے کو زندہ حالت میں دیکھا ہے مگر جمال اس کی رحلت سے پہلے لندن چھوڑ چکے تھے وہ مدفنِ کامریڈ نہ دیکھ سکے، جبکہ اس خاکسار کو ”کامریڈ“ کی قبر پر ”احتیاطاً دو منٹ خاموش کھڑے رہنا پڑا۔

میں ہر گز ایسا نہ کرتا مگر ساقی نے بھونکنا شروع کردیا تھا، مجبوری تھی۔
ساقی فاروقی کے گورکھ پور اور ڈھاکے کے زمانہ ٔ جاہلیت (یا طفولیت) کے بارے میں مجھے کچھ زیادہ نہیں معلوم۔ ۔ ۔ اس وقت میں وہاں نہیں تھا۔

گورکھپور کے پس منظر کے بارے میں اتنا جانتا ہوں کہ ساقی کے داداخان بہادر خیرات نبی ریٹائرڈ ایس پی تھے اور بڑے دبنگ آدمی تھے۔ وہ سرسیّد کے پسندیدہ لباس یعنی تھری پیس سوٹ اور نکٹائی میں رہتے تھے اور کیونکہ خاصے وجیہہ بزرگ تھے، اس لیے تصویر میں بہت شاندار لگتے تھے۔ خان بہادر صاحب کی یہ تصویر کراچی میں ساقی کے دست گیر سوسائٹی والے ایک سو بیس گز کے کرائے کے مکان کے بڑے کمرے میں لگی رہتی تھی۔

مجھے یاد ہے، ہم لوگ پہلی بار ساقی کے گھر گئے(یہ سن اٹھاون کا قصہ ہے) تو یاس یگانہ چنگیزی کی کسی غزل کی تلاش میںوہ ہمیں لیے ہوئے اپنے ابا کے بڑے کمرے میں گھس گیا، وہاں پہلی اور آخری بار ہم نے یہ تصویر دیکھی۔ اس کے ابا گھر پر نہیں تھے اس لیے ساقی کو یقین تھا کہ یگانہ کی غزل کی بازیابی میں و ہ کامیاب ہوجائے گا۔

دراصل ساقی کے ابا (مرحوم) ڈاکٹر التفات نبی صاحب کو یگانہ اس قدر پسند تھا کہ وہ ساقی کے ذخیرہ ٔ کتب اور اس کے کاغذوں کے پلندوں سے ہر وہ رسالہ یا کاغذ کا پرزہ تلاش کر منگواتے تھے جس پر یاس یگانہ کا ایک بھی شعر لکھا ہو۔ خود وہ بہت مصروف آدمی تھے اس لیے غزلوں وغیرہ کی نقلیں تیار کرنے کا وقت کہاں سے لاتے۔ ساقی کو تاکید کردیتے تھے کہ بھئی غزل ابھی میرے پاس ہی رہنے دینا، پڑھ لوں گا تو لوٹا دوں گا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ یاس یگانہ کی شاعری کو کراچی کے نوجوان باقاعدہ دریافت کررہے تھے۔ یگانہ کا ایک نیا شعر بلکہ مصرع بھی نوجوانوں کے حلقوں میں خبر کا درجہ رکھتا تھا۔ خود یگانہ صاحب بہ قید حیات تھے۔ کراچی میں علامہ رشید ترابی صاحب قبلہ کی علمی مجلسوں میں یگانہ کا طوطی بولتا تھا یعنی بزرگوں اور نوجوانوں میں یہ دور یگانہ کی مقبولیت کا سنہری دور تھا۔

تو یگانہ کی غزل کی طفیل ہم نے خان بہادر خیرات نبی کی یہ شاندار رنگین تصویر دیکھ لی۔

میرے لڑکپن کی یادوں میں روغنی تصاویر کو ایک خاص اہمیت حاصل رہی ہے کہ خود میرے والد پورٹریٹ پینٹ کیا کرتے تھے۔ ساقی کے جد بزرگوار کی تصویر میں کوئی ایسی بات ضرور تھی جسے دیکھ کر میں نے کہا، ”واؤ ٔ! یار یہ کون شان دار بزرگ ہیں؟ “

