خالص گالی اور ملاوٹ شدہ دعائیں


آٹھ سو سال کی مسلم حکمرانی ختم ہوئی تو بد قسمت بادشاہ عبداللہ تھا جس کے ہاتھوں سے مسلم اجارہ داری کا خاتمہ ہوا تھا بادشاہ عبداللہ حکمرانی چھن جانے پہ رو رہا تھا کہ اس کی والدہ نے ایسے عظیم لفظ بولے جو تاریخ کی کتابوں میں سنہری طور پہ رقم ہوئے
Don‘t cry like a woman for what u could not defend like a man
“کیوں اس کے لئے ایک عورت کی طرح روتے ہو جسے تم ایک مرد کی طرح نہ بچا سکے“
یہود و نصاری تمہارے کبھی دوست نہیں ہو سکتے۔ (القرآن)

اھل مغرب(یہود و نصاری) ہمارے دوست نہیں دشمن ہیں یہ فیصلہ حتمی اور اٹل ہے کیوںکہ یہ قرآن مجید کا فیصلہ ہے چونکہ امریکہ ہمارا دشمن ہے تو دشمن ہمیشہ بے رحم اور ظالم ہوا کرتا ہےبز دل دشمن دشمنی کے بھلا کب آداب نبھاتے ہیں بزدل دشمن تو چھ ماہ کے بچے کو تیر مار کے ہنسا کرتا ہے دشمن تو بیمار عابد (زین العابدین) کے پاؤں میں بیڑیاں ڈال دیا کرتا ہے دشمن آپ کو ہر طریقے سے صرف ہرانے کامتمنی ہوتا ہے دشمن سے جنگ کی جاتی ہے جس میں جان لی جاتی ہے یا جان دی جاتی ہے ہم مسلم تو جنگ سے بچ جائیں تو غازی اور جنگ میں مارے جائیں تو شہادت کے اعلی مرتبے پہ فائز ہوا کرتے ہیں مگر کفار کے پاس جنگ میں صرف ایک ہی آپشن ہوتا ہے ژندہ رھنے کا اس لئے وہ اپنی زندگی کے لئے کسی حد تک جانے سے گریز نہیں کرتا بلکہ وہ جنگ میں نہ بچے دیکھتا ہے نہ عورتیں نہ بوڑھےاس نے ہر حال میں جنگ جیتنی ہے کبھی وہ ہمارے اوپر ڈارون پھینکے گا تو کبھی ٹیکنالوجی کی دنیا میں ہمیں پچھاڑے گا کبھی سائنس کے میدان میں ہمیں شکست سے دو چار کرے گا حتی کہ اب تو اخلاقیات بھی ہمیں اھل مغرب سکھا رہا ہے دشمن سے لڑنے کے لئے متعلقہ میدان میں مقابلہ کرنا پڑتا ہے سچ بتائیں ہم کس میدان میں دشمن کے مقابلے میں اترنے کے اھل ہیں کیا ہمارے پاس اتنی طاقت ہے کہ ہم کھلم کھلا اپنے دشمن کا مقابلہ کر سکیں کیا ہم نے ٹیکنالوجی کے میدان میں کوئی معرکہ سر کیا ہے کہ دشمن ہم سے ڈرتا پھرے۔ ہمارا اصل المیہ یہ نہیں ہے کہ ہم اس دنیا کو کچھ ٹیکنالوجی یا ترقی نہ دے سکے بلکہ اصل المیہ یہ ہے کہ ہم اس معاشرے کو اچھے انسان اور اچھے مسلمان بھی نہیں دے سکے ہیں ہم جو کہ بقول اقبال۔
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
تم خار ہوئے تارک قرآن ہو کر

جب تک ہم اپنے اسلاف کی تعلیمات پہ عمل پیرا رہے فتوحات ہمارا مقدر ہوا کرتی تھیں کامیابیاں ہمارے قدم چوما کرتی تھیں مگر جیسے جیسے ہم ان تعلیمات سے دور ہو رہے شکست در شکست حاصل کر رہے ہیں

قندوذ (افغانستان) حملہ جس میں 100 سے زائد ننھے حفاظ لقمہ اجل بن گئے ننھے پھول جو ابھی کلیوں کی شکل میں تھے مسلے گئے انسان اور مسلمان ہونے کے ناطے ہر دو صورتوں میں قابل مزحمت حملہ ہے لیکن کتنے سوالات ہیں جو ذہن کے دریچوں میں اترآئے ہیں
کیا میرا آپ کا یا کسی بھی شخصیت کا مذحمتی بیان اس بات کی دلیل ہے کہ آئندہ مستقبل میں ہم ان حملوں سے محفوظ رھیں گے؟
دشمن تو ہمیں ہر روز مارے گا تو اس کے لئے ہمارا لائحہ عمل صرف فیس بک پہ بیٹھ کے گندی اور ننگی گالیاں ہو گا یا اس سے آگے بھی ہم نکل سکیں گے؟