”کون؟ کہاں؟ “ ساقی نے اپنی مصروفیت کی بیزاری میں پوچھا ”اچھا یہ؟ یہ میرے دادا ہیں مسٹر خیرات نبی۔ “
میں ابھی تک تصویر کے سحر میں تھا، میں نے پوچھا”یہ اپنے کوٹ کے سینے پر سرسیّد جیسا تمغہ کیا لگائے ہوئے ہیں؟ “

”کہاں؟ “ کہہ کر ساقی تصویر کی طرف مڑا۔ ”اچھا، یہ؟ ہنہ!“
میں کچھ نہ سمجھا، میں نے کہا، ”اچھا، یہ اور ہنہ! سے تمھاری کیا مراد ہے؟ یہ کیا کوئی تمغہ نہیں لگائے ہوئے؟ “
”ارے ہاں بھئی، انھیں۔ ۔ ۔ خان بہادر کا خطاب ملا تھا۔ ہنہ!“ ساقی نے اپنے ابا کی دراز کھول کر پھر کاغذ الٹنا پلٹنا شروع کردیے۔

مجھے اس کا یہ ہنہ، ہنہ والا رویہ برا لگا۔ کندھا تھپتھپا کر میں نے کہا ”ادھر دیکھو، بات سنو! یہ کوئی شرمندہ ہونے کی بات تو نہیں ہے۔ بہت سے پوتے اس بات پر فخر کریں گے کہ ان کے دادا کو خان بہادر کا خطاب ملا تھا۔ یہ تم نے کیا بکواس لگا رکھی ہے؟ “

ساقی نے تصویر کی طرف انگلی اٹھاکر کہا ”میں ان سے ناخوش ہوں۔ ۔ ۔ انھوں نے انگریز کا خطاب کیوں قبول کیا؟ “
قاضی محفوظ نے ساقی کو ٹوکا ”بھئی علامہ اقبال کو بھی تو سرکا خطاب ملا تھا؟ “

”کیا سمجھتے ہو، علامہ سے مجھے کوئی کم شکایت ہے؟ وہ تو ان کی شاعری کی وجہ سے درگزر کرتا رہا ہوں۔ یوں ہے میرے خان بہادر دادا اگر اقبال جیسا ایک بھی شعر کہہ دیتے تو ان کی خان بہادری کو میں معاف کرسکتا تھا، مگر وہ شعر ہی نہیں کہتے تھے۔ “ اس نے مڑ کر تصویر سے کہا ”سوری سر! مجبوری ہے۔ “ پھر چہک کر بولا ”اوہ! یہ رہی غزل۔ “

ساقی کو بالآخر دراز میں یگانہ والی غزل مل گئی تھی۔ ہم اس کے ابا کے کمرے اور داداکی تصویر سے باہر آگئے۔

دست گیر کالونی، فیڈرل بی ایریا کے اس گھر کا نمبر شمار 001 تھا جس میں ساقی نے اپنی تخلیق کاری، اپنی ذلت اور سرشاری اور عروج کا طویل زمانہ گزارا۔ سو نمبر کے اس مکان میں ساقی کے دوستوں کو بے وقت چائے پلانے، کھانا کھلانے اور باہر کمرے کی مسہری ہٹوا کر فرش پر گدے بچھوانے یعنی ہم خانہ بدوش شاعروں کو بسیرے کی اجازت دینے والی اس کی امی موجود تھیں۔ خدا ان کے درجات بلند کرے، وہ ایک نوع کی ”فلاحی مملکت“ تھیں۔ انھی کے بھروسے پر ہم میںسے کوئی بھی ساقی کے گھر کسی بھی وقت چلاجاتا اور فلاح پاتا تھا۔

فیڈرل بی ایریا ابھی پوری طرح آباد نہیں ہوا تھا۔ خدا معلوم دس بجے کہ گیارہ بجے یہاں بسیں بند ہوجاتی تھیں۔ ساقی فاروقی کا میزبانی والا ضمیر ہرگز کسی بھروسے کے قابل نہیں تھا۔ ہم ڈرتے ہی رہتے تھے کہ کہیں بارہ بجے رات کو یہ شخص اپنی نظمیں سنانے کے بعد ہمیں خدا حافظ کہتا ہوا دروازے تک نہ پہنچادے۔ لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ میلوں پیدل چلنا ہوگا۔ ہوسکتا ہے پولیس دھرلے، اگرچہ ایسا کبھی ہوا تو نہیں پھر بھی ایک خوف سا دل کو لگا رہتا تھا کیو نکہ بعض لوگوں نے خبر دی تھی کہ ساقی کی آنکھ میں کسی چوپائے کا بال ہے۔ (یہ خبر بعد کو جھوٹ نکلی) تاہم، کسی واقف حال نے یہ خوش خبری بھی دی کہ ساقی کے گھر پہنچ کر ایسا کیا کرو کہ بلند آواز سے امی کو سلام کرلیا کرو، یہ ضروری ہے۔ بس کسی طرح اس کی امی کو معلوم ہوجائے کہ ”بچے“ آئے ہوئے ہیں پھر وہ خود ہی سنبھال لیں گی۔ ماں تو پھر ماں ہوتی ہے۔