پنجابی کی کہاوت ہے کہ“ڈاڈھے دی مار کسے دیاں گالیں“ ایک طرف ہم خود کو جذبہ ایمانی سے بھر پور مسلمان کہہ کر یہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں کہ ہم دشمن سے کمزور نہیں ہیں بلکہ مقابلہ کرنے کی سکت رکھتے ہیں تو دوسری طرف اخلاق سے گری ہوئی گندی زبان (گالی) استعمال کر کے خود کو دشمن سے کمزور ثابت کر رہے ہیں

قندوز حملے کے بعد کتنے ہی مسلمان بیچاری ملالہ کو گالی نکال کر اپنی انا کی تسکین کر کے خود کو اھل ایمان ثابت کر رہے ہیں جیسے یہ حملہ ملالہ نے کیا ہو اور کتنے ملالہ کے نوبل ایوارڈ کو نشانہ بنا رہے ہیں کہ ملالہ نے ان سے ایوارڈ کیوں لیا۔
کیا ملالہ کے یورپ جانے سے پہلے یہ حملے نہیں ہو رہے تھے دشمن ہمارے بچوں کو نہیں مار رھا تھا؟
دشمن ہماری توہین نہیں کر رھا تھا؟

کچھ احباب فرما رہے ہیں کہ ملالہ کو چاہئیے کہ ”ھمارے“ لئے آواز بلند کرے گزارش ہے کہ پہلے آپ ملالہ کو تو اپناؤ اس کو تو اپنا مانو پھر وہ ”ھمارے“لئے آواز اٹھائے۔ جیسے ہم خود کو حدیث مبارکہ کا یہ حوالہ دے کر کہ ”برائی کو ہاتھ سے روکو اگر ہاتھ سے نہیں روک سکتے تو زبان سے منع کرو“ تو ہم پہلے نہیں ایمان کے دوسرے درجے کے حقدار بنے بیٹھے ہیں ہو سکتا ہے ملالہ ایمان کے آخری درجے میں ہو اور برائی کو دل میں برا سمجھتی ہو۔ اس لئے ملالہ کی خاموشی کو اس کا کمزور درجے کا ایمان سمجھ کے معاف کر دیا جائے۔ کہتے ہیں دنیا میں سب سے خالص جذبہ ”نفرت“کا جذبہ ہے میرے وطن میں تو یہ جذبہ خالص سے بھی خالص ملتا ہے پھر اتنی عمدہ اور خالص گالی سننے کو ملتی ہیں کہ کیا کہنے۔ یہاں خالص نہیں ملتی تو محبت خالص نہیں ملتی دعائیں خالص نہیں ملتی ملاوٹ شدہ دعائیں ملتی ہیں جو خدا کی بارگاہ میں بھی قبول ہونے سے قاصر ہیں تبھی تو فیس بک پہ مانگی ہوئی دعائیں اثر نہیں کر رھیں اور دشمن اپنا ظرف دکھا رھا ہے ویسے میرا نہیں خیال کہ مارک ذکر برگ ہماری گالی ڈونلڈ ٹرمپ تک پہنچاتا ہو گا اس لئے فیس بک پہ بیٹھ کے گالی دینے کے بجائے مسجد میں جا کر اللہ کے حضور ایک خالص دعا کر لینی چاھئے شاید قبولیت کا درجہ پا جائے ویسے بھی دشمن کے سامنے چیخنے چلانے سے مذاق ہی بنا کرتا ہے مسئلے کا حل نہیں نکلا کرتا۔

بطور پاکستانی ریاست ہم پاکستانیوں کی کتنی مجبوریاں ہیں کہ ہم از خود اس جنگ کا حصہ نہیں بن سکتے ہر ریاست کی اپنی اپنی پالیسیاں ہوتی ہیں جن کے تحت ریاست کام کیا کرتی ہے پہلے تمام اسلامی ممالک اس حوالے سے کوئی پالیسی تو وضع کرے تب جا کے مسلم اتحاد ممکن ہو گا جو 40 ممالک کی اتحادی فوج تیار ہوئی تھی وہ کیوں اتنے بڑے سانحے پہ خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے؟
کتنے دانشور، علماء اور اسلامی ممالک امریکہ کا بائیکاٹ کرنے کے لئے تیار ہیں؟

ڈونلڈ ٹرمپ نے صرف سات اسلامی ممالک پہ امریکہ داخلے پہ پابندی عائد کی تھی تو مسلمانوں نے چیخنا شروع کر دیا تھا۔ کتنے ہی علماء اور دانشور خود کو اور اپنے بچوں کو امریکہ رکھنا چاھتے ہیں مگر فیس بکی مجاھدین کے ساتھ پاکستان میں بیٹھ کر جہاد جہاد کر رہے ہوتے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).