ساقی کتنا پرفن، پرفریب آدمی ہے، اس کا اندازہ ہمیں پہلی ملاقات پر ہی ہوگیا تھا یا یوں کہیے کہ پہلی ملاقات پر اندازہ نہ ہوسکا تھا، دوسری بار پہنچے تو معلوم ہوا کہ پہلی بار جو۔ ۔ ۔
مگر نہیں۔ یہ واقعہ مجھے ابتدا ہی سے سنانا پڑے گا۔

ہم دونوں کو پہلی بار کہاں، کس نے ملوایا، اب یاد نہیں۔ ہاں اتنا یاد ہے کہ صبح کے نو بجے سے رات کے آٹھ بجے تک ہم لوگ مختلف گھروں پر چائے، کھانے، سگریٹیں کھاتے پیتے رہے اور باتیں کرتے رہے۔ بہت سا پیدل چلے، بسوں میں بیٹھے اور آٹھ بجے کسی نہ کسی طرح دست گیر کالونی، ساقی کے ساتھ اس کے گھر پہنچ گئے۔ گھر پر اس نے ہمیں کھانا کھلایا، چائے پلائی اور کہنے لگا، ”اب میں تم کو ایسی جگہ لے جاکر بٹھاؤ ٔں گا کہ جس کی دل آویزی اور طراوت اور حسن کتابوں میں درج کیا ہوا تو شاید مل جائے، تم میں سے کسی کے ذاتی تجربے میں خدا کی قسم ایسی دل آویزی، طراوت اور حسن ہر گز نہ ہوگا۔ آو ٔ سب کے سب میرے پیچھے چلے آو ٔ۔ “

اگست کا مہینہ اور اماوس کی راتیں تھیں یعنی جب چاند بالکل نہیں نکلتا۔ اس وقت تک دست گیر کالونی میں اسٹریٹ لائٹس بھی نہیں لگی تھیں۔ ہم مکانوں کی قطار سے نکلے تو سامنے کھلا میدان تھا۔ گھپ اندھیرے میں ہماری رہنمائی کرتا ساقی فاروقی ہمیں سیمنٹ کی بنچوں تک لے گیا۔ کہنے لگا، ”بیٹھو اور گہرے گہرے سانس لو۔ یہ پُروائی ہے یا شاید اترپون ہے۔ ہاں ٹھیک تو ہے، اپنے سندھ میں بادِ شمال ہی بادِ بہارہوتی ہے یعنی ”اترادھی“۔ ۔ ۔ بہرحال جو بھی ہو۔ یہ سامنے حدِ نظر تک۔ ۔ ۔ یا اس وقت نظر نہیں آرہا تو اگلے چار فرلانگ تک۔ ۔ ۔ ایک لش گرین سبزہ زار کھلا ہوا ہے یعنی دست گیر پارک۔ ذرا سونگھوں اس ہوا میں نئی دوب کی خوشبو ہے، نمو کا سرسبز وعدہ۔ ۔ ۔ ہے نا؟ تو یہ وہ جگہ ہے یارو! جہاں بیٹھ کر میں نے اپنی بیش تر شاعری سوچی ہے۔ “ پھر اس نے کنار آب رکنا باد وگلگشت مصلیٰ والا مصرع پڑھا اور گہری گہری سانسیں لے کر بولا”اس تازگی اور سناٹے کو اور اس سبز خوشبو کو اپنے وجود میں اتر جانے دو۔ خوب اترجانے دو۔ سالو! ایسا مست ہرا سناٹا شہر میں اورکہیں نہیں ملے گا۔
ہاآ آہ! ہا!“

مضمون کا بقیہ حصہ پڑھنے کے لئے “اگلا صفحہ” پر کلک کریں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